ہومیو پیتھی طریقہ علاج کے موجد ھائیمن اعظم نے ہومیو پیتھی کا طریقہ علاج دریافت کر کے دنیا کو حیران کر دیا۔آج بھی کروڑوں لوگ ہومیو پیتھی کا علاج کر کے شفا حاصل کرتے ہیں ۔ایک تو یہ سستا علاج ھے دوسرے اس علاج میں سائڈ ایفیکٹ بہت کم ھوتے ہیں۔اکثر ہومیو پیتھ ڈاکٹر لوگوں کا علاج مفت کرتے رہتے تھے مگر اب ہوس زر ایسی آئی ھے کہ اس علاج سے بھی دولت کمائی جا رہی ہے۔
آج میں آپکو ہومیوپیتھی علاج کے موجد کے خیالات سے آگاہ کرتا ہوں جو ہوس زر س بہت دور رہتا تھا۔
ہائیمن نے کہا کہ اگر میں چاہتا تو اپنی ڈیوڑھی کو سونے اور چاندی کی اینٹوں سے بھر دیتا مگر میں نے ایسا نہیں کیا بلکہ اللہ پاک نے مجھے ایک راز ہومیو پیتھی کی شکل میں عطا کیا جو میں نے اس کی مخلوق تک پہنچا کر اپنا فر ض پورا کیا۔
آج ہم اپنے اردگرد ڈاکٹروں کو دیکھتے ہیں جو مریضوں کو غیر ضروری دوائیں لکھ رہے ہیں جن سے مریضوں کی جان خطرے میں پڑ جاتی ہے مگر چونکہ دوائیوں کی کمپنیاں رشوت دیتی ہیں اس لئے وہ بیچ دی جاتی ہیں۔
اب آپ کو ڈیرہ اسماعیل خان کی مثال دیتا ہوں ۔1974 میں جب ڈیرہ اسماعیل خان میں گومل یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا جا رہا تھا تو حکومت نے یہ شرط رکھی کہ جہاں سے زمین مفت ملے گی وہاں یونیورسٹی قائم ہو گی۔۔چنانچہ نواب اللہ نواز خان آگے بڑھے اور دس ہزار کنال سے زیادہ زمین مفت دے دی۔ ڈیرہ میں گومل یونیورسٹی کے قیام سے ضلع کی قسمت بدل گئی ۔ہزاروں لوگوں کو روزگار ملا اور اب تک لاکھوں لوگ اعلی تعلیم حاصل کر کے بہترین عہدوں پر فائز ہیں۔
بہرحال شہید ڈوالفقار بھٹو نے بھی یونیورسٹی کے قیام میں بہت مدد کی۔ ابھی تک نواب اللہ نواز کے نام پر کسی کالج کا نام نہیں رکھا گیا اب سنا ہے لاء کالج کو ان سے منسوب کیا جائیگا۔
ڈیرہ اسماعیل خان میں جب ساون کا دریا زوروں پر ہوتا تھا تو کئی نوجوان نہاتے ہوۓ ڈوب جاتے تھے۔اب ان کی لاش نکالنے اور ڈھونڈنے کا کو ئی خاص بندوبست نہیں تھا۔اس سلسلے ہم لوگ دریا کے بیٹ میں رہنے والے لوگوں جنہیں ہم کیہل کہتے ہیں ان کو بلاتے اور وہ دریا سے لاش برآمد کر دیتے یہ بہت خطرناک کام تھا لیکن وہ جان کی پرواہ کئے بغیر یہ کام سرانجام دیتے اور اس کام کا معاوضہ بھی نہیں لیتے ۔ غربت میں عظمت کی یہ بہت بڑی مثال تھی۔
میرے ایک دوست تھے جو دیہات میں میں کمپاونڈر تھے اور علاج کرتے تھے ایک دفعہ گھر آتے ہوۓ انکو ایک بڑی گٹھڑی ملی جس میں لاکھوں کے زیورات تھے اگر وہ چاہتے تو خود رکھ لیتے کیونکہ ویران سڑک پر کوئ موجود نہیں تھا مگر انہوں نے اعلان کیا کہ نشانی بتا کر سونا لے جائیں اور پھر ایک خاندان کو زیورات واپس مل گئے۔اللہ تعالے اس کو غریق رحمت کرے آمین۔
اب آپ کو فرانسیسی افسانہ نگار موپسان کی لکھی ہو ئی ایک کہانی سناتے ہیں کہ انسانی عظمت عام لوگوں میں بھی بہت ہوتی ہے مگر اس کا تزکرہ نہیں ہوتا۔
جرمنی نے جب فرانس پر قبضہ کیا تو افرا تفری میں لوگ ملک چهوڑ کر بهاگنے لگے ۔ ایک بگهی میں چند پادری انکی بیویاں اور ایک طوائف بهی تهی جو ان سب کے لئے اجنبی تهی ۔
آخری سرحد پر گارڈ نے روک لیا اور کہا جو ملک پر جان دینے کی بجائے جان بچانے کی کوشش کرتے ہیں انہیں موت کا ذائقہ چکهنا پڑتا ہے ۔ اور ساتھ هی سڑک کے دوسری طرف بکهری لاشوں کیطرف اشارہ کیا ۔
پادریوں نے فورا بریف کیس کهول کر نوٹوں کی گڈیاں اور بیویوں نے زیور اتار کر پیش کئے ۔
مگر گارڈ نے کہا ان میں سے کوئی عورت کچھ دیر کیلئے اسکے ساتھ بیرک میں جائے تو اجازت مل سکتی هے ۔
طوائف نے پوچها اسکی کیا ضمانت هے کہ واپس آ کر تم هم سب کو گولی نہ ماروگے؟
گارڈ نے بندوق تان لی ۔ طوائف نے پادریوں اور بیویوں کے چہروں پر موت کا پسینہ دیکها تو بگهی سے اتری اور گارڈ سے کہا یہ سب میاں بیوی نیک اور معصوم لوگ ہیں ۔ میرا کوئی نہیں ۔ تم انہیں جانے دو، میں تمہارے پاس کهڑی ہوں ۔
گارڈ نے اشارہ کیا ۔ بیریر اٹها ۔ پادریوں نے سینے پر کراس کا نشان بنایا اور بگهی دهول میں ڈوبتی ابهرتی فاصلوں کے اس پار تحلیل ہو گئی ۔
طوائف مڑی، فرانس کی مٹی کو چوما اور بیرک کیطرف چل پڑی ۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر