گلزار احمد
کچھ دن پہلے ادب کا 2018ء کا نوببل انعام پولینڈ کی 57 سالہ خاتون Olga Tokarczuk
کو ایک ناول لکھنے پر ملا ۔ کہا جا رہا ہے کہ اس خاتون کا باپ سکول کا لا ئیبریرین تھا جس کی وجہ اس نے بہت کتابیں پڑھیں وارسا یونیورسٹی سے ساییکالوجی میں ڈگری لی اور پھر ناول لکھ کر نوبل پرائیز جیت لیا۔
میں سوچ رہا تھا مغرب میں سائنس و ٹکنالوجی میں بے پناہ ترقی کے باوجود لوگ لائیبریریوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں جبکہ ہماری لائیبریریاں ویران پڑی ہیں مطالعے کا شوق مٹ رہا ہے تو ہم ترقی کیسے کریں گے؟
خیر میں اس خاتون کے خیالات جاننے کے لیے سارا دن کمپیوٹر پر بیٹھا رہا اور جو باتیں سامنے آئیں وہ یہ ہیں انہوں ناول نگاری سے متعلق کہا:
’’ناول نگاری بہت مشکل کام ہے اس لیے کہ آپ زندگی کی رونقوں سے کٹ کر علیحدہ ہو جاتے ہیں جیسے کسی کو قید تنہائی میں بھیج دیا جاۓ۔نہ کپڑے پہننے کا ہوش ہوتا ہے نہ جوتے پہننے کا۔بس کبھی کھڑکی سے لوگوں کو دیکھ لیا یا کسی سے مسکراہٹ کا تبادلہ ہو گیا لیکن آپ کا دماغ آپ کے ناول کے پلاٹ کے ارد گرد گھومتا ہے اور سب لوگ آپ کو ناول کے چلتے پھرتے کردار نظر آتے ہیں۔‘‘
زندگی کے متعلق اس خاتون کی سوچ کچھ اس طرح ہے۔وہ کہتی ہیں:
’’ہم ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جس میں رہنے کے کچھ اصول ہم نے خود بنا لیے ہیں۔ کچھ اچھے اور کچھ بُرے ۔پھر ساری زندگی ہم لوگ اپنے بناۓ ہوے اصولوں کی پیروی میں گزار دیتے ہیں.اس میں مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے کہ ہم لوگوں کے اصولوں میں ہر بندے کا اپنا الگ الگ معیار ہے اس لیے لوگ ایک دوسرے کو پہچاننے اور سمجھنے میں ناکام رہتے ہیں اور گڑ بڑ ہوتی ہے۔‘‘
پولینڈ کی اس ناول نگار خاتون نے اپنے ناول میں مردوں کے متعلق عجیب نظریہ قائم کیا ہے۔
وہ کہتی ہے ’’عمر بڑھنے کے ساتھ مرد خود فکری Testosterone autism کا شکار ہو جاتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ کم گو اور کھوۓ کھوۓ سے رہتے ہیں۔وہ لوگوں سے ملنا یا بات کرنا پسند نہیں کرتے اور ہر وقت کسی سوچ میں مبتلا رہتے ہیں۔ایسے لوگوں کی دلچسپی سیاستدانوں یا جنگی ہیرو ٹائپ لوگوں سے تو ہوتی ہے مگریہ لوگ ناول بہت کم یا بالکل نہیں پڑھتے۔ ایسے لوگوں کے ساتھ رہنا اس لیے مشکل ہوتا ہے کہ وہ بات نہیں کرتے اور خاموش رہتے ہیں۔‘‘
خیر یہ ایک خاتون ناول نگار کے خیالات تھے ہمارا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ۔ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے اردگرد کے ادیبوں کا جائزہ لیں کہ وہ کوئی معیاری ادب تخلیق کر رہے ہیں کیا ان کی کتابیں لاکھوں نہیں تو سیکڑوں میں بکتی ہیں؟ کیا پاکستان کا کوئی ادیب نوبل انعام حاصل کر سکے گا یا نہیں؟ جو کچھ میں نے اس ملک میں دیکھا ہے وہ یہ ہے کہ ڈیرہ کے بڑے سے بڑے ادیب کی اتنی کتابیں فروخت نہیں ہوتیں جتنے میرے گلی کے نکڑ بالکل ان پڑھ ایک عامل کے تعویز بکتے ہیں۔ آپ یہ حقیقت مانیں یا مانیں مگر سچ یہ ہے ابھی اس قوم پر جن بھوت کا سایہ ہے جب یہ سایہ اترے گا تو کتابوں کا سوچا جائے گا ۔یہاں تو گاڑیوں کے پیچھے یہ نعرہ لکھا ملتا ہے’’آ تیڈے جن کڈھاں۔۔‘‘
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ