ہمارے دوست انجم ریاض صاحب اپنے پاس ماضی کی یادوں کی تصاویر کا خزانہ رکھتے ہیں اور گاہے بگاہے وہ تصاویر فیس بک پر لگا کے ہمیں بھی ماضی میں لے جاتے ہیں ۔آجکل وہ لاہور گیے ہوے ہیں۔ گھومتے گھامتے وہ لکشمی چوک میکلوڈ روڈ جا نکلے اور کچھ ایسی باتیں لکھ ڈالیں جن سے ان مقامات کے فٹ پاتھوں پر سوۓ میرے ماضی کی یادوں کے خواب جاگنے لگے۔
لکشمی چوک میرے خوبصورت ماضی کا مسکن رہا تھا۔ ریاض انجم صاحب لکھتے بھی خوب ہیں اور ایک ایک کر کے آدمی ماضی کے دریچوں سے جھانکتے ہوۓ بالکل نئی دنیا میں کھو جاتا ہے۔ لکشمی چوک کے متعلق ریاض انجم صاحب لکھتے ہیں۔۔” میکلوڈ روڈ کا یہ لکشمی چوک کبھی ، پاکستان فلم انڈسٹری کا گڑھ ھوا کرتا تھا ( سنیماوں کے حوالے سے )
جب بھی کوئی نئی پاکستانی فلم ریلیز ھوتی — سب سے پہلے اس کا افتتاحی شو ، میکلوڈ روڈ کے انہی سنیماوں سے ھوتا تھا — اور فورا پتہ چل جاتا کہ فلم — ” ھٹ یا فلاپ ” چنانچہ اس چوک میں تصویریں لیتے ھوئے مجھے اپنے دور جوانی کی ، ھٹ ( Hit ) پاکستانی فلمیں یاد آنے لگیں !
سات لاکھ ، نوراسلام ، سہیلی ، نیند ، کوئل ، مکھڑا ، سرفروش ، آخری نشان ، چھومنتر ، شہید اور فرنگی وغیرہ ! ۔۔ایک جگہ لکھتے ہیں ۔۔۔جوانی میں ایک فلم دیکھی تھی ” مغل اعظم ” ! جس کا شمار بیسویں صدی کی Top 10 فلموں میں ھوتا ھے —- اس میں مدھوبالا کا ایک مشہور نغماتی رقص ” پیار کیاتو ڈرنا کیا ” –
بہت سوں کو یاد ھو گا““۔۔۔ریاض انجم صاحب کی باتیں یہاں ختم ہوئیں لیکن مغل اعظم کا ذکر کر کے انہوں نے اس وقت کی ایک شاہکار فلم بنانے والوں کا جذبہ اور شوق میرے ذھن میں تازہ کر دیا کہ تخلیق کار اس کام میں کن مراحل سے گزرتا ہے۔
فلم مغل اعظم بنانے والوں کے جنون اور مدھوبالا کے رقص کی کہانی بھی پڑھ لیتے ہیں ۔یہ فلم بمبئی میں 1944ء میں بننا شروع ہوئی اور سولہ سال بنتی رہی اور 1960ء میں ریلیز ہوئی۔ پیار کیا تو ڈرنا کیا۔۔نغمہ شوٹ کرنے پر اتنا خرچہ آیا جتنا باقی ساری فلم پر آیا۔اس گانے کو شوٹ کرنے کے لیے جو شیش محل بنایا گیا اس کو بنانے پر دو سال لگے اس کا شیشہ بیلجیم سے درآمد کیا گیا اور اس پر اس زمانے میں ایک کروڑ روپیہ خرچ ہوا۔شکیل بدایونی جب یہ نغمہ لکھ کر نوشاد کے پاس لاتا تو وہ کہتا مزہ نہیں آیا پھر لکھو چنانچہ شکیل بدایونی کو یہ نغمہ 101 بار لکھنا پڑا تب نوشاد نے اپروول دی۔
اس فلم کے ڈریس کو سینے کے لیے درزی دہلی سے بمبئی منگواے گیے۔اسی طرح کشیدہ کاری کے کاریگر سورت سے جیولری کے سنار حیدر آباد سے کراون ڈیزائین کاریگر کولاپور سے اسلحہ بنانے والے لوہار راجستھان سے منگوانے پڑے۔فلم میں حقیقی تاثر پیدا کرنے کے لیے مدھوبالا کو حقیقی لوہے کی زنجیریں پہنائی گئیں تاکہ اس کے چہرے سے حقیقی درد کا تاثر پیدا ہو سکے۔پرتھوی راجکپور جو اس وقت کا بہت بڑا ایکٹر تھا سے کہا گیا کہ وہ اپنا وزن بڑھاے تاکہ اصلی اکبر بادشاہ نظر آئے۔
اس کا پہلا سین 19 دفعہ شوٹ ہوا تب ایک سین مکمل ہوا۔ لارڈ کرشنا کا مجسمہ اصلی سونے کا بنایا گیا تاکہ صحیح تاثر پیدا ہو۔ ایک اور گانا ۔۔اے محبت زندہ باد ۔ایک ھزار سنگر نے ملکر گایا تاکہ ایکو یا گونج اصلی لگے۔ اسی طرح اس فلم میں دو ھزار اونٹ۔چار ھزار گھوڑےاور آٹھ ھزار سپاہی کراے پر لیے گیے۔اس میں کچھ انڈین آرمی کے اصلی سولجر بھی تھے۔1960ء میں جس دن یہ فلم ریلیز ہوئی اس ایک دن ایک لاکھ لوگوں نے فلم دیکھی۔
اس کہانی سنانے کا مقصد یہ ہے کہ کسی کاروبار۔کیریر یا تعلیم میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے ایک جنون کی ضرورت پڑتی ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر