مولانا فضل الرحمن نے اپنی احتجاجی تحریک کے ذریعے بڑے بڑوں کو سامنے آ کر وضاحتیں پیش کرنے یا جواب دینے کے لیے مجبور کر ڈالا۔ اپنے اس پروگرام کے آغاز سے قبل ہی وہ ذہنی طور پر پوری طرح واضح اور یکسو تھے۔ بالکل اسی انداز میں آگے بڑھتے چلے گئے۔ ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں کو توقع ہی نہیں تھی کہ جے یو آئی (ف) اپنی تنظیم کے بل بوتے پر اسلام آباد میں لاکھوں کا اجتماع کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔
کراچی سے 27اکتوبر کو روانہ ہونے والا قافلہ ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑا ہوتا چلا گیا۔ 31اکتوبر کو وفاقی دارالحکومت میں ہونے والا شو اتنا بڑا تھا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے سربراہوں نے پورا لطف اٹھاتے ہوئے اپنی خطابت کے جوہر دکھائے۔ احسن اقبال اور خواجہ آصف جیسے سینئر سیاستدان کنٹینر پر کھڑے ہو کر سیلفیاں بنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرتے رہے۔
وفاقی دارالحکومت کی تاریخ کے اس سب سے بڑے جلسے میں اس وقت مضحکہ خیز صورت حال پیدا ہو گئی جب مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے خطاب کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کو پیشکش کی کہ اگر انہیں حکومت سونپ دی جائے تو 6 ماہ میں معیشت کو بہتر کر دیں گے۔ان کی یہ بات سن کر سٹیج پر موجود نو جماعتی اپوزیشن اتحاد کے رہنما حیرانی و پریشانی میں ایک دوسرے کو دیکھنے لگے گویا کہہ رہے ہوں ”
“میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب،
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں“۔
اسی دوران حکومتی شخصیات آپس میں الجھنا شروع ہو گئیں کہ آخر اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو اسلام آباد آنے کا موقع ہی کیونکر فراہم کیا گیا۔ روک تو انہیں کوئی راستے میں بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ یہ بات اب راز نہیں رہی کہ سول انتظامیہ، پولیس، ڈپٹی کمشنر حضرات نے حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ طاقت استعمال کرنے کا خیال ترک کر کے بات چیت کے ذریعے مسئلے کا حل نکالنے کی کوشش کی جائے۔
پوری دنیا نے دیکھا کہ احتجاج کے ان مراحل کے دوران حکومتی شخصیات کے چہروں پر ہوائیاں اڑرہی ہیں۔ چہرے زرد، دھمکیاں بھی دی جارہی ہیں تو کانپتے ہونٹوں کے ساتھ۔ خوف و خدشات کا یہ سلسلہ اس وقت اپنے عروج پر پہنچ گیا جب جمعہ کی شب مولانا فضل الرحمن نے وارننگ دی کہ حکومت کا ساتھ دینے والے ادارے راستے سے ہٹ جائیں۔یہی وہ لمحہ تھا جب حکمرانوں نے محسوس کیا کہ ان کی رٹ کا پٹاخہ بول چکا ہے۔
راولپنڈی میں رابطے کیے گئے تو ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایک مخصوص چینل پر آ کر مولانا فضل الرحمن کی گفتگو پر بات کی اور ساتھ یہ بھی کہا کہ کسی کو ملک میں انتشار پیدا کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ مولانا نے اسی رات ان تمام باتوں کا جواب دے کر حساب برابر کر دیا۔ یہ مشورہ بھی دیا کہ فوج قومی ادارہ ہے ہم کسی سے نہیں الجھنا چاہتے۔ بہتر ہو گا کہ سب آئین میں طے شدہ حدود و قیود کے اندر رہ کر کام کریں۔
ابھی کچھ دیر پہلے کور کمانڈر زکانفرنس کا اعلامیہ بھی سامنے آیا ہے۔ جس میں ایک طرف یہ کہا گیا کہ کسی کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے امن خطرے میں نہیں ڈالنے دیں گے، ساتھ ہی یہ مشورہ بھی ہے کہ مسئلے کے حل کے لیے تمام سٹیک ہولڈروں کو ہم آہنگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
اس اعلامیہ کے فوری بعد مولانا فضل الرحمن نے آزادی مارچ کے شرکاء سے پھر خطاب کیا اور اپنے مطالبات سے پیچھے ہٹنے سے انکار کر دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مولانا فضل الرحمن جس منصوبہ بندی کے ساتھ اسلام آباد پہنچے ہیں وہ حکومتی نظام کو الٹانے کے لیے کافی ہے۔ اس بڑے مجمع کا رخ جس طرف بھی ہو گیا آگے بڑھتا ہی جائے گا۔ مخصوص کمٹمنٹ کے ساتھ آنے والے شرکاء کو دھمکیوں تو کیا تشدد کے ذریعے بھی پیچھے نہیں ہٹایا جا سکتا بلکہ اس کا الٹا اثر ہو گااور جو نتائج نکل سکتے ہیں اس کا اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے۔
ایک سینئر مگر پرلے درجے کے احمق نے لکھا ہے کہ مارچ کے شرکاء جس مقام پر ہیں وہاں انہیں آسانی سے قابو کیا جا سکتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کو بغاوت کے کیس میں پکڑ کر پوری پارٹی پر پابندی لگائی جا سکتی ہے۔
ایک دوسرے سینئر کالم نویس نے جو مشہور ہی اپنی بدنیتی کے لیے ہیں لکھا ہے کہ مولانا کے ساتھ موجود دیگر تمام سیاسی جماعتوں کے رہنما پاکستان مخالف ہیں۔ حب الوطنی کا چورن بیچنے والے ایسے گھٹیا صحافتی عناصر ایک طویل عرصے سے ملک میں جمہوری حکومتوں کے خلاف کنفیوژن اور نفرت پھیلا کر آئین شکنی اور معاشرے کو سخت نقصان پہنچانے کے جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں۔
پاکستان میں اگر کبھی صحیح معنوں میں جمہوریت بحال ہو گئی تو ایسے عناصر کی بھی سرکوبی کرنا ہو گی۔ اپوزیشن جماعتوں میں حکمت عملی کے حوالے سے خواہ کتنے ہی اختلافات ہوں ان کے بنیادی معاملات حکومت کا خاتمہ اوراداروں کی مداخلت سے مکمل طور پر پاک نئے الیکشن ہیں۔
حقیقت یہی ہے کہ کوئی بھی جماعت اس سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ ٹھیک ہے کہ میدان میں عملاً صرف مولانا فضل الرحمن اور ان کی جماعت ہے لیکن یہ سب کو یاد رکھنا چاہیے کہ کسی حکومتی کارروائی کے نتیجے میں پوری اپوزیشن اپنے تمام تر اختلافات بھلا کر فی الفور یکجا ہو جائے گی۔
اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطے میں ہونے والے اپوزیشن لیڈر بھی جانتے ہیں کہ ان کی موجودہ حیثیت کی سب سے بڑی وجہ جے یو آئی (ف) کا احتجاج اور اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد ہے۔
ایک لطیفہ یہ بھی ہے کہ ان دنوں بعض عناصر اپوزیشن جماعتوں کو دھمکارہے ہیں کہ ان کی تحریک کے نتیجے میں کوئی غیر آئینی کارروائی ہو سکتی ہے، یعنی مارشل لاء لگ سکتا ہے، اپنے اہل خانہ سمیت جیلوں اور ہسپتالوں میں پڑے سابق صدر و وزیراعظم ،کڑے احتساب کا سامنا کرتے ان کے جانثار ساتھی اداروں کے امتیازی سلوک کے باعث پہلے ہی پوری طرح سے شکنجے میں ہیں، ان کے نزدیک کیا مارشل لاء اورکیا عمرانی جمہوریت،ایسے میں مارشل لاء کی دھمکی دینا بالکل اسی طرح سے ہے جیسے تالاب میں کھڑے ہوئے شخص کو دھمکی دی جائے کہ تم پر پانی کی بالٹی انڈیل دی جائے گی۔
مولانا فضل الرحمن ویسے خود بھی کوئی معمولی سیاستدان نہیں۔ امریکہ، برطانیہ، روس چین،ایران، سعودی عرب،امارات، بھارت سمیت دنیا بھر میں ان کے نہ صرف تعلقات ہیں بلکہ چاہنے والے بھی موجود ہیں۔
2018 ء کے انتخابات میں دھاندلی بھی ایک بین الاقوامی ایشو بن چکی ہے۔ عقل کے اندھے جو یہ سمجھتے ہیں کہ جے یو آئی (ف) کو مذہبی جماعت ہونے کی بنیاد پر سختی سے دبایا جا سکتا ہے ان کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔
مزید یہ کہ کم و بیش تمام اپوزیشن جماعتوں کے کارکن دھرنے کے حامی ہیں۔ قیادت کی مصلحتیں اپنی جگہ لیکن سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا موقف بھی یہی ہے کہ جبراًمسلط کی جانے والی اس حکومت کو احتجاج کی طاقت سے اکھاڑ پھینکنا چاہیے۔
مقام شکر ہے کہ تیز و تند تقاریر کے بعد اب کسی حد تک اعتدال نظر آرہا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے فی الحال ڈی چوک تک نہ جانے کا کہا ہے تاہم جیل بھرو تحریک،سارا ملک بند کرنے، شٹر ڈاؤن، ہڑتال اور دیگر آپشنز کا بار بار ذکر کیا جارہا ہے۔
اپوزیشن جماعتوں کی قیادت کی اس اپروچ کو سراہا جانا چاہیے کہ پوری کوشش کررہے ہیں کہ ملک و قوم کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ لاکھوں کے اجتماع کا کراچی سے اسلام آباد اور ملک کے تمام صوبوں سے وفاقی دارالحکومت تک کا احتجاجی مارچ ایک بھی پتہ توڑے بغیر مکمل ہو گیا۔
جلسہ گاہ میں بھی صفائی ستھرائی، نمازوں اور تلاوت کا اہتمام ہے۔ ایسا احتجاج تو یورپ میں بھی نہیں ہوتا۔ گیند اب حکومت کی کورٹ میں ہے کہ وہ مناسب حل نکال کر معاملات کو پوائنٹ آف نو ریٹرن پر جانے سے روکے۔
یہ وہی ملک ہے جہاں آدھا ملک ٹوٹ کر بنگلہ دیش بن گیا مگر آج کسی کے ماتھے پر شکن تک نہیں۔ 5اگست 2019 ء کو انڈیا نے مقبوضہ کشمیر ہڑپ کر لیا مگر ہماری محفلیں پہلے سے بھی زیادہ آباد ہیں۔
ایسے مائنڈ سیٹ کی موجودگی میں ملکی املاک اور مفادات کے تحفظ کے لیے اپوزیشن جماعتوں کا عزم قابل تحسین ہے۔ حالانکہ اس حکومت کی نااہلی اور غلط پالیسیوں کے باعث کوئی شعبہ ایسا نہیں جو زچ نہ بیٹھا ہو ، عوام غصے سے بھرے ہوں تو احتجاج کے لیے ایک ہلکا سا اشارہ ہی کافی ہوتا ہے ، بہرحال اس وقت تک مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے۔
امید کی جانی چاہیے کہ کوئی بہتر حل نکلے گا۔ مظاہرین بھی موجود ہیں اور میدان بھی لگ چکا ہے۔ مطالبات پر قومی اتفاق رائے ہے۔ ایسے میں جو جماعت یا لیڈر اپنے طور پر زیادہ ہوشیاری دکھاتے ہوئے انفرادی ڈیل کرنے کی کوشش کریں گے ذلالت ہی کمائیں گے ۔ کسی کوشک ہے تو اپنا حال اور ماضی دیکھ لے۔ اس مرحلے پر اتنا ہی یاد رکھا جائے کہ اتفاق میں برکت ہے تو احتجاج میں بھی برکت ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ