دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سرائیکی وسیب سے لاہور تک ۔۔۔علی جان

آخرکب تک ہماری صحت و سہولیات کے لیے بلکنے والے بچوں کاحق عاقبت اندیشن سیاستدانوں کی پرتعیش زندگیوں کالقمہ بنتارہے گا؟

ایک لاہوری باشندے پرترقیاتی بجٹ کا 128 روپے خرچ ہونااورایک راجن پورکے ایک فرد پرصرف28 روپے فی کس خرچ ہونا، کیا انصاف کے تقاضوں کے مطابق سمجھاجائے گا۔ تخت لاہورنے جی بھرکے سرائیکی وسیب کے حقوق غصب کیے ہیں۔ہرمیدان میں سرائیکی وسیب کے ساتھ نا انصافی روا رکھی جاتی ہے۔

لاہور کی تقریباً ایک کروڑ آبادی اورسرائیکی وسیب کی 7 کروڑ آبادی کیلئے سہولیات کا ذراموازنہ توفرمائیں ۔ایک کروڑ آبادی والوں کیلئے24 یونیورسٹیاں اورسات کروڑآبادی والوں پر3یونیورسٹیوں کااحسان ۔کوئی اپر پنجاب کا بیمارہوتو15 بڑے ہسپتال اورکوئی سرائیکی وسیب کاآدمی بیمارہوتوصرف ایک ہسپتال ۔میٹرو سروس تومہینوں میں پایاتکمیل کوپہنچے جبکہ نشترگھاٹ پل کیلئے 60 سالوں سے زائدکاعرصہ انتظارمیں گزرے ۔

وہاں کچی آبادی والوں کیلئے کارپٹ روڈ اوریہاں لاکھوں کی آبادی والوں کیلئے سنگل روڈ جسے قاتل روڈ کانام دیاجاتاہے۔ جہاں آئے روز لوگ مرجاتے ہیں ۔سرائیکی وسیب کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کوئی نئی بات نہیں تخت لہورنے بڑے شوق سے وسیب کے حقوق کھائے ہیں۔

زندگی کی بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی اور وسائل پر دسترس نہ ہونے کے باوجودوسیب میں پیدا ہونے والے نوجوان ذہانت اور صلاحیتوں میں کسی سے کم نہیں ہیں۔ ایسےاہی ایک نوجوان میرے آج کے آرٹیکل کا موضوع ہے۔ عدنان فداسعیدی کے والد مذہبی محافل میں نقابت کے فرائض سر انجام دیتے رہے ہیں۔

ہمیشہ کی طرح بیٹے نے باپ کی فیلڈکوچنا۔ محفلوں میں والد کے ساتھ جاکرنعت خوانی کرنا اورخوب دادبٹورنا، اس نوجوان کا شیوہ بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئے روز ثناءخوانی رسول اور تقاریر کے میدان میں عدنان فدا سعیدی کی دلچسپی بڑھتی جا رہی ہے۔اس نے چھٹی جماعت میں بزم اویس قرنی کے زیراہتمام نعتیہ مقابلے میں نمایاں پوزیشن لی اس کے بعدآبائی علاقہ سے میٹرک اوراگریجویشن کرنے کے بعدپوسٹ گریجوئیشن کیلئے علی پورکالج میں داخلہ لیا ہوا ہے۔

وہ بچپن سے ہی ذوالفقارعلی بھٹوکوپسندکرتے تھے اوران کی کاپی کرکے تقریرکرنے کی کوشش کرتے۔2019ء کے الیکشن میں تحصیل پریس کلب جتوئی کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔ سرائیکستان ڈیموکریٹک پارٹی کے یوتھ کوآرڈینیٹر،تحصیل جتوئی،بزم اویس قرنی کے سیکرٹری جنرل ،TBI کے تحصیل صدر،اہلسنت تنظیمات کے انفارمیشن سیکرٹری کے فرائض انجام دے رہے ہیں ۔

بچپن سے تقاریرکاشوق، دیکھتے ہیں آپ کوکہاں لے جاتاہے ؟ یہ آپ نے سوچا نہ تھا مگرانقلابی لہجہ ولگن کی وجہ سے آپ نے 2016ء میں ہونے والے CM کمپٹیشن (ادبی پروگرام) میں ڈسٹرکٹ لیول پر3 پوزیشنیں لیں اورڈویژن لیول پرڈسٹرکٹ مظفرگڑھ میں اردومضمون نویسی میں واحد 1st پوزیشن حاصل کی ۔

سال 2017 میں 2ڈسٹرکٹ پوزیشنیں لی اور2 ڈویژن ۔جس کے بعدبھی کامیابیوں کاسلسلہ نہ رکا اور2018 میں منعقد ہونے والے CM کمپیٹیشن ڈسٹرکٹ لیول پہ مسلسل تین پوزیشنیں اورڈسٹرکٹ مظفرگڑھ کی نمائندگی کرتے ہوئے ڈویژن لیول پر ڈی جی خان میں 2 پوزیشنیں حاصل کیں اورپھر صوبائی سطح کوالیفائی کیامگرعمرہ پرحاضری کی وجہ سے مقابلے میں شرکت نہ کرسکے۔

سال 2019 کی بات کریں تواس بارسرائیکی شہزادے ہونے کافرض اداکیا اور CM کمیپیٹیشن برائے ادبی پروگرام میں ضلعی سطح پرمسلسل پہلی دوسری اورتیسری پوزیشنیں لی ۔ڈویژن لیول میں اردومضمون نویسی اور اردو مباحثہ میں بھی پہلی پوزیشن کے حقدارٹھہرے اورصوبائی سطح کیلئے کوالیفائی کیاجوسرائیکی وسیب کیلئے کسی اعزازسے کم نہیں تھا۔

جس کے بعدانہوں نے لاہورپہنچ کروہ کردکھایا جواان سے امید رکھی جا سکتی تھی۔ عدنان فداسعیدی نے 16 سال سے شروع ہونے والے CM کمپٹیشن برائے مضمون نویسی میں 1st پوزیشن حاصل کی جس کے بعدمبارکبادد ینے والوں کاتانتابندھ گیا۔ کچھ دن قبل ضلعی انتظامیہ کی جانب سے ’کشمیربنے گاپاکستان “ کے عنوان سے تقریری مقابلوں کاانعقادکیاگیا۔

ان مقابلوں میں عدنان نے اپنے آپ کو ایک مرتبہ پھرمنوایااوردوسری پوزیشن کے حقدارٹھہرے۔ لاہورمقابلوں میں شرکت کی غرض سے آمد پرمیں نے ان سے کہا کہ میزبانی کاشرف مجھے بخشیں، یہ میری خوش نصیبی تھی کہ وہ میرے پاس ٹھہرے۔ تقریب میں جانے کیلئے انہوں نے شلوارقمیض پہنی۔ میں نے شلوار قمیض میں ملبوس اس سرائیکی شہزادے کو نگاہ حیرت سے دیکھا ۔

بد نصیبی سے ان کے کال لیٹر پر تصویر اتر گئی تھی۔اور تقریب کا فوکل پرسن اوراتھارٹی لیٹرپرسے تصویراترجانے پرباربارتضحیک آمیزالفاظ داغ رہا تھا۔ میں نے دلاسا دینے کیلئے اتنا کہا مقابلے میں حصہ لے لیں ہارجیت مقدرہے، جیت نہ ملی توکیا ہوالاہورتوگھوم لیں گے۔

بظاہر میں اسے دلاسے دے رہا تھا مگر اندر میرے دل پر تیر چل رہے تھے ،پتہ نہیں عدنان فداکے ساتھ کیاہورہاہوگا ۔ بدقسمتی سے اگرکسی وسیب زادے کی کوئی پوزیشن آبھی جاتی ہے تو دوسرے ساتھی سوالوں کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں۔ آخرکب تک ہمارے ٹیلنٹ کی بے قدری کی جائے گی ؟ آخرکب تک ہمارے تعلیمی حصے کے فنڈ لہورکی گلی اورنالیوں کی تزائین وآرائش میں کی نظرہوتے رہیں گے؟

آخرکب تک ہماری صحت و سہولیات کے لیے بلکنے والے بچوں کاحق عاقبت اندیشن سیاستدانوں کی پرتعیش زندگیوں کالقمہ بنتارہے گا؟ آخرکب تک تخت لہورمیں سرائیکی ہوناسزاتصورکیاجائے گا؟ شلوارقمیض توپاکستان کاقومی لباس ہے پھرخودکوماڈرن سمجھنے والے لاہوری ایک طالبعلم کے لیے غیرموزوں لباس کیوں سمجھتے ہیں اپنے وسیب کی نمائندگی کرنے والے ٹیلنٹڈ طالب علم کو ”اچھاآپ“ کے طنز کاکب تک سامناکرناپڑے گا؟

کب تک ظلم وناانصافی کی رات ڈھلے گی؟ کب محبت وایثارکے جذبے پیداہوں گے کب حقائق آشکارہوں گے؟ کب حقوق کی یقینی فراہمی کاوعدہ پایہ تکمیل کوپہنچے گا؟ کب معیارتعلیم یکساں ہوگا؟ کب صحت کی یکساں سہولیات سے مستفیدہوں گے؟ کب وسائل کی منصفانہ تقسیم کے کھوکھلے نعروں کاباب بندہوگا؟ کب آخرکب ہروسیب میں رہنے والا ان سوالوں کے جواب چاہتاہے بلاشبہ تخت لہورسرائیکی وسیب کے بنیادی حقوق کاغاصب ہے اوراس بات کاادراک ہرصاحب فہم کوہے کچھ تواس وجہ سے چپ ہیں کہ کہیں ان پہ آفت نہ ٹوٹ پڑے ۔

About The Author