نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست پر سماعت کا احوال

منیر اے ملک نے جواب دیا کہبعض اہم فیصلے کرنا کابینہ کا نہیں وزیر اعظم کا اختیار ہے،آرمی چیف کی تقرری بھی وزیر اعظم کا آئینی اختیار ہے۔

اسلام آباد: سپریم جوڈیشل کونسل میں صدارتی ریفرنس پر کارروائی کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسی اور دیگر درخواستوں پر سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی ہے ۔

عدالت عظمی کے سینئیر جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رُکنی لارجر بنچ نے کیس کی سماعت کی ۔

جسٹس قاضی فائز عیسی کے وکیل منیر اے ملک نے آج اپنے دلائل کے آغاز میں کہا کہ صدر مملکت کو کابینہ کی ایڈوائس پر عمل کرنا چاہیے کیونکہ صدر مملکت کابینہ کی ایڈوائس پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔

منیر اے ملک نے کہا کہ وفاقی حکومت کے رولز کے تحت صدر مملکت وزیر اعظم کی ایڈوائس پر چلتے ہیں،صدر مملکت کا وزیر اعظم کی ایڈوائس پر چلنا قانون کی خلاف ورزی ہے۔ جج کیخلاف ریفرنس بھیجنا,جج کو عہدے سے ہٹانا فیڈریشن کا انتظامی اختیار ہے۔

جسٹس فیصل عرب نے کہا عدالتی فیصلے میں وزیر اعظم یا کابینہ کا ذکر ہے۔

منیر اے ملک نے جواب دیا کہبعض اہم فیصلے کرنا کابینہ کا نہیں وزیر اعظم کا اختیار ہے،آرمی چیف کی تقرری بھی وزیر اعظم کا آئینی اختیار ہے۔

منیر اے ملک نے کہا 18 ویں ترمیم سے قبل صدر مملکت وفاقی وزرا کی جانب سے بھیجی گئی ایڈوائس کو زیر غور لانے کیلئے کابینہ کو بھیج سکتے تھے،صدر وزیراعظم کی ایڈوائس کو بھی کابینہ کو بھیج سکتے تھے۔ صدر کابینہ کی ایڈوائس کے پابند تھے۔

قاضی فائز کے وکیل نے کہا 18  ویں ترمیم کے بعد صدر مملکت وزیراعظم اور کابینہ کی ایڈوائس پر 10 روز میں عمل کرنے کے پابند ہیں۔ اسمبلی کو تحلیل کرنے کیلئے صرف وزیراعظم کی ایڈوائس کافی ہے،صدر مملکت وزیراعظم کی ایڈوائس پر ہی وفاقی وزرا کا تقرر کرتے ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آئین ایک جگہ کہتا ہے کہ صدر مملکت اپنے صوابدیدی اختیار کا استعمال کرے گا،دوسری جگہ آئین صدر مملکت کو وزیراعظم کی ایڈوائس کا پابند کرتا ہے۔

منیر اے ملک نے کہاکہ وفاقی حکومت کے رولز آئین سے بالاتر نہیں،ماضی میں پارلیمنٹ کو یرغمال بنانے کیلئے ترامیم ہوئیں، مصطفی ایمپکس فیصلہ کے بعد صدارتی آرڈیننس کابینہ کی منظوری کے بغیرنہیں لایا جاسکتا ۔

جسٹس منیب اختر نے کہا  مصطفی ایمپکس فیصلہ سے قبل وفاقی حکومت کے قواعد کی روشنی میں ایڈوائس بھیجی جاتی تھی۔

اس پر منیر اے ملک نے جواب دیا کہ مصطفی ایمپکس کیس میں 18ویں ترمیم کے بعد وفاقی حکومت کے معادلات کی تشریح کی گئی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ صدر مملکت کسی ایڈوائس پر عمل کرتاہے،جب صدر مملکت نے کسی ایڈوائس پر چلنا ہے وہ اپنی رائے کیسے بنائے گا؟آرٹیکل 209 کے تحت صدر مملکت وفاقی حکومت کے معاملات کو تقویت نہیں دے سکتا ہے،کیا آئین میں کوئی ایسا آرٹیکل ہے جہاں صد مملکت نے اپنی رائے بنانا ہوتی ہے؟

منیر اے ملک نے کہا آرٹیکل 209 کے علاوہ کسی جگہ آئین میں صدر مملکت کو اپنی رائے کا اختیار نہیں دیا گیا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ مصطفی ایمپیکس کیس کے مطابق وفاقی حکومت سے مراد کابینہ ہے،عدالتی فیصلے میں صرف کابینہ کو بائی پاس کرنے کا اختیار ختم کیا گیا ہے۔

منیر اے ملک نے کہا کہ آئین بتاتا ہے کہ کہاں وزیراعظم اور کہاں کابینہ کی منظوری لازمی ہے،میرا موقف ہے کہ کابینہ کی منظوری کے بغیر ریفرنس بھیجنے پر اس کو کالعدم قرار دے دیا جائے۔

جسٹس یحیٰ آفریدی نے کہا آپ سپریم کورٹ کے ججز کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کی بات کر رہے ہیں، دلائل میں مدنظر رکھیں کہ عدلیہ پر چیک بھی ہونا چاہیے،یہ صرف جسٹس قاضی فائز عیسی کا کیس نہیں مستقبل کا اصول بھی طے ہوں گے۔

منیر اے ملک نے کہا کہ عدلیہ کا وقار اکاونٹبیلٹی پر منحصر ہے،ٹیکس کے معاملے پر مزید دلائل ساتھی وکیل بابر ستار کے دلائل کے بعد دوں گا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کیس کی آئیندہ تاریخ آفس کے زریعے بتا دی جائے گی،بینچ کی دستیابی کو مدنظر رکھ کر سماعت کی تاریخ مقرر کی جائے گی۔ کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردی گئی ۔

مزید پڑھیں:صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسی کی درخواست پر سماعت کا احوال

About The Author