بات ہے بائیس اکتوبر کی۔ نیب کی حراست میں موجود سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کی طبعیت سنبھلنے میں نہیں آرہی تھی۔ نیب لاہور میں ایک سرکاری ڈاکٹر تعینات ہیں معاملہ جب ان کے ہاتھ سے بھی نکلا تو سرکاری ڈاکٹروں کی ٹیم کو بلایا گیا۔ جوں جوں وقت گذررہا تھا ڈائریکٹر جنرل نیب میجررٹائرڈ شہزاد سلیم سمیت حکام مضطرب ہورہے تھے۔
انہوں نے نوازشریف کی علالت کے بارے میں متعلقہ اہم اداروں اور شخصیات کو اطلاع دی۔ وزیراعظم عمران خان کے قریبی حلقوں کو آگاہ کیا گیا کہ اگر میاں نوازشریف کو مناسب طبی سہولیات نہ دی گئیں تو معاملات ہاتھ سے نکل سکتے ہیں۔
ملک چلانے والوں کو ڈر تھا کہ اگر زیر حراست نوازشریف کو کچھ ہوا تو کہیں پنجاب کو ایک اور بھٹو نہ مل جائے۔ بعض قوتیں ملک میں سیاسی کشیدگی کم کرنے کے حق میں ہیں مگر عمران خان بضد ہیں کہ وہ اپنے سیاسی مخالفین کو کسی صورت نہیں چھوڑیں گے۔
بہرحال اسلام آباد ہائیکورٹ سے ضمانت کے بعد نوازشریف کو فی الحال رہائی مل گئی۔ اگلے مرحلہ نوازشریف اور مریم نواز کے نام ایگزٹ کنڑول لسٹ سے نکال کر انہیں علاج کے لیے باہر بھیجنا ہو سکتا ہے۔
مریم اس معاملے میں رکاوٹ اس لیے نہیں بنیں گی کیوں کہ بحیثیت ایک بیٹی انہیں اپنے والد کی بہت فکر ہے۔ وہ اپنی سیاست کو داؤ پر لگا سکتی ہیں مگر اس کے لیے والد کی صحت سے نہیں کھیل سکتیں۔ ایسے میں بیرون ملک جانے میں اگر کوئی رکاوٹ ہوئی تو وہ نواز شریف خود ہوں گے۔
نوازشریف فی الحال کسی کے کہنے میں نہیں۔ وہ اپنی والدہ، بہن اور بھائی سب کو کسی قسم کی ڈیل کے حوالے سے انکار کرچکے تھے ۔ شہبازشریف بھائی کی بہتری کے لیے فکرمند ہیں۔ وہ پارٹی اور خاندان کو بچانا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے کیا ہونا چاہیئے، اس پر ان کی اپنی ایک سوچ ہے۔
دوسری طرف احتساب عدالت کے حکم پر آصف علی زرداری کو بھی جیل سے ہسپتال منتقل کردیا گیا۔ نوازشریف اور آصف علی زرداری کی ہسپتال منتقلی چند گھنٹوں کے فرق سے ایک ہی روز یعنی تئیس اکتوبرکو ہوئی۔ آصف علی زدراری بھی علیل ہیں اور ان کی علالت کے بارے میں بھی خبریں تواترسے آرہی ہیں۔
سابق وزیراعظم نوازشریف اور سابق صدرآصف علی زرداری کی ہسپتال منتقلی سے ملک میں شاید سیاسی تلخی کچھ کم ہوئی ہو لیکن مولانا فضل الرحمان ابھی میدان میں موجود ہیں۔
حکومت چاہتی ہے کہ مولانا پشاورموڑ اسلام آباد آکر ایک جلسہ کریں گے اور خاموشی سے چلے جائیں گے۔ مسئلہ یہ ہے کہ وہ حالات کو جس قدر آگے لے جاچکے ہیں وہاں سے یوں آسانی سے واپسی نظرنہیں آرہی۔
حالیہ دنوں میں مولانا فضل الرحمان کی زیلی تنظیم انصار الاسلام پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ ان کے قریبی ساتھی حافظ حمد اللہ کی شہریت ختم کردی گئی ہے جبکہ ان کے ایک اور قریبی ساتھی مفتی کفایت اللہ کو گرفتار کیا گیا ہے۔ یہ سب باتیں کسی مصالحت نہیں تصادم کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
بشکریہ ڈی ڈبلیو
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ