نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مولانا کے مارچ کی "سیاسی کلاسیفکشن” ۔۔۔ طاہر محمود اعوان

فی الحال بتانا یہ مقصود ہے کہ جس طرح کپتان الیکشن سے قبل اس ساری رولنگ کلاس کے سامنے اکیلا تھا ، اب حکومت میں آکر بھی تنہا ہے ۔

عمران جب سڑکوں پر نکلا تو میاں صاحب فرماتے تھے یہ انتخابی میدان میں ہمارا مقابلہ کریں ،آٹے تیل کابھائو معلوم ہوجائے گا ، پھر یوں ہوا کہ عمران الیکشن جیت گیا تو اب ن لیگ مولانا سے ملکر سڑکوں پر آگئی ہے۔۔ اب کون سے میدان میں مقابلہ باقی ہے؟

مولانا کے کنٹینر کا جائزہ لیں تو اس پر پانچ خاندان چڑھے نظر آئیں گے جنھیں مولانا سے بھی کوئی خاص ہمدردی نہیں لیکن اپنی اپنی پیڑ میں وہ مولانا کے ساتھ مل گئے ہیں ۔
یہ پانچ وہی خاندان ہیں جو نسل در نسل گزشتہ 72سالوں سے پاکستان پر حکومت کرتے آئے ہیں اور اب یہ حق حکمرانی اپنی اگلی نسلوں کے لیے بھی چاہتے ہیں ۔

ان میں پہلا خاندان تو مولانا کا اپنا ہے ، ماضی کی طرح اب بھی ان کے خاندان کے اہم افراد ایوانوں کا حصہ ہیں ،ایک بھائی صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہے ۔دوسرا سینٹ کا ممبر ہے اور بیٹا قومی اسمبلی میں اپنی سیاسی زندگی کی پہلی اننگز کھیل رہا ہے۔
اس کےبعد مولانا کے دائیں بائیں اپکو شر یف خاندان نظر آئے گا جو پینتیس سالوں سے کسی نہ کسی شکل میں اقتدار میں رہا ۔بھٹو خاندان ملے گا جو چار مرتبہ ملک پر حکمرانی کر چکا اور ایک صوبے میں اب بھی حاکم ہے۔

پھر اپکو ولی خان خاندان ملے گا جو کبھی ن لیگ اور کبھی پیپلز پارٹی کیساتھ ملکر اقتدار کے مزے لیتا رہا
انہیں میں محمود اچکزئی بھی ہونگے جو مولانا کی طرح پہلی بار اسمبلی سے باہر ہیں ۔ گزشتہ حکومت میں وہ خود ممبر قومی اسمبلی اور ان کے بھائی گورنر بلوچستان تھے
۔ان کے علاؤہ کچھ چھوٹے چھوٹے اور گروہ بھی ملیں گے جو ان پانچ خاندانوں کے بغل بچے کہلائے جا سکتے ہیں اور ان کی نوکری کر کے اپنا حصہ وصول کرتے رہے ہیں ۔ ان میں سرفہرست جماعت اہل حدیث کے ساجد میر صاحب ہیں جو ہمیشہ نواز شریف کے حلیف رہے ہیں ۔ مولانا نورانی کے بیٹے انس نورانی ہیں جن کی سردست کوئی سیاسی حثیت نہیں لیکن مستقبل میں کوئی نوکری مل جانے کی امید پر مولانا کے کٹے گودے دبا رہے ہیں ۔

اس کے علاؤہ بھی کچھ چھوٹے موٹے سیاسی بٹیرے ہیں جو ان پانچ خاندان کے بچے کھچے پر ہاتھ صاف کرتے ہیں اور فی الحال بے روزگار ہوگیے ہیں ۔

حیرت اس بات پر ہے کہ 72 سال ملک کو نوچ نوچ کر کھانے والے یہ گدھ مہنگائی ، کرپشن اور جمہوریت کے نام پر مارچ کر رہے ہیں ۔ مار چ تو پوری عوام کو ان کے خلاف کرنا چاہے تھا یہ الٹا کوتوال کو ڈانٹنے لگ گئے ہیں؟
عوام نے انہیں عام انتخابات میں بجا طور پر مسترد کردیا تھ تو پھر یہ کس چیز کے لیے سڑکوں پر آئے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ انہیں عوام سے نہ پہلے کوئئ ہمدردی تھی نہ اب ہے ۔یہ دراصل اس ملک پر حکمرانی اپنا پیدائشی حق سمجھے بیٹھے تھے اور اس حق کو اب اپنی اگلی نسلوں میں منتقل کرنا چاہتے ہیں ۔نواز خاندان مریم ،شہباز وغیرہ کو حکمران دیکھنا چاہتا ہے، بھٹو خاندان بلاول کے وزیر اعظم بننے کے خواب دیکھ رہا ہے ، مولانا صاحب اپنے بیٹے کے لیے فکر مند ہیں ، اسفندیار ولی اپنا سیاسی جانشین پکا کرنا چاہتا ہے اور اچکزئی کو اپنے خاندان کی فکر ہے ۔

پھر آگے وہ لوگ آجاتے ہیں جن کی روزی روٹی بلکہ عیاشی ان خاندانوں کے مرعون منت ہے ۔ان میں سے کوئی ایم این اے کا امیدوار بنتا ہے کوئئ سینٹ کی ٹکٹ کے لیے بھاگ دوڑ کرتا ہے اور کوئی صوبائی اسمبلیوں میں اپنی جگہ ڈھونڈتا ہے ۔

اس کے بعد ان کے سیاسی سپانسرز آتے ہیں جو اپنے مفاد کے لیے ان گھوڑوں پر سرمایہ کاری کرتے ہیں ۔ انکی سیاسی کمپین چلاتے ہیں ،خرچے کرتے ہیں جلسے جلوسوں کا اہتمام کرتے ہیں اور جب ان کے گھوڑے سیاسی ریس جیت جاتے ہیں تو پھر یہ مختلف ٹھیکوں اور مراعات و نوازشات کی مد میں اپنی سرمایہ کاری ڈبل کر کے واپس نکال لیتے ہیں ۔

اگلا نمبر تیسرے درجے کے سیاسی کھنڑبیچوں کا آتا ہے جو تھانہ کچہری اور پٹواری تحصیل دار کی سیاست کے ذریعے ان لوگوں کے نام پر اپنا مفاد اٹھاتے ہیں اور بدلے میں عام آدمی کو معمولی سا لالچ یا ڈر دیکر بڑے لوگوں کے لیے قربان ہونے کو تیار کرتے ہیں ۔

اس کے بعد انتہائی ادنی درجہ ان معصوم لوگوں ک ہے جو ایک پلیٹ بریانی، کلاس فور نوکری کے لارے یا پھر کسی مذہبی نعرے میں آکر ان مفاد پرستوں کے ہاتھوں استعمال ہوجاتے ہیں ۔

تو یہ ہے وہ پورا سیاسی نظام جس میں پوری قوم جکڑی ہوئی ہے اور یہ نظام صرف اسی رولنگ کلاس کو سوٹ کرتا ہے اس لیے وہ اس میں ایک رتی برابر تبدیلی بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں اور نہ ہی وہ اپنے علاؤہ کسی دوسرے کو حکومت کتس دیکھ سکتے ہیں ۔

یہی وہ لاکھوں کا مجمع ہے جو اس وقت مولانا کے قافلے میں شریک ہے اور جسے مولانا ملک بھر کی عوام قرار دے رہے ہیں ۔

ایک گروہ ان میں رہ گیا ہے جو وکٹوں کےدونوں طرف کھیلنے میں زبردست مہارت رکھتا ہے ۔جی بات ہورہی ہے جماعت اسلامی کی جو شروع میں اس مارچ کے حوالے سے غیر جانب دار نظر آتی تھی لیکن جب دیکھا کہ مجمع ٹھیک ٹھاک جڑ گیا ہے اور کہیں چاولوں کی دیگ سے وہ محروم نہ رہ جائیں تو دامے، درمے، سخنے اب مارچ میں شامل ہوگئی ہے ۔منصورہ میں مارچ کے لیے استقبالیہ کیمپ لگائے گئے ہیں اور جماعت کے آفیشل سوشل میڈیا پیجز سے مارچ کی پروجیکشن بھرپور انداز میں جاری ہے ۔ جماعت کی پالیسی غالبا یہ ہے کہ اونٹ جس کروٹ بھی بیٹھا وہ اسی طرف کے ہوجاییں گے ۔ جماعت کی سیاست پر الگ سے ایک دو کالم درکار ہیں وقت ملا تو پھر کسی موقع اس پر بات کرینگے ۔

فی الحال بتانا یہ مقصود ہے کہ جس طرح کپتان الیکشن سے قبل اس ساری رولنگ کلاس کے سامنے اکیلا تھا ، اب حکومت میں آکر بھی تنہا ہے ۔وجہ اس کی صرف اتنی ہے کہ اس نے اقتدار کی خاطر ان میں سے کسی کو گھاس نہیں ڈالی اور کرپشن کے معاملات میں کسی حد تک ڈٹا ہوا ہے ۔ اس کے لیے اپوزیشن میں رہ کر ان سب کیخلاف بات کرنا آسان تھا لیکن حکومت میں انے کے بعد کچھ اخلاقی اور کچھ منصبی تقاضے اسے ان کو کھلی زبان میں چور قرار دینے سے مانع ہیں ۔

یہ بات نہیں کہ ا س کہ جماعت میں سب فرشتے ہیں لیکن اتنا ضرور ہے کہ اسکی قیادت میں دہائیوں بعد ملک میں اس رولنگ کلاس کا قائم کردہ "سٹیٹس کو” ٹوٹا ہے۔ اسے دوبارہ پہلی شکل میں ہرگز واپس نہیں انا چاہے ۔ اگر خدانخواستہ عمران ناکام بھی ہوتا ہے تو عوام کسی نئے عمران کو تلاش کریںگے ، سٹیٹس کو کی طرف واپسی اور پھر سے ان پانچ خاندانوں کی غلامی میں قوم کی کوئی فلاح نظر نہیں آتی ۔

اللہ پاک پاکستان کی اندرونی و بیرونی دشمنوں سے حفاظت فرمائے !! آمین
۔۔۔

About The Author