یہ ان دنوں کی بات ہے، جب سید غلام مصطفی شاہ نے 1969ء میں سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر کا منصب سنبھالا تھا۔قبل ازیں دوسال قبل مارچ 1967ء میں اس یونیورسٹی کے طلباء ایک تاریخ ساز جدوجہد کی بنیاد رکھ چکے تھے۔ اگرچہ ابتدائی طور پر یہ تحریک اس وقت کے حیدرآباد کے کمشنر مسرور حسین کے غیر قانونی اقدام کے ردعمل میں شروع ہوئی تھی۔ انہوں نے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے وائس چانسلر حسن علی عبدالرحمن کو ان کے منصب سے ہٹا دیا تھا۔ حسن علی عبدالرحمن شیری رحمن کے والد اور ون یونٹ کے خاتمے کے بعد سندھ بلوچستان ہائیکورٹ کے پہلے چیف جسٹس طفیل علی عبدالرحمن کے بڑے بھائی تھے۔سندھ ینیورسٹی کے طلبا کی چار مارچ کی تحریک آگے چل کر پاکستان میں ون یونٹ کے خاتمے، انتخابی فہرستوں کی سندھی میں اشاعت، سندھی زبان کی ترویج و ترقی اور جمہوری عمل کی مکمل بحالی کیلئے سنگِ میل قرار پائی۔ اس تحریک کے مرکزی کرداروں میں یوسف لغاری، مجیب پیرزادہ، نواب یوسف ٹالپر، ڈاکٹر کامل راجپر، اقبال ترین اور دیگر نامور لوگ شامل تھے ان میں سے زیادہ تر لوگ الحمد للہ اب بھی حیات اور سلامت ہیں ۔
اسی دور میں پاکستان میں اس خطرناک کھیل کا آغاز ہوا جو آگے چل کر بنگال کی علیحدگی پر منتج ہوا۔ اہل وطن کو بہت بعد میں فیلڈ مارشل ایوب خان کی ڈائریوں اور خان عبدالولی خاں کے انکشافات پر مبنی سوانحعمری اور دیگر دستاویزات سے یہ
معلوم ہوا کہ ریاستی مقتدرہ کافی عرصہ پہلے ہی بنگال کو الگ کرنے کافیصلہ کرچکی تھی۔
ایوب خان نے 1956ء کے آئین کو توڑکر اسکندر مرزا کو ملک بدر کرنے کے بعد صدر اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے طور پر اقتدار سنبھالا اور اپنی سہولت کیلئے 1962ء میں محض اپنی ذات کو مدنظر رکھ کر آئین کی تشکیل کی، جسے ہمارے بزرگ سیاستدان ایم حمزہ نے لائل پور کا گھنٹہ گھر قرار دیا تھا۔ پرانے لائل پور(فیصل آباد) کی تمام گلیاں گھنٹہ گھر پر آکر ختم ہوتی ہیں، چنانچہ 1962ء کے آئین میں تمام اختیارات کا مرکز ایوب خان کی ذات تھی اور اقتدار کی ہر گلی اور ہر شاہراہ ایوب خان کی ذات پر آکر ختم ہوتی تھی۔ اس قدر اختیارات کے باوجود جب ایوب خان کو اقتدار چھوڑنا پڑا تو انہوں نے اپنے ہی بنائے ہوئے شخصی اقتدار کی مرکزیت کے حامل آئین کو تاراج کرتے ہوئے منصبِ صدارت اسپیکر قومی اسمبلی کے حوالے کرنے کے بجائے اپنا عہدہ اور تمام آئینی اور غیر آئینی اختیارات فوج کے سربراہ جنرل یحیحی خان کے حوالے کردیئے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب سید غلام مصطفی شاہ کو سندھ یونیورسٹی کا وائس چانسلر مقرر کیا گیا تھا اور یہی وہ زمانہ تھا جب جدید نوآبادیاتی ریاستی مقتدرہ بنکال اور سندھ کو ان کی کسی حد ترقی یافتہ مقامیت کی وجہ سے انہیں سزا دینے پر تل چکی تھی۔
یہ انہی دنوں کا ذکر ہے جب بنگال کے تباہ کن سیلاب میں لگ بھگ ڈھائی لاکھ افراد کی ہلاکت کے بعد مشرقی پاکستان کے لوگوں کو ان کے ہی حال پر چھوڑ دیاگیا۔ ڈھاکہ، چٹاگانگ، سلہٹ، کھلنا، نواکھلی اور دیگر علاقوں میں بھوک، بیماری، بے گھری اور دربدری کے باوجود اکتوبر کے انتخابات کو دسمبر تک ملتوی کیاگیا۔ اس پر مستزاد یہ کہ شیخ مجیب الرحمن کے بعد بنگال کی دوسری بڑی سب سے طاقتور سیاسی شخصیت مولانا عبدالحمید بھاشانی کی طرف سے سیلاب کی تباہ کاریوں کے باعث انتخابات کے بائیکاٹ کے اعلان کو بھی خاطر میں نہ لایا گیا، کیونکہ بنگال کو الگ کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا تھا۔ اگر مولانا بھاشانی الیکشن میں حصہ لیتے تو بنگال میں ایک توازن قائم ہوسکتاتھا اور مولانا بھاشانی کی نیشنل عوامی پارٹی بنگال کی دوسری سب سے بڑی پارٹی کے طورپر ابھر کر سامنے آسکتی تھی مگر پاکستان کی ریاستی مقتدرہ کو اپنے اہداف حاصل کرنے کی جلدی تھی چنانچہ 1970ء کے انتخابات کا انعقاد کرالیا گیا، جس کے نتیجے میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ قطعی اکثریت لے کر کامیاب ہوگئی۔ شیخ مجیب نے اپنے چھ نکاتی پروگرام پر الیکشن لڑا۔ ذرا چھ نکات ملاحظہ کیجیئے۔
پہلا نقطہ: ملک کا دستور قرارداد لاہور کے مطابق بنایا جائے گا اور وفاقی قانون ساز اسمبلی میں صوبوں کی نمائندگی آبادی کے اعتبار سے ہوگی۔
دوسرانقطہ: وفاق کے پاس صرف دو محکمے دفاع اور امور خارجہ ہوں گے۔جب کہ دیگر تمام محکمے وفاقی یونٹوں کے پاس ہوں گے۔
تیسرا نقطہ: ملک کے مشرقی اور مغربی حصوں میں دو الگ الگ کرنسیاں ہوں گی اور دونوں حصوں کے زرِمبادلہ کے ذخائر بھی الگ الگ ہوں گے۔
چوتھانقطہ: ملک میں ٹیکسوں کے نفاذ اور ٹیکسوں کی وصولی کا اختیار صوبوں کے پاس ہوگا۔وفاق کو اس کی ضرورت کی رقوم صوبے فراہم کریں گے۔
پانچواں نقطہ:مغربی اور مشرقی پاکستان کے زرِمبادلہ کی صورت میں آمدنیوں کے اکاؤنٹس الگ الگ ہوں گے۔
چھٹا نقطہ: مشرقی پاکستان کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ اپنی ملیشیا یا پیراملٹری فورس(فوج) قائم کرے جو مکمل طور پر صوبائی حکومت کے ماتحت ہوگی۔
یہی وہ دور تھا جب متحدہ پاکستان کے آخری وزیر تعلیم شمس الحق نے اسلام آباد میں بعض سیاسی شخصیات ،اسکالرز، ماہرین تعلیم اور دانشوروں کو ڈنر میں شریک ہونے کی دعوت دی۔ وزیر تعلیم کا تعلق بنگال سے تھااور ان کی سید غلام مصطفی شاہ سے 1948ء سے دوستی چلی آرہی تھی۔ مہمانوں کی فہرست میں سید غلام مصطفی کا نام بھی شامل تھا۔ مجموعی تین درجن مہمانوں میں میزبان سمیت صرف چار بنگالی شریک تھے۔ حالات حاضرہ پر بحث ہورہی تھی، انتخابی نتائج پر تبصرے ہورہے تھے۔ شیخ مجیب کے چھ نکات، ان کے اثرات اور ان پر عملدرآمد کی صورت میں ممکنہ نتائج پر گفتگو ہورہی تھی۔
بنگالی مرکزی وزیر کی موجودگی میں شیخ مجیب اور بنگالیوں کے بارے میں سخت جملے ادا کئے جارہے تھے۔ شیخ مجیب اور انہیں ووٹ دینے والے کروڑوں ووٹرز کو غدار اور احسان فراموش کہا جارہا تھا۔ چھ نکات کو قومی یکجہتی کے خاتمے کا اعلان کہا جارہا تھا، ہر منہہ پر اپنی بات اور اپنا تبصرہ تھا۔ ایسے میں میزبان یحیحی کابینہ کے آخری بنگالی وزیر تعلیم نے مجمع کو مخاطب کیا “حضرات! میں شیخ مجیب سے چھ نکات واپس لینے کی بات منوانے کا وعدہ کرتا ہوں آپ میرا صرف ایک نقطہ مان لیں” سید غلام مصطفی شاہ سمیت سارے مہمان شمس الحق کی طرف دیکھتے ہوئے ہمہ تن گوش ہوگئے، مہمانوں میں موجود دیگر تین بنگالی بھی حیرت زدہ ہوکر شمس الحق کا منہہ دیکھنے لگے۔ یہ تینوں بنگالی بھی یحیحی کابینہ کے وزیر تھے۔ سب لوگ پوری طرح شمس الحق کی طرف متوجہ ہوچکےتھے۔ یہی شمس الحق مشرقی پاکستان کےبنگلہ دیش بن جانے کے بعد وہاں کےوزیر خارجہ بھی بنےتھے۔ شمس الحق نے کھنکار کر اپنا گلا صاف کیا اور اپنا واحد نقطہ بیان کرنے لگے۔”حضرات میں آج ہی شیخ مجیب سے مل کر انہیں چھ نکات واپس لینے پر آمادہ کرتا ہوں، آپ صرف ایک نقطہ مان لیں اور وہ نقطہ یہ ہےکہ پاکستان کا دارالحکومت اسلام آباد سے ڈھاکہ منتقل کردیں” پورے مجمع کو سانپ سونگھ گیا۔ ماحول پر گہری خاموشی چھا گئی۔ لگتا تھا کہ مجمع میں بم پھٹ پڑا ہے گویا شمس الحق نے اقتدار کے مرکز میں طاقتور شخصیات کی موجودگی میں دھماکہ کردیا تھا۔ طویل خاموشی کے بعد پہلی آواز ابھری”یہ کیسے ہوسکتا ہے” دوسری آواز آئی”سوال ہی پیدا نہیں ہوتا” تیسری آواز سنائی دی “اب ہم سے ایسے مطالبات کئے جائیں گے” اس موقع پر موجود سجاول سے تعلق رکھنے والے واحد سندھی مہمان سید غلام مصطفی شاہ نے نہایت دلدوز آواز میں کہا “بھائی مل کر ملک کو بچا لو خواہ اس کی کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے، ہمارےلئے بنگال کے بغیر جینے کا تصور ہی قیامت خیز ہے”
سید غلام مصطفی نےاس عاجز کو بتایا تھا کہ اس ماحول میں شمس الحق نے نہایت دُکھی ہوکرکہا کہ حضرات کیا آپ پاکستان کو متحد رکھنا نہیں چاہتے، کیا آپ قومی یکجہتی کی اس قدر معمولی قیمت بھی ادا نہیں کرنا چاہتے تو پھر آئیے متحدہ پاکستان کے خواب کے ٹوٹ جانے پر ڈنر تناول فرمائیے، سید غلام مصطفی شاہ نے بتایا کہ اس روز میں نے اپنی زندگی کا سب سے بدمزہ ڈنر کیا۔
سید غلام مصطفی نےاس عاجز کو بتایا تھا کہ اس ماحول میں شمس الحق نے نہایت دُکھی ہوکرکہا کہ حضرات کیا آپ پاکستان کو متحد رکھنا نہیں چاہتے
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ