اب دبے دبے لفظوں میں یہ سوالات اُٹھ رہے ہیں کہ کیا مولانا کے ساتھ ہاتھ ہوگیا؟ کیا مولانا نے غلط وقت پر آزادی مارچ شروع کیا تھا؟ کیا مولانا کی حکمت عملی غلط تھی؟ کیا مولانا ایک طے شدہ ایجنڈے کے تحت ایک خاص ڈیل کر کے آئے تھے اور کام پورا ہونے پر واپس چلے جائیں گے؟ کیا مولانا کے مطالبات غلط تھے؟ اور آخری سوال یہ کہ اب کیا ہوگا؟
مولانا فضل الرحمن ایک مخصوص پسِ منظر کے حامل زیرک سیاستدان ہیں۔ وہ گردوپیش کا جائزہ لے کر آگے بڑھنے، پیچھے ہٹنے یا جم کر کھڑے رہنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ کسی بھی فرد، سیاسی گروہ یا سیاسی تنظیم کے سیاسی عمل میں شامل ہونے کامطلب اپنے سماجی اور سیاسی تصورات اور نظریات کا پرچار اور ان نظریات اور تصورات کے نفوذ کےلئے اقتدار اور اختیارات کا حصول ہوتا ہے۔ مولانا بھی اقتدار اور اختیارات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ کیا اپنے آزادی مارچ کے ذریعے مولانا اقتدار کی منزل کے قریب ہوئے یا اس سے دُور ہوگئے ہیں۔ اس سوال سے پہلے ہم اپنے ابتدائی سوالات کی طرف آتے ہیں، یعنی کیا مولانا کے ساتھ ہاتھ ہوگیا اور کیا مولانا بند گلی میں پہنچ گئے ہیں؟ میرے خیال میں مولانا طفلِ مکتب نہیں کہ کوئی ان کے ساتھ کوئی کھیل کھیل جائے۔ مولانا کے کراچی سے اسلام آباد پہنچنے تک کم از کم ایک بات تو کُھل گئی ہے کہ اقتدار کے مراکز میں کسی نہ کسی سطح پر یکسوئی کا فقدان ہے اور داخلی تضادات جڑیں پکڑ رہے ہیں۔
تاہم یہ بات مولانافضل الرحمن، ان کی جماعت جمعیت علمائے اسلام، ان کی اتحادی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ(ن) پر واضح ہے کہ اقتدار کے مراکز کے داخلی تضادات اپنی گوناگوں پیچیدگیوں کے باوجود لاینحل نہیں ہیں۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ لاہور کا سیاسی موسم کسی حد تک خوشگوار ہوگیا ہے اور ناقابلِ برداشت حدت میں ایک حد تک کمی واقع ہوگئی ہے۔ لیکن کیا طاقت کے مراکز کے داخلی تضادات لاہور کے سیاسی موسم کے ناخوشگوار ہونے کے باعث پیدا ہوئے تھے۔ شاید معاملہ اس قدر سادہ نہیں۔ہمارے پیشِ نظر ایک سوال یہ بھی تھا کہ کیا مولانا نے غلط وقت پر اپنا آزادی مارچ شروع کیا۔ اس کا سادہ سا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ مولانا نے بغیر سوچے سمجھے سڑکوں اور شاہراہوں پر آنے کا فیصلہ نہیں کیا تھا۔ وہ ایک سال سے پاکستان بھر کے مختلف شہروں میں بڑی بڑی ریلیاں نکال رہے تھے، وہ اس حکومت کے برسرِاقتدار آنے پر ہی اس کے وجود کے جواز پر سوال اُٹھارہے تھے۔
اس وقت سیاسی فضا میں موجود تیسرا بڑا سوال یہ ہے کہ کیا مولانا کی سیاسی حکمتِ عملی غلط تھی؟ حکمتِ عملی کے درست یاغلط ہونے کا سوال اس امر سے جڑا ہوا ہے کہ مولانا نے ملکی تاریخ کی اتنی بڑی سرگرمی کے اہداف کیا مقرر کئے تھے؟ کیا ان کا واحد ہدف وزیر اعظم کا استعفی اورحکومت کا خاتمہ تھا۔
اگر یہ واحد ہدف تھا تو میری ناقص رائے کے مطابق یہ ہدف ہی غلط تھا اور اس ہدف کوحاصل کرنے کیلئے ہونے والی اتنی بڑی سرگرمی اسی طرح غلط تھی جس طرح ماضی میں حضرت علامہ طاہرالقادری اور عمران خان کی ایسی ہی سرگرمیاں غلط تھیں۔میرا اب بھی یہ گمان ہے کہ مولانا اقتدار کے مراکز کے داخلی تضادات کا ادراک کرتے ہوئے حکومت کی تبدیلی سمیت بعض دیگر اہداف کے ساتھ میدان میں اُترے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر کھیل ابھی تک جاری ہے ۔ سیاسی صورتحال کا کھوج لگانے والے اس سوال کا جواب بھی تلاش کررہے ہیں کہ کیا مولانا کسی سے ڈیل کرکے یا کسی سےڈیل کرنے کیلئےمیدان میں اُترے ہیں، مولانا ایک بڑے سیاستدان ہیں، وہ اپنے سیاسی اہداف حاصل کرنےکیلئے طاقت کے مراکز سے کوئی ڈیل کرسکتے ہیں یا کسی ڈیل کا تقاضہ بھی کرسکتے ہیں اور ڈیل ہوجانے کی صورت میں واپسی کا راستہ بھی اختیار کر سکتے ہیں یا معاملات طے نہ ہونے پر کسی نئے پلان کا اعلان بھی کرسکتے ہیں۔ مگر غالب امکان یہی ہے کہ مولانا ڈیل ہونے یا ڈیل کرنے کیلئے نہیں نکلے تھے۔ اب ذرا اس سوال کو پیشِ نظر رکھتے ہیں کہ کیا مولانا کے مطالبات غلط تھے، میری رائے میں سیاسی اور سماجی عمل کے دوران ہر طرح کے مطالبات کئے جا سکتے ہیں۔ البتہ سیاست کا سارا کھیل ممکنات اور مواقع کا کھیل ہوتا ہے۔ سیاسی عمل میں قطعیت اور حتمیت کا راستہ اختیار کرنے والا اپنے لئے خود ہی ایک دروازہ چھوڑ کر باقی سارے دروازے بند کر دیتا ہے، اب اصل سوال اس آخری سوال سے جڑا ہوا ہے کہ اب کیا ہوگا؟
آخری دروازہ پسپائی کا ہوتا ہے کیا مولانا نے واقعی اپنے لئے پسپائی کے علاوہ دیگر تمام دروازے بند کر دئیے ہیں یا وہ عمومی رائے کے مطابق محض ایک نکاتی ایجنڈے کے ساتھ آئے تھے اور شریف خاندان کی اہم شخصیات کی ضمانتوں کے بعد وہ مقصد پورا ہوگیا۔میرا گمان یہ ہے کہ مولانا محض اس ایک نکاتی ایجنڈے کے تحت آزادی مارچ لے کر نہیں نکلے تھے۔
مولانا کا اصل ٹارگٹ اب بھی حکومت کا خاتمہ اور وزیراعظم کا استعفی ہے۔ مگر اس شاندار عوامی مارچ کے بعد ان کی سب سے بڑی سیاسی غلطی حتمی مدت مقرر کرکے وزیر اعظم کا استعفی طلب کرنا تھا۔ دودن کا ہدف دینا سیاسی جلد بازی تھی۔ اگر وہ قطعیت کے ساتھ اپنی دوروزہ “مہلت” کا اعلان نہ کرتے تو بات بہت آگے تک جاسکتی تھی۔
اب کیا ہوگا؟ حکومت کے غیرلچکدار روئیے کے باعث مولانا کو کئی بڑی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں جو اس سے قبل علامہ طاہرالقادری اور عمران خان کے مارچ، دھرنے اور احتجاج کو حاصل نہیں ہوئی تھی۔ عمران خان اپنے دھرنے میں خود ہی یہ اعلان کرتے تھے کہ ایمپائر کی انگلی اُٹھنے والی ہے۔ مولانا کے پورے احتجاج پر اسٹبلشمنٹ کی ہم نوائی کا لیبل نہیں لگایا جاسکتا۔ مولانا کی دوسری بڑی کامیابی یہ ہے کہ مولانا کے احتجاج کے ضمن میں پشاور ہائی کورٹ اور اسلام آباد کورٹ کے فیصلوں سے یہ تاثر قائم ہوا کہ عدلیہ کسی ظاہری یا باطنی دباؤ کے بغیر فیصلے کررہی ہے۔ مولانا کی غالباً سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ انہوں نے دائیں بازو کے مقتدرہ کے بے دام غلام ہونے اور اس کے غیر جمہوریت پسند ہونے کا تاثر ایک حدزائل کردیا۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ آج سے چالیس پہلے محض جمہوریت بحال کرو کا نعرہ لگانے پر میمن مسچد کھارادر کے دروازے پر ملک کے جید مذہبی خاندان کے چشم وچراغ مولانا احترام الحق تھانوی کی داڑھی پکڑ لی گئی تھی اب کیا ہوگا؟؟ اب یہ ہوگا کہ غیر مشروط جمہوریت کیلئے دائیں بازو کا مذہبی طبقہ بھی صف اول میں اپنا کردار کرے گا۔ کیا ایسا ہوسکے گا؟ لگتا تو یہی ہے کہ ایسا ہوسکے گا۔
آخری دروازہ پسپائی کا ہوتا ہے کیا مولانا نے واقعی اپنے لئے پسپائی کے علاوہ دیگر تمام دروازے بند کر دئیے ہیں
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ