سندھ سرائیکستان کی قدیم سانجھ کے حوالے سے گزارشات
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری آج سرائیکی وسیب کے دورے پر رحیم یارخان پہنچ رہے ہیں ۔
بلاول ، آصف زرداری اور حاکم علی زرداری کے لخت جگر ہیں جو کہ سندھ کے سرائیکی ہیں ۔ اس لحاظ سے بلاول بھٹو بھی سندھی بعد میں سرائیکی پہلے ہیں ۔ سندھ سرائیکستان کے تاریخی ، ثقافتی ، جغرافیائی ،معاشرتی ، لسانی تعلق کی سانجھ صدیوں سے موجود ہے۔ اسی اشتراک اور تعلق کو ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی نبھایا ۔ آج بلاول آج رہے ہیں تو میں سندھ سرائیکستان کی سانجھ کے حوالے سے اپنی یادوں کو دوہرا رہا ہوں کہ بلاول بھٹو ان پر غور کریں اور ان یادوں کو سرائیکستان کے دورے کا محور بنانے کے ساتھ ساتھ اپنی سیاست کا محور بھی بنائیں ۔ پاکستان قوموں کا ملک ہے اور پاکستان میں بسنے والی قومیں ایک گلدستے کی مانند ہیں ۔ آج کرسی ، اقتدار کے لئے عمرانی معاہدے کی نہیں بلکہ قوموں کے درمیان عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے ۔
آج ہمیں چینی ، انگریزی یا ہندوستانی زبانیں سیکھنے کی بجائے سب سے پہلے پاکستان میں بولی جانیوالی سندھی ، سرائیکی ، پنجابی ، بلوچی، پشتو، ہندکو ، پوٹھوہاری ، براہوی ، کشمیری و دیگر زبانوں کو بولنا اور سمجھنا چاہئے ۔
آج اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ محکوم و مظلوم طبقات کے درمیان سوشل کنٹریکٹ ہونا چاہئے اور اگر وہ آئین جو اپنا دفاع بھی نہ کر سکتا ہو تو اس پر بھی غور ہونا چاہئے کہ مولانا فضل الرحمن کے مطالبے نئے الیکشن کے بر عکس دستور ساز اسمبلی کے الیکشن کی بات ہونی چاہئے ، جہاں پاکستان میں بسنے والی مظلوم و محکوم قوموں کو ان کی زبان اور ثقافت کے ساتھ ساتھ شناخت کا حق ملے اور انہیں ریاست میں دیگر قوموں کی طرح اختیار حاصل ہو اور عملی طور پر ان کو شریک اقتدار کیا جائے ۔
میری ان گزارشات کو نہ تو تنقید سمجھا جائے اور نہ ہی خوشامد ، میری آواز سرائیکی قوم کی آواز ہے اور پاکستان میں بسنے والے آٹھ کروڑ سے زائد سرائیکیوں کی آواز ہے ۔
میں اپنی بات یہاں سے شروع کروں گا کہ سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے جھوک سرائیکی کی طرف سے سرائیکی اجرک ڈے پر خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے صوبے کا وعدہ کیا ، بر سر اقتدار آنے کے بعد عملی طور پر صوبہ کمیشن قائم کیا ۔ صوبہ کمیشن نے آئینی طور پر اپنا کام سر انجام دیا ۔
مگر ن لیگ نے صوبے کی راہ میں رکاوٹ پیدا کر دی ۔ ہماری جماعت کو صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل نہ تھی ، اس کے باوجود پیپلز پارٹی نے سینیٹ سے دو تہائی اکثریت کے ساتھ سرائیکی صوبے کا بل پاس کرایا ۔
سینیٹ سے دو تہائی اکثریت کے ساتھ بل کی منظوری کا مقصد یہ ہے کہ ایوان بالا میں سرائیکی صوبے کے لئے آئین میں ترمیم منظور کر لی ہے۔ اب موجودہ حکمرانوں کو ڈرامے بازی کرنے کی بجائے صوبے کا کام اسی جگہ سے شروع کرنا چاہئے جہاں پیپلز پارٹی نے چھوڑا تھا ۔
پیپلز پارٹی اسمبلی میں اور اسمبلی سے باہر صوبے کی حمایت کرتی رہے گی ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنی پارٹی کی تنظیم پنجاب سے الگ بنائی ہوئی ہے ‘ جس کا نام جنوبی پنجاب ہے ۔مگر سرائیکستان کے لوگ لفظ جنوبی پنجاب کو پسند نہیں کرتے ، ہماری پارٹی کی ایگزیکٹو باڈی اس مسئلے پر غور کرے گی اور اس خطے کی شناخت کو ہر صورت مقدم رکھا جائے گا کہ ہماری جماعت خطوں کی تہذیب، ثقافت اور زبانوں کا احترام کرتی ہے۔ اور سرائیکی کا بھی ہمارے دل میں بہت احترام ہے۔
سرائیکی خطہ سندھ کی طرح دریاؤں کی سرزمین ہے اور صوفیاء کرام کا مسکن ہے۔ دونوں خطوں میں انسان دوستی اور محبت کا پیغام عام کرنے میں ہمارے صوفیاء کرام کا کردار بہت اہم ہے۔ جس طرح شاہ لطیف نے انسانوں سے محبت کا پیغام دیا ، اسی طرح خواجہ فرید نے بھی محبت کا درس دیا ہے۔ سندھ اور سرائیکی کی تہذیب ، ثقافت ایک ہے ۔
جغرافیہ بھی ایک دوسرے کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ معمولی فرق کے ساتھ زبان بھی ایک ہی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ جو قومیں سندھ میں آباد ہیں ، وہی قومیں سرائیکی خطے میں بھی آباد ہیں ، جیسا کہ سندھ میں بھٹو ،سرائیکستان میں بھٹہ ، سندھ میں دھاریجو ،سرائیکستان میں دھریجہ، سندھ میں چانڈیو اور سرائیکستان میں چانڈیہ ۔ ایک ہی تہذیب و ثقافت ہونے کے ساتھ ساتھ سندھ سرائیکستان کے لوگوں کی ایک دوسرے کے ساتھ رشتے داریاں بھی ہیں ۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے بر سر اقتدار آنے کے بعد سرائیکی زبان و ثقافت کی پروموشن کیلئے کام کیا اور اپنے دوست ریاض ہاشمی مرحوم کو مشورہ دیا کہ وہ تہذیبی و ثقافتی بنیادوں پر کام کریں ، جس کی بناء پر بہاولپور صوبہ محاذ کے رہنما ریاض ہاشمی نے بہاولپور صوبہ محاذ کو سرائیکی صوبہ محاذ میں تبدیل کیا ۔اب بلاول کو اپنے نانا کی لاج رکھنی ہو گی ۔
ہمارا مطالبہ ہے کہ بلاول بھٹو سرائیکی وسیب کو جنوبی پنجاب کے نام پر گالی دینے کی بجائے وسیب کو اس کے ثقافتی نام سے پکاریں اور صوبہ سرائیکستان کی حمایت کا اعلان کریں۔ بر سر اقتدار آنے کے بعد مرکز اور صوبے میں سرائیکی خطے کے سیاستدانوں کو مرکزی نمائندگی دی اور ایوان وزیراعظم میں سرائیکی گلوکار پٹھانے خان کی محفلیں منعقد کر کے سرائیکی سے اپنی محبت کو امر کر دیا ۔ محترمہ بھی ایسا کرتی تھی ، حاکم زرداری بھی سرائیکی تھے ، آصف زرداری بھی سرائیکی ہیں ، اس لحاظ کو بلاول کو بھی سرائیکی ہونا چاہئے۔
سب جانتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کو گرفتار کیا گیا ، عدالت میں بھی ذوالفقار علی بھٹو نے سرائیکی زبان کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کی میٹھی زبان سرائیکی میں یہ کہوں گا کہ ’’درداں دی ماری دلڑی علیل اے ‘‘ ۔ مگر یہ یاد رہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے کافی کا اگلا مصرعہ اس لئے نہیں پڑھا تھا کہ وہ ضیاء الحق کے حق میں جاتا تھا ۔ مصرعہ یہ تھا کہ’’سوہنڑاں نہ سنڑدا ڈٖکھاں دی اپیل اے‘‘ ۔
اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو نے عدالت میں سرائیکی شاعر خواجہ فرید کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’کیا حال سنڑاواں دل دا ، کوئی محرم راز نہ ملدا۔‘‘ ذوالفقار علی بھٹو کے بر سر اقتدار آنے سے پہلے پورے سرائیکی خطے میں ایک بھی یونیورسٹی نہ تھی ‘ ذوالفقار علی بھٹو نے سرائیکی وسیب کو 1975ء میں تین یونیورسٹیاں دیں ۔ گومل یونیورسٹی دیرہ اسماعیل خان ، بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان ، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپوران یونیورسٹیوں کے قیام سے پہلی مرتبہ یہ بات سامنے آئی کہ ڈی آئی خان بھی سرائیکی وسیب کا حصہ ہے ۔
یہ بہت بڑا کارنامہ اور کریڈٹ ہے جس کو وسیب کے لوگ آج بھی یاد کرتے ہیں ۔اس میں صوبہ سرائیکستان کا جغرافیہ بھی طے ہوا ، بلاول کو ’’ جنوبی پنجاب ‘‘ نام اور نظریہ کو مسترد کرنا چاہئے ۔
شہید جمہوریت محترمہ بے نظیر بھٹو جب بر سراقتدار آئیں تو انہوں نے اس بناء پر فاروق لغاری کو ملک کا صدر بنایا کہ وہ سرائیکی ہیں ، اس نے بے وفائی کی ۔ جب آصف زرداری بر سر اقتدار آئے تو انہوں نے سید یوسف رضا گیلانی کو وزیراعظم بنایا کہ وہ سرائیکی ہیں
گیلانی کا اور لغاری کا فرق یہ ہے کہ گیلانی کو فاروق لغاری کی بے وفائی کے داغ کو دھو دیا ۔ سرائیکی خطے کے شاعروں ادیبوں اور دانشوروں نے بھٹو خاندان کو بہت پیار دیا ہے ۔ ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ کی شہادت کے حوالے سے سب سے زیادہ شاعری سرائیکی میں ہوئی اور سب سے زیادہ کتابیں سرائیکی زبان میں شائع کی گئیں ۔ ایک تاریخی واقعہ یہ بھی ہے کہ جب آمروں کی باقیات کی طرف سے آمرانہ پٹاری سے سانپ کھولے گئے اور محترمہ پر طرح طرح کے الزام لگائے گئے تو سرائیکی شاعر محسن نقوی کا نعرہ ہر زبان پر بلند ہوا ’’ یا اللہ ، یا رسول ۔ بے نظیر بے قصور‘‘ ۔یہ بھی حقیقت ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے انگریزی میں ایک نظم لکھی جس کی ایک لائن کا مفہوم یہ ہے کہ ’’اس جیون کا کوئی فائدہ نہیں جو ملتان ، کیچ مکران ، ملک مہران اور شہر مردان سے دور ہو ‘‘اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ محترمہ نے اس موقع پر بھی سرائیکی خطے کو نہیں بھلایا ۔
پیپلز پارٹی کے بزرگ رہنما ملک الطاف کھوکھر کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو کو مزارات سے بہت عقیدت تھی اور وہ ملتان سے محبت کرتے تھے ۔ ایک مرتبہ ملتان کے مزارات پر گئے تو ذوالفقار علی بھٹو نے مزار پر لگی ہوئی بلو ٹائلز پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ یہ رنگ صوفیاء کا ہے ، آنکھوں کو ٹھنڈک دیتا ہے اور یہ ہدایت کی نشانی ہے۔
بھٹو خاندان خاندان کی سرائیکستان سے محبت کی تاریخ بھری پڑی ہے۔ وفات سے قبل محترمہ بے نظیر بھٹو نے 24 دسمبر 2007ء کو رحیم یارخان کے جلسے میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس خطے کو محروم رکھا گیا ۔ ہماری پارٹی دریائے سندھ پر نشتر گھاٹ بنائے گی ۔
الحمد للہ ! آج نہ صرف نشتر گھاٹ بن چکا ہے بلکہ ہماری جماعت نے سرائیکی خطے میں ملتان میں ہیڈ محمد والا ، جلال پور پیر والا میں ایمن والا پل ، جھنگ میں گڑھ مہاراجہ پل بنا کر پورے خطے کو ایک دوسرے کے ساتھ لنک اپ کر دیا ہے۔ اُسی دن بہاولپور کے جلسہ عام میں محترمہ نے کہا کہ مجھے اورمیرے بزرگوں کو بہاولپور سے پیار ہے ، یہ حضرت خواجہ محکم الدین سیرانی اور جلال الدین سرخ بخاری کی دھرتی ہے ، میرے دادا میر مرتضیٰ بھٹو کو انگریز دور میں یہاں پناہ ملی ،ہم بر سر اقتدار آ کر اس شہر میں زراعت کی ترقی ، بے روزگاری کے خاتمے اور اعلیٰ تعلیمی ادارے قائم کرنے کے لئے اقدامات کریں گے ۔
بلاول بھٹو کی سندھ سرائیکستان کے اسی رشتے کو مضبوط سے مضبوط کرنا چاہئے ۔25 دسمبر کو محترمہ نے لودھراںاور مظفر گڑھ کے عظیم اجتماعات سے خطاب کیا اور کہا کہ سرائیکی خطے میں بہت مسائل ہیں ۔ بہت محرومیاں ہیں اور اس خطے کے ساتھ بہت حق تلفیاں ہوئی ہیں ، ہم محرومیوں کو ختم کریں گے ، سرائیکستان کے لوگوں نے پیپلز پارٹی، ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ سے اپنی جذباتی عقیدت اور وابستگی کا اظہار کیا مگر ظالموں نے 27 دسمبر کو راولپنڈی میں محترمہ کو شہید کر دیا، اور ذوالفقار علی بھٹو کے بعد ان کی لخت جگر کو غریبوں کا ساتھ دینے کی سزا دی گئی ۔ مگر وہ مر کر بھی زندہ ہیں ۔ جبکہ یزید کی طرح بھٹوز کے قاتلوں پر آج بھی لعنتیں برس رہی ہیں ۔ وسیب کے لوگ آج بھی کہتے ہیں ۔
یہ بازی خون کی بازی ہے
یہ بازی تم ہی ہارو گے
ہر گھر سے بھٹو نکلے گا
تم کتنے بھٹو مارو گے
محترم سئیں بلاول بھٹو زرداری صاحب !
یہ میری گزاشات سندھ سرائیکستان کی سانجھ کے حوالے سے ہیں کہ آپ سرائیکستان تشریف لا رہے ہیں تو آپ کو ویلکم کرنا ضروری ہے ۔ آخر میں جو گزارش پیش کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ آپ اعلیٰ تعلیم یافتہ جواں سال سیاسی لیڈر ہیں ۔ آپ کا اور آپ کے خاندان کا عظیم سیاسی پس منظر ہے ۔ نوجوان قیادت سے ہمیں بہت توقعات ہیں کہ آنے والا وقت نوجوانوں کا ہے ۔
سیاست اور سیادت کی باگ ڈور نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہو گی ، نوجوانوں کو محض عمران خان کے نعرے کی صورت میں نہیں بلکہ حقیقی تبدیلی کے بارے میں سوچنا چاہئے ۔ پاکستان کے غریب عوام کیلئے سوچنا چاہئے ، دنیا کے غریبوں کے بارے میں سوچنا چاہئے ، پاکستان کی معاشی پسماندگی اور ترقی پذیر ممالک کی معاشی پسماندگی کے حوالے سے سوچنا چاہئے ، ظالمانہ نظام کے خاتمے کیلئے سوچنا چاہئے ، انتہا پسندی ، عدم برداشت اور دہشت گردی کیلئے سوچنا ہوگا، مذہبی فرقہ واریت کے خاتمے کیلئے سوچنا ہوگا تاکہ مذہب جو انسانوں کو تہذیب سکھاتا ہے ، مضبوط ہو سکے۔ کرسی و اقتدار کی سیاست بہت ہو چکی ، اب ریاست کیلئے سوچنا ہوگا اور پاکستان کی بقاء کیلئے سوچنا ہوگا کہ پاکستان ہے تو ہم سب ہیں ۔
اے وی پڑھو
عام انتخابات کی تیاریاں؟!۔۔۔||ظہور دھریجہ
عام انتخابات کی تیاریاں؟۔۔۔||ظہور دھریجہ
سندھ کا یوم ثقافت !!۔۔۔||ظہور دھریجہ