نومبر 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ڈیرہ۔ژوب شاہراہ اور دامان۔۔۔ گلزاراحمد

پہلے چشمہ رائیٹ کنال کے وقت بھی یہی ہوا کہ جب نہر مکمل ہوئی تو یہاں کا صدیوں سے مالک کسان زمین بیچ کے بے دخل ہو چکا تھا

روزنامہ اعتدال کے آج کے ویب سائیٹ پر اسلام آباد سے رپورٹر محمد اکرم عابد کے حوالے سے خبر چھپی ہے کہ پاک۔چین جوائینٹ کوارڈینیشن کمیٹی کے اسلام آباد میں منعقد ہونے والے اجلاس میں ڈیرہ۔ ژوب شاہراہ پر کام شروع کرنے کی منظوری دے دی گئی ہے۔

پاک چین جوائنٹ کوارڈینیشن کمیٹی در اصل سی پیک کے حوالے سے کام کی نگرانی کرتی ہے۔یہ بھی خبر ہے کہ کوہاٹ ۔ڈیرہ موٹر وے بھی سی پیک کا حصہ بن کر جلد تعمیر ہوگی۔ڈیرہ ژوب سیکشن 210 کلومیٹر لمبی شاہراہ ہے جو یارک سے سگو۔درابن ۔مغل کوٹ ۔دھناسر سے ہوتی ہوئی ژوب پہنچے گی۔ یارک تک پہلے ہکلہ ۔ ڈیرہ اسماعیل خان روڈ تکمیل کے آخری مراحل میں ہے اور اگلے سال چالو ہو جاے گی۔

285 کلو میٹر یہ موٹر وے ہکلہ فتح جنگ کے مقام سے شروع ہو کر میانوالی آ رہی ہے جہاں دریائے سندھ پر پل کراس کر کے یہ خیبر پختونخواہ داخل ہو تی ہے اور سیدھا یارک پر مکمل ہوجاتی ہے۔ یہ موٹر وے جب چالو ہو گی تو ہمارا اسلام آباد کا سفر چھ گھنٹے سے کم ہو کر آدھا یعنی تین گھنٹے رہ جائے گا۔

اسی طرح ژوب کا فاصلہ بھی آدھے وقت میں طے ہو گا۔اب دیکھنا یہ ہے کہ ان سڑکوں سے ہمیں کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟۔سب سے بڑا فائدہ جو نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ چونکہ ہمارے ملک کی معیشت زراعت پر مبنی ہے اس لیے زرعی پیداوار کی کھیتوں سے شہروں کو ترسیل تیز ہو گی اور کسان کو اس کی زرعی پیداوار کا مناسب معاوضہ ملے گا۔

چین میں جو چیز میں نے دیکھی ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے سڑکوں کے اردگرد زرعت پر مبنی صنعتیں قایم کر رکھی ہیں جن میں ان زرعی اجناس کو ویلیو ایڈڈ بنا دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور اگر کپاس کی پیداوار کا علاقہ ہے تو سڑک کے اردگرد کپاس صاف کرنے۔ دھاگہ بنانے اور کپڑا بنانے کے کارخانے موجود ہوتے ہیں۔اب تو ہمارا کسان کپاس اونے پونے بیچنے پر مجبور ہے اصل نفع تو ٹکسٹائیل ملیں کپڑا بنا کے کما رہی ہیں۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ کیونکہ یہ سڑک ہمارے دامان کے علاقے سے گزر رہی ہے اس لیے پورے پاکستان کے چالاک امیر لوگ دامان کے غریب لوگوں سے پہلے ہی اونے پونے زمینیں خرید لیتے ہیں اور جب سڑک مکمل ہو گی تو زمینوں کے مالک اپنی ہی زمینوں پر محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور اپنی نادانی کی وجہ سے خون کے آنسو بہاتے ہیں۔

پہلے چشمہ رائیٹ کنال کے وقت بھی یہی ہوا کہ جب نہر مکمل ہوئی تو یہاں کا صدیوں سے مالک کسان زمین بیچ کے بے دخل ہو چکا تھا اور آپ دیکھیں ان زمینوں کے مالک کہاں سے آے؟ حالانکہ اس وقت ایک قانون بنا تھا کہ یہاں کی زمینیں بیچی اور خریدی نہیں جا سکتیں لیکن قانون تو ایک جال ہوتا ہے جو کمزور کو جکڑ لیتا ہے اور طاقتور اس جال کو کاٹ کے صاف نکل جاتا ہے۔

افریقہ کے لوگ دلچسپ کہانی سناتے ہیں ۔افریقی کہتے ہیں جب انگریز مشنری یا تبلیغ کی غرض سے افریقہ پہنچے تو ان کے ہاتھ میں انجیل تھی اور ہمارے ہاتھ افریقہ کی زمینیں تھیں ۔ پھر انہوں نے کہا آپ آنکھیں بند کریں ہم پادری آپ کو عیسائی مذھب کی تبلیغ کرتے ہیں جب ہم نے آنکھیں کھولیں تو ہم افریقیوں کے ہاتھوں میں انجیل تھی اور افریقہ کی تمام زمینوں پر انگریز قابض ہو چکے تھے۔

دوسری بات جو میں نے چشمہ رائیٹ بنک کنال کی تعمیر میں دیکھی وہ یہ تھی کہ ہمارے ڈیرہ کے لوگوں کے پاس ماڈرن مشینری نہیں تھی جب چشمہ رائیٹ بنک کینال کا افتتاح ہو گیا تو یہاں کے کسی ٹھیکیدار نے چالیس پچاس گدھے کام پر لگا دیے جو نہر کی مٹی ہٹا کر نہر بنانے لگے۔

پھر باہر کے انجینیر۔ٹھیکیدار بمع مشینری کے آے اور سب کچھ کما کے چلے گیے اور ڈیرہ وال چوکیداری کی نوکری پر خوش تھے۔ اب دامان سے سی پیک گزر رہا ہے دامان کے لوگوں کو جدید ہنر سکھانا ضروری ہے۔چینی زبان کی کلاسیں لگانا چاہیں۔

زرعی پیداورا سے صنعتیں لگانے کی ترغیب اور مراعات دینا چاہیں۔ورنہ سی پیک کے اردگر ہمارے لوگوں کی پنکچر لگانے کی دکانیں ہو نگی اور سب کچھ باہر کے لوگ اپنے ہنر۔تعلیم ۔تجربے اور دولت سے کما کر لے جائینگے۔

ویسے دامان کے لوگ اب پڑھ لکھ کر کافی تجربہ حاصل کر چکے ہیں۔ چودھوان سے ہمارے زمیندار دوست سعداللہ خان بابڑ سے بات ہوتی رہتی ہے وہ ہیں تو بہت پڑھے لکھے اور سمجھدار دیکھتے ہیں وہ اس دفعہ دامانی بھائیوں سے ملکر سی پیک سے کیسے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔

About The Author