معروف صوفی شاعر حضرت خواجہ غلام فرید ؒ کی شعری فن اور فکر کے بارے میں تحقیقی کام یونیورسٹیوں میں ہو رہا ہے، مگر اس کام میں تیزی لانے کی ضرورت ہے۔
معروف لکھاری شیخ محمد سعید احمد کی کتاب مرشد من کے نام سے شائع ہوئی ہے، جو کہ مثبت قدم ہے ۔ اپنی بات شروع کرنے سے پہلے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں خواجہ فرید چیئرز کی منظوری بہت عرصہ پہلے ہو چکی ہے۔
ان چیئرز کو فنکشنل ہونا چاہئے ، اب جبکہ بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی میں نئے وائس چانسلر منصور اکبر خان کنڈی اور اسلامیہ یونیورسٹی میں انجینئر اطہر محبوب تعینات ہوئے ہیں اور خواجہ فرید کی ذات سے عقیدت بھی رکھتے ہیں ۔ دونوں یونیورسٹیوں کے ساتھ ساتھ رحیم یارخان میں خواجہ فرید کے نام سے قائم ہونیوالی یونیورسٹی میں سرائیکی شعبہ اور خواجہ فرید چیئر اس لئے ضروری ہے کہ کسی بھی یونیورسٹی کے قیام کا پہلا مقصد وہاں کی مقامی تہذیب ، ثقافت اور اس کے آثار پر تحقیق ہوتا ہے۔
’’مرشد من ‘‘فریدیات پر ایک بہترین کتاب ہے۔ کتاب کے مصنف نے اپنے نوٹ میں لکھا ہے کہ یہ کتاب فکر فریدؒ کی ترویج کیلئے لکھی اور شائع کی گئی ہے ، لہٰذا اس کتاب کا کوئی بھی حصہ کسی کتاب یا مضمون میں بطور حوالہ دیا جا سکتاہے ۔
اس ضمن میں مصنف یا ناشر سے پیشگی اجازت لینا ضروری نہیں ۔ چند تصریحات کے عنوان سے مصنف نے بتایا ہے کہ محبوب الٰہی حضرت خواجہ غلام فرید کے والد حضرت خواجہ خدا بخشؒ کا لقب تھا ۔ فخر الاولیاء آپ کے مرشد اور آپ کے بڑے بھائی حضرت خواجہ فخر جہاںؒ کا خطاب تھا ۔
آپ اپنے دادا خواجہ قاضی عاقل محمد کوریجہؒ کو سلطان الاولیاء کے لقب سے یاد فرماتے تھے ۔ حضرت خواجہ غلام فرید کا تاریخی نام ’’ خورشید عالم ‘‘ تھا ۔ شیخ سعید لکھتے ہیں کہ خورشید عالم کے عدد 1261ء آپ کے سال ولادت کو متعین کرتا ہے تاہم آپ کے خاندان کی حضرت بابا فرید الدین گنج شکر ؒ کے ساتھ روحانی محبت کے سبب آپ کا نام ’’ غلام فرید‘‘ رکھا گیا۔
کلام الملوک ، ملک الکلام کا مقولہ اگر حقیقی معنوں میں کہیں کما حقہ ثابت ہوتا دکھائی دیتاہے تو وہ ’’ دیوان فرید‘‘ ہے۔ شاید ہی سرزمین بر صغیر پاک و ہند پر تخلیق ہونے والا کوئی اور صوفیانہ شعری ادب اس کلام کی ہمسری کر سکے۔
میں ’’ دیوان فرید‘‘ کو صرف شاعری کی ایک کتاب نہیں ، بلکہ ایک قلمی عجوبہ کہتا ہوں جو رحمتِ خداوندی سے خواجہ فریدؒ کے حصے میں آیا ہے اور میں خواجہ فریدؒ کو بھی محض ایک صوفی شاعر نہیں سمجھتا، ایسا کشش دار سیارہ سمجھتا ہوں جس کے مدار میں جو ایک دفعہ داخل ہوا ، پھر وہ کبھی اس مدار سے باہر نہ نکل سکے گا ۔محمد سعید احمد شیخ کا تخلیقی سفر گو کہ ایک سرائیکی افسانوی مجموعے ’’ پارت ‘‘ سے شروع ہوا لیکن جب یہ نوجوان خواجہ فریدؒ کے مدار میں داخل ہوا ہے ، وہیں کا ہی ہو کر رہ گیا ہے۔
میں برسوں سے اسے اسی مدار میں ہی گھومتا دیکھ رہا ہوں ۔ ’’ حسرت‘‘ ہے کہ وہ اس مدار سے باہر نکلے ! میں نے جب بھی اس نوجوان سے اس کی اس ’’ کج ادائی‘‘ کا شکوہ کیا ہے ،وہ ہنس کر اس بات کو ٹال دیتا ہے۔
مجھےمیرے اس سوال کا جواب کہ وہ خواجہ فرید کے دائرے سے باہر کیوں نہیں نکلتا، وہ اس وقت ہی مل گیا تھا جب اس کی ہمراہی کے طفیل سردیوں کی ایک ٹھٹھرتی رات مجھے کسی گرم کپڑے کے بغیر خواجہ فریدؒ کے مزار کی ملحقہ مسجد میں جاگ کر گزارنا پڑی ۔ لیکن میں اس کے منہ سے سننا چاہتا ہوں کہ آخر روہی کے سناٹوں سے باتیں کرنے والے خواجہ فرید سے اس کا ایسا کیا ’’ عشق پیچا ‘‘ پڑ گیا ہے کہ وہ خواجہ فرید کے علاوہ کوئی بات ہی نہیں کرتا ۔
’’ مرشد من ‘‘ کا مسودہ دیکھا تو ایسا لگا کہ مجھے میرے ہر سوال کا جواب مل گیا ، زبانی نہ سہی ، قلمی طور پر سہی ۔ جس خواجہ فریدؒ کو محمد سعید احمد شیخ نے اس کتاب میں دریافت کیا ہے وہ واقعی اس قابل ہے کہ اس سے ’’ عشق پیچا ‘‘ ڈالا جائے ۔
’’ مرشد من ‘‘ خواجہ فرید کی شاعری پر نہیں ، بلکہ آپ کی حیات پر ایک دستاویز ہے۔ ’’ کلام الملوک ، ملک الکلام ‘‘ سے آگے کی ایک منزل ’’ حیات الملوک ، ملک الحیات ‘‘ طشت ازبام ہونے کو ہے۔ فریدیات کے طالب علموں کے سامنے یہ عقدہ کھلنے چلا ہے کہ ایک عظیم آدمی کس کمال طریقے سے دنیاوی ایامِ حیات بسر کر کے حیاتِ جادواں کی طرف روانہ ہوا ۔خواجہ فرید کی شاعری پر تحقیق کرنے والوں کو یہ کتاب اس لئے بھی پڑھنا پڑے گی کہ ’’ کلام الملک‘‘ کو سمجھنے کا کام ’’ مرشد من ‘‘ کے مطالعہ کے بعد بڑی حد تک سہل ہو جائے گا۔
خواجہ فریدؒ کو دریافت کرنا ، جہانِ عشق و معرفت کو دریافت کرنا ہے۔ مرشد من کو پڑھنے کے بعد میں اپنی اس حسرت سے دستبردار ہو چکا ہوں کہ محمد سعید احمد شیخ کبھی خواجہ فریدؒ کے دائرے سے باہر نکلے، وہ اس دائرے میں ہی خوب لگتا ہے۔ ہمارے ہاں فرید شناسوں کی کمی نہیں ، سب کے سوچنے، بولنے اور لکھنے کا اپنا اپنا اسلوب اور اپنا اپنا انداز ہے۔ شیخ صاحب کی خوبی اور عظمت یہ ہے کہ وہ فریدیات کے حوالے سے گہرائی میں چلے جاتے ہیں اور فریدیات کے ان مطالب و مفاہیم تک پہنچ جاتے ہیں جہاں ہماری رسائی نہیں ۔
اس لئے کہا جاتا ہے کہ موصوف کو غواصانِ فرید میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ غواص جو تہہ تک نہیں جا سکتا اسے انمول ہیرے اور موتی نہیں ملتے ۔ شیخ صاحب گہرائی میں جاتے ہیں تو انہیں ملتا بھی بہت کچھ ہے۔ اس بات کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ شیخ صاحب مشکل پسند ہیں اور مشکل کام کرنے کے عادی ہیں ۔ انہی مشکلات کے صدقے انہوں نے ’’ بحر فرید ‘‘ سے بہت کچھ حاصل کیا ہے۔ اب ان کیلئے فریدیات کے موضوع پر بڑی سے بڑی مشکل بھی کوئی مشکل نہیں رہی ۔
یہی وجہ ہے کہ سرائیکی ‘ اردو اور انگریزی میں فریدیات کا کام کئے جا رہے ہیں ۔ آج کی انتہا پسندی ‘ دہشت گردی اور عدم برداشت کا مقابلہ صرف اور صرف صوفیاء کی انسان دوستی کی تعلیمات کے ذریعے ممکن ہے ۔ شیخ سعید کی کتاب کے تمام ابواب خواجہ فرید کی انسان دوستی کی تعلیمات کا احاطہ کرتے ہیں کہ خواجہ فرید کی اپنی پوری زندگی انسان دوستی کا عملی نمونہ تھی ۔
دوسرے موضوعات کے ساتھ ساتھ خواجہ فرید کی شخصیت کا سماجی پہلو ’’خواجہ فرید اور ملائیت ‘‘ ، ’’ ساون مینگھ ملہاراں ‘‘ اور ’’ سچ آکھیا ہا قمرو شودے ‘‘ کے موضوعات عام انسانوں اور اپنے ملازمین کے ساتھ حسن سلوک کا اظہار کرتے ہیں اور دیکھا جائے تو یہ تمام موضوعات حقیقی معنوں میں ریسرچ پیپر ہیں جو کہ فریدیات کے طالب علموں کے لئے حوالے کا کام دیں گے ۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر