تقسیمِ ہند کا تذکرہ ہو تو ساتھ ساتھ ہجرت کا ذکر لازمی ہے۔ بی بی سی اردو سروس کے معروف صداکار اور محقق رضا علی عابدی نے اپنی کتاب ’’اخبار کی راتیں‘‘ میں اپنے کنبے کی پاکستان ہجرت کا ذکر یوں کرتے ہیں؛ "ہمارے گھر کا سامان زیادہ تر اونے پونے بکا۔ میرا دارالمطالعہ ردی والے تول کر لے گئے۔
مزید کہتے ہیں کہ سارہ کنبہ واہگہ کی سرحد پر پہنچا۔ ہندوستان کے کسٹم والے ہمارا سامان دیکھنے لگے۔ ایک بڑے سے صندوق میں محرم کی عزاداری کا سامان اور قدیم تاریخی علم بند تھے۔ ایک افسر اسے کھولنے لگا میں نے کہا کہ اس میں ہماری مذہبی چیزیں ہیں وہ جلدی سے پیچھے ہٹ گیا۔”
عابدی صاحب اور ان کے اہل خانہ معصوم لوگ تھے جنہوں نے صرف علم و عزاداری کے سامان پر گزارا کیا۔ وگرنا تو لوگ کلیم کے کاغذوں سمیت کیا کچھ نہ لائے۔ جو بہت زیادہ تہی دست تھے، وہ اپنے علاقے کا نام ہی لے آئے اور پاکستان میں اسے اپنے نام کے ساتھ جوڑ لیا۔ مجھے ایک واقعہ یاد آ رہا ہے جو میں نے کہیں پڑھا تھا۔
مرحوم زیڈ اے بخاری جب ریڈیو پاکستان کراچی کے منتظم ہوتے تھے، اس وقت ہندوستان سے ہجرت کے بعد ریڈیو پاکستان پر ملازمت کرنے والے کچھ لوگ اپنے نام کے ساتھ اپنے علاقے کا لاحقہ لگاتے تھے۔ مثلاً دہلوی، میرٹھی وغیرہ وغیرہ۔ انہوں نے ایسے کسی صاحب سے کہا، "میاں اب آپ پاکستان میں ہیں، یہ لاحقے ترک کر دیجئے”۔ ان صاحب نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا کہ "ہزاروں سال قبل بخارا سے آنے والے تو اب تک بخاری ہیں۔
ہمیں تو ابھی پاکستان آئے ہوئے عرصہ ہی کتنا ہوا ہے”۔ ہندوستانی راجھستان یا متصل دیگر علاقوں سے پاکستان ہجرت کرنے والے کھوکھراپار کے اسٹیشن کو کیسے بھول سکتے ہیں، جہاں پاکستان کی حدود میں داخل ہونے کے بعدان کا پہلا قیام ہوتا تھا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کھوکھراپار کراچی کیسے پہنچا؟ یہ اب نہ صرف اہلیان کراچی بلکہ سندھ کے دیگر علاقوں سے کراچی کے مضافاتی علاقے ملیر میں بسنے والوں کے لیے ایک معمے یا پہیلی سے کم نہیں۔
یہ 2005ء کی بات ہے کہ جب میں ایک غیر سرکاری تنظیم کے کراچی دفتر میں ملازمت کرتا تھا۔ حکومت پاکستان اور ہندوستانی حکومت کے درمیان یہ طے پایا تھا کہ 17 فروری 2005ء کو کراچی سے ہندوستان کے لیے ٹرین سروس کا آغاز کیا جائے گا۔
اس سروس کے حوالے سے سندھ کی قوم پرست تنظیموں کے بہت زیادہ اعتراضات تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اس ٹرین سروس کے ذریعے پاکستان میں آباد ہندوستانیوں کے رشتے داروں کی ایک بڑی تعداد ہندوستان سے پاکستان منتقل ہو جائے گی اور سندھی جو سندھ میں تقریباً اقلیت بنتے جا رہے ہیں، یہ ٹرین سروس انہیں مکمل طور پر اقلیت میں تبدیل کر دے گی۔ خیر غیر سرکاری تنظیموں کو اس بات کی قطعاً پرواہ نہ تھی کہ کون اقلیت میں ہو گا اورکون اکثریت میں؟ یہ تنظیمیں انسانی ذات کو تمام سرحدی حدود سے بالا تر سمجھتی ہیں اور ان کی جانب سے اس سفر میں شرکت کے لیے بڑی گرم جوشی تھی۔
پاکستان میں اس ٹرین کی آخری منزل کھوکھراپار تھی۔ ایک صبح میں دفتر میں بیٹھا تھا کہ ہماری ایک خاتون ساتھی ترنم نے ہماری دوسری خاتون ساتھی لورڈز جوزف سے پُرمسرت لہجے میں کہا "اللہ کتنا مزا آئے گا ناں انڈیا جانے میں۔ اتنا آسان سفر۔ توبہ! اس سے پہلے تو کراچی سے لاہور جاؤ۔ 18 گھنٹے، پھر وہاں سے دہلی، 12گھنٹے اور پھر لوٹ کے راجھستان اف تو بہ! توبہ!”
اس بات چیت کے دوران میں بھی یہی سوچنے لگا کہ واقعی لوگوں کے لیے کتنی سہولت ہو جائے گی لیکن اگلے ہی لمحے میری خاتون ساتھی نے جو بات کی اُس نے مجھے چونکا دیا۔ موصوفہ کی گفتگو کا اگلا حصہ یہ تھا کہ وہ بس میں بیٹھ کر لانڈھی سے 15 منٹ میں ملیر 15، ملیر 15 سے 15 منٹ میں کھوکھرا پار، اس کے بعد آدھ پون گھنٹے میں انڈیا! یوں تو ہمیں بھی معلوم تھا کہ جس کھوکھراپار کو وہ ایک اور کھوکھرا پار سے خلط ملط کر رہی ہیں وہ ہندوستانی سرحد سے قریب ضلع عمرکوٹ میں واقع ہے۔
ٹرین کی روانگی سے تقریباً ایک ہفتے قبل ریلوے مزدور یونین کے نام ور رہنما منظور رضی نے ایک نشست میں ہمیں بتایا تھا کے کراچی سے بذریعہ ٹرین کھوکھراپار کا فاصلہ تقریباً 284 کلومیٹر ہے جب کہ عمرکوٹ کے ہمارے صحافی دوست لال مالھی کے مطابق بذریعہ سڑک کراچی سے کھوکھراپار کا فاصلہ تقریباً 400 کلومیٹر تھا۔
میں نے اُس وقت تو ترنم کو اس کی اس غلط فہمی پر نہیں ٹوکا لیکن یہ سوچنے پر ضرور مجبور ہوگیا کہ آخر کراچی میں کھوکھراپار آیا کہاں سے؟ میرا اب بھی اُس دفتر آنا جانا رہتا ہے۔ ترنم اگر کبھی کبھار کام کے دباؤ کے باعث جھنجھلا اُٹھتی ہیں تو میرا اتنا ہی کہہ دینا کافی ہوتا ہے کہ کھوکھرا پار کے ذریعے انڈیا جانا کتنا آسان ہے۔ اُس کے بعد ان کا موڈ یک لخت تبدیل ہو جاتا ہے۔
وہ کھلکھلا کر ہنس پڑتی ہیں۔ بہرحال میرے ذہن میں یہ خیال جڑ پکڑ گیا کہ آخر کھوکھراپار کے نام کی بستی کراچی میں کب قائم ہوئی؟ کچھ دوستوں کے ذریعے اس سلسلے میں علاقے کے مختلف رہائشی لوگوں سے بات کی مگر کچھ معلوم نہ ہو سکا۔
بالآخر میں نے، ایک صحافی دوست ارباب چانڈیو سے، جو ملیر میں رہائش پذیر ہیں، اس ضمن میں معلومات کے لیے درخواست کی۔ ارباب نے بتایا کہ اگر میں ملیر میں رہائش پذیر محقق گل حسن کلمتی سے بات کروں تو وہ شاید میری کوئی مدد کر پائیں۔
گل حسن کلمتی کی کراچی کے مختلف علاقوں کی تاریخ پر ایک تفصیلی کتاب بھی شائع ہو چکی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ تقسیم ہند کے بعد بذریعہ راجھستان ہجرت کرنے والوں کا پہلا پڑاؤ کھوکھراپار کے مہاجر کیمپ میں ہوتا تھا۔ بعد ازاں یہ مہاجرین بذریعہ ٹرین سندھ کے مختلف علاقوں میں آباد ہو جاتے تھے۔ ان مہاجریں میں سے کچھ کراچی کے مضافاتی علاقے ملیر میں آباد ہوئے۔ اس وقت پورے علاقے کو ملیر کے نام سے جانا جاتا تھا۔
ان مہاجرین نے علاقے میں اپنی شناخت قائم کرنے کے لیے جہاں وہ آباد تھے اُسے اپنی ہجرت کے پہلے پڑاؤ یعنی کھوکھرا پار کی نسبت سے کھوکھرا پار کا نام دے دیا۔ کھوکھرا پار کے نام کو باضابطہ طور پر ایوب خان کے دور میں ایک سرکاری نوٹیفیکیشن کے ذریعے قانونی شکل دی گئی جس کے بعد یہ نام زبان زدِ عام ہو گیا اور آج تک اس علاقے کو کھوکھراپار کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
دو یا تین نسلیں گذرنے کے بعد اب کھوکھراپار میں بسنے والے افراد بھی شاید یہ بات بھول چکے ہیں کہ اس علاقے کا نام کھوکھرا پار کب کیوں اور کیسے پڑا۔ میں سوچتا ہوں کہ ہجرت کے بعد ملیر میں آباد ہونے والے مہاجرین نے یو پی، دہلی، حیدرآباد کالونی کے بجائے کھوکھراپار کے نام کو ترجیح کیوں دی۔
غالباً وہ اسی دھرتی کی مٹی سے اپنے نئے تعلق کو یہ نام دے کر مضبوط بنانا چاہتے تھے۔ یہ اُس خلیج کو کم کرنے کی کوشش تھی، جس کا آغاز پاکستان کے قیام سے ہی سندھی، مہاجر کی شکل میں ہو چکا تھا۔
اس وقت ہجرت کرکے آنے والوں کو یہ اندازہ ہی نہیں ہو گا کہ ان کی اس کوشش کے باوجود 65 سال بعد مقامی اور غیر مقامی افراد کے درمیان تفرقات کا یہ پودا ایک اتنا تن آور درخت بن جائے گا۔
اختر حسین بلوچ سینئر صحافی، مصنف اور محقق ہیں. سماجیات ان کا خاص موضوع ہے جس پر ان کی کئی کتابیں شایع ہوچکی ہیں. آجکل ہیومن رائٹس کمیشن، پاکستان کے کونسل ممبر کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ