انسان بچپن کی یادیں نہیں بھولتا شاید یہ فطری بات ہے باتوں باتوں میں بات یاد آنا بھی اسی طرح کی ایک کڑی ہے۔ آج ایک اخبار کے رنگین صفحے پہ تانگے کی فوٹو دیکھی تو بچپن کی کئی یادیں تازہ ہو گئیں۔ختم ہوتے ہوتے اب تانگے کی سواری تقریباً ہر شہر سے ختم ہوگئی۔ بہت بُرا ہوا کہ اب وہ ’خیر خواہ‘ تانگے والے بھی اپنے اپنے تانگوں کے ساتھ ہی ’ٹخ ٹخ‘ کرتے رُخصت ہوگئے جو ہر ایک کا بھلا چاہتے تھے۔
اب ۔ ’او تیڈی خیر ہووے‘ ۔۔’بچ موڑ توں‘ کی دعائیں دیتی ہوئیں مزے مزے کی آوازیں کہاں سنائی دیں گی۔ وہ آوازیں جن کی پُرتاثیر تانوں سے ہمارےشہر کی فضا ہمیں ایک اساطیری ماحول میں لے جایا کرتی تھیں۔ اب تو خیر تانگے کی سواری بادِ بہاری بھی بہار کے بادلوں کی طرح ہمارے شہر کی گلی، محلوں اور سڑکوں پر سے گزر کر کہیں اور ہی چلی گئی ہے۔ مگر تانگہ جب تک رہا، یا جب تک رہنے دیا گیا، ہماری سڑکو ں پر خوب دوڑا۔چیزیں وقت کے ساتھ کیسے بدل جاتی ہیں ؟ اس کا اندازہ تب ہوتا ہے جب نئی نسل اس چیز سے لاعلمی کا اظہار کرتی ہے۔ ۔بچوں کے سامنے جب تانگے کا نام لیا جاتا ہے تو وہ حیرت زدہ ہو کر اس کی تفصیلات طلب کرنا شروع کر دیتے ہیں کیونکہ انہوں نے تانگہ صرف تصویروں کی حد تک ہی دیکھا ہوا ہے۔
اکیسویں صدی نے جیسے ہی کروٹ بدلی تانگے کی جگہ آٹو رکشہ اور بھڑوں کی ملکہ چنگ چی نے لے لی۔اس تبدیلی کے ساتھ ہی زندگی سے ہمارا فاصلہ ایک قدم اور بڑھ گیا۔اب کے ہم نے گھوڑوں سے دوری اختیار کر لی تھی۔ہمیں کیا خبر تھی کہ چند سال گزرنے کے بعد چنگ چی کا ایک عدد اور بھائی بھی پیدا ہونے والا ہے جس کا نام لوڈر ہو گا۔اور یہ بھائی جان انسان اور حیوان کے درمیان فاصلوں کی دیوار میں اور اضافہ کر دے گا۔ مزید لدو جانوروں یعنی اونٹ،خچر اور گدھوں کو بھی دھیرے دھیرے انسان اپنی دنیا سے دور کر دے گا۔ تانگے کی بات ہو رہی تھی جو کسی دور میں ہر شہر کی ضرورت کا باعث ہوا کرتا تھا۔ ریل کی چھک چھک جیسے اس کا ٹک ٹک ٹک کی آواز کے ساتھ چلنا ایک رومانوی کیفیت تخلیق کر دیا کرتا تھا۔
شہر کی سڑکیں ہوں یا گلی ، محلوں کے کچے پکے راستے تانگوں کا چلن ہر جا اپنا ماحول بنائے رکھتا۔ شہر میں تانگوں کے باقاعدہ اڈے ہوا کرتے تھے جہاں گھوڑوں کی ضروریات کے مد نظر ان کے پانی پینے کے لیئے ناند بنائے جاتے، چھاؤں کا بندوبست کیا جاتا، گھاس رکھنے اور کھانے کے لیئے جگہیں بنائی جاتیں۔ گرمیوں کی لمبی دوپہریں ہوتیں یا سردیوں کی سرد شامیں کوچوانوں کے یہ ڈیرے ہمہ وقت آباد رہتے، میری یاد کے مطابق تانگوں کا ایک اڈہ پرانے لیاقت باغ (موجودہ میلاد پارک) کے ساتھ، ٹانک اڈہ پر اور ایک سبزی منڈی ٹاون ہال کے ساتھ اور ایک خصوصی چھوٹا سا تانگہ سٹینڈ حقنواز پارک اور ٹیٹلر و پلازہ سینما کے درمیان موجود تھا۔
تانگے والوں کی دنیا بھی عجیب ہوتی ہے۔ ان کی باتیں ان کی دوستی یاری ان کے خواب ان کی خواہشات بھی گھوڑے تانگے سے بندھی تھیں۔ کھبی کبھار سواریوں کا وزن اتنا زیادہ ہوجاتا کہ تانگہ الٹ جاتا۔ ایسے میں سواریاں اتار کر اس کا وزن کم کیا جاتا۔ جمعے کے دن دریا پہ دھاونیوں اور سیر پے جانے والوں کی وجہ سے ان تانگوں والوں کی کمائی زیادہ ہوتی۔ یا پھر رات کے آخری شو سے سینما سے نکلنے والے شائقین جو خوش ہونے پر کچھ زیادہ ہی دے دیتے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے ہر جمعہ کو سہہ پہر کے وقت ہمارے محلے سے چاچا اللہ ڈتہ جلیبیاں اور حلوے والا اپنا سامان تانگے پہ لاد کر اپنے بیٹوں کے ساتھ آگے بیٹھ کر دریا کنارے اپنے سٹال سجانے جاتا تھا اسی طرح ڈیرہ کے مشہور پلاؤ کی پہچان چاچا ابراہیم اور چاچا فیض اللہ ایک تانگے پہ پلاؤ کی دیگیں اور دوسرے تانگے پے خود بیٹھ کر بڑی شان سے دریا پر پلاؤ بیچنے جاتے۔
گرمیوں میں دھاونڑیوں پہ جانے کے لیئے ہر محلے اور کوچے سے انہی تانگوں پر سامان لادے اور نوجوان و بزرگ ٹانگ پہ ٹانگ رکھے عزت و وقار اور ہنسی مذاق کرتے ہوئے دریا پے جاتے اور اس وقت سندھ کے ٹھنڈے اور صاف و شفاف پانی میں غوطے لگاتے۔ اب نہ وہ تانگے رہے اور نہ وہ سندھ دریا کا صاف و شفاف پانی۔ اسوقت سید نذر شاہ، خدابخش، سید الطاف شاہ، غلام محمد (ممدو چاچا)، بالی شہزادہ، اکرم (اکی) اور اللہ نواز ڈیرہ کے مشہور و معروف کوچوان اور بہترین تانگہ چلانے والے ماہر تھے، ان کے تانگوں پر نقش و نگار، ریگزین کی بہترین چھت، بمپر پر مختلف رنگ، ہاتھ سے بجانے والی گھنٹی، چمکتے پائیدان، ہاتھ میں چابک، لیکن چابک کا استعمال کم اور گھوڑے کو زبان سے نکلی ہوئی مختلف آوازوں سے دوڑاتے اور روکتے تھے۔ اگر تانگے کے سامنے یا ارد گرد کوئی پیدل شخص نظر آتا تو بڑے انداز اور میٹھے لہجے میں آواز لگاتے، او حیاتی ہووی پاسہ ماریں ہا، بچ موڑ توں، شوٹو شوٹ اپنڑا خیال آپ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ کچھ خاندانوں نے اپنے زاتی استعمال کے لیئے اپنے زاتی تانگے بھی بنوائے ہوئے تھے،پہلے عام لوگ پیدل سفر کرتے تھے اور تانگے پر بیٹھنے والے کا ایک رتبہ ہوتا تھا۔ماضی کا وہ دور اچھا تھا۔ تانگے کا نہ شور ہوتا تھا اور نہ ہی حادثات کا ڈر۔ یہ ایک پُر سکون اور رومانوی سواری تھی، ہائے ہائے زندگی کے سفر پر چلتے ہوئے ماضی کو یاد کرنا گویا کلیجے پر ضرب لگانے والی بات ہے۔
دو پہیوں پر مشتمل اس گاڑی نے جس قدر انسانیت کی خدمت کی ہے انسانی زاویے اسی قدر اس سے لا تعلق ہوتے نظر آئے ،لکڑیوں سے جڑی اس گاڑی کی شکل و صور ت جس قدر آج کے دور میں سادہ لگتی ہے، ماضی میں لوگوں کے لیے اسی تانگے کی ہیئت بہت پیچیدہ بلکہ حیران کن تھی،انسانی تخلیقات کی بھرمار کا تانگے کو معدوم کرنے میں بڑا عمل دخل ہے،جدت کے تقاضوں اور قدامت پسندی پر تنقید نے اس تانگے کو یاد ماضی بنا کر عذاب کی شبیہ بنا دیا ہے۔
تانگے میں جُتے گھوڑے کی صحت اور انسانی خدمت کا دارو مدار اس کی ٹانگوں اور کُھر پر ہوتا تھا۔ اس لئے گھوڑوں کو نعل لگائی جاتی تھی اور ہر 5سے 8 ہفتوں بعد نعل اتار کر ان کے کھروں کو تراش خراش کر دوبارہ نعل لگا دیئے جاتے تھے۔ ڈیرہ میں دوسری جگہوں کے علاوہ نعل بندی اور تانگے کے پہیے بنانے کی گھاس منڈی کے اندر محلہ شاہین میں مشہور و معروف اور اپنے ہنر میں یکتا استادوں کی دکانیں تھیں۔ زیادہ تر تانگوں کے مالکان اپنے گھوڑوں کے کُھروں کی دیکھ بھال انہی ماہرین نعل بندکی خدمات حاصل کرتے تھے۔ گھوڑے اور تانگے کی پہیوں کی جتنی اہمیت تھی، اسی نسبت سے نعل بند اور پہیہ بنانے والے کی قدر تھی۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نعم البدل ملنے کے باعث گھوڑوں کی طرح نعل بندی اور تانگے کے پہیے بنانے کا کام بھی زوال پزیر ہو چکا ہے۔ ڈیرہ میں جگہ جگہ موجود درجنوں شادی ہالوں کے مالکان اگر دولہے اور اسکے خاندان والوں کے لیئے بہترین سجے ہوئے بگھی نما تانگوں میں بٹھا کر مرکزی دروازے سے سٹیج تک لانے کا خصوصی انتظام کریں تو تانگوں سے منسلک افراد کے روزگار کا کچھ نہ کچھ انتظام ہو سکے گا اور ثقافت بھی زندہ رہے گی۔
ایک زمانہ تھا جب کالجوں اور سکولوں میں جانے کے لیے بھی تانگے ہی لگوائے جاتے تھے۔ گرلز سکولوں اور کالج کے باہر چھٹی کے وقت تانگوں کی لمبی قطاریں موجود ہوا کرتی تھیں۔جب کبھی تانگے کا ساز بجتا، گھنٹی کی آواز آتی جس کو کوچوان پاؤں سے بجایا کرتا یا گھوڑے کے ٹاپوں کا خاموش شور بلند ہوتا تو پورے ماحول میں ایک طلسم طاری ہو جاتا ۔ اس وقت شاید کسی نے بھی نہ سوچا ہوگا کہ یہ سب ایک دم ختم ہو جائے گا۔ تانگہ گھوڑے سمیت ہمیشہ کے لیئے ہماری زندگیوں سے نکل جائے گا۔ تانگے گھوڑے کی یہ کہانی ایسے ختم ہو ئی کہ اب ہمارے بچے پوچھتے ہیں کہ۔ ۔ ۔ابو، ابو ۔ یہ ۔ ۔ ۔ تانگہ کیا ہوتا ہے؟
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ