گلزار احمد
پہلے میں پاکستان کے آوٹ ڈیٹڈ اور غیر متعلق تعلیمی نظام کا رونا رویا کرتا تھا اب پتہ چلا کہ یہ نظام اتنا مھلک ہے کہ کئی نوجوان طالب علموں کی زندگی کھا گیا۔ آج ایک منکیرہ کا خوبصورت گھبرو ہمارے امتحانی سسٹم کی بھینٹ چڑھ گیا اور اس کی لاش تیرتی ہوئی ہیڈورکس سے ملی۔
بابا ہم ویسے تو مغربی ممالک کی ہر برائی کو بجلی کی تیز رفتار کی مانند اپنا لیتے ہیں مگر ہم 72 سالوں میں ڈھنگ کا تعلیمی نظام کاپی نہیں کرتے ۔
خود میرے دو بچے کینیڈا کے سکول میں پڑھتے ہیں ۔نہ کبھی سہ ماہی ۔ششماہی۔نوماہی۔سالانہ امتحان ہوتا ہے نہ کسی کو ٹرافیاں ملتی ہیں ۔بس سال کے آخر میں اگلی کلاس میں چلے جاتے ہیں۔کوئی رزلٹ تک آوٹ نہیں ہوتا۔
ہمارے پرائیویٹ سکول ایک کلاس میں دس دس فرسٹ نمبر کی ٹرافیاں دے کر والدین کا دل خوش اور طلباء کے دل پر چھریاں چلاتے ہیں۔ انٹرمیڈیٹ بورڈ ڈیرہ کے بارھویں جماعت کا رزلٹ آوٹ ہوا تو بچے سڑکوں پر جلوس نکالنے لگے۔
گومل یونیورسٹی کا ایگزام سیکشن دس ماہ تک نتیجہ نہیں نکالتا یار یہ سب کچھ کیا ہے۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ آج بھی ہمارا تعلیمی نظام کا برا حال ہے جوجمود کا شکار ہے اور دنیا کی پانچ سو اعلی یونیورسٹیوں میں اگر ہماری کسی ایک یونیورسٹی کا نام آ جائے تو ہم ڈھنڈورا پیٹ کر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں ۔ حالانکہ ہمارا تعلیمی نظام عصری تقاضوں سے بالکل غیر متعلق ہو چکا ہے۔
آج کی دنیا میں علم کو ہنر سے جوڑ دیا گیا ھے اور رٹہ سسٹم متروک ہوچکا ھے آج مغرب کی یونیورسٹیوں میں طلبا کو عملی تربیت دینے کے لئۓ ڈیپارٹمنٹ کے پاس نیوکلر پلانٹ تک موجود ہیں اور ہم سے اپنا نیوکلر پاور بننے کا دعوی تک نہیں سنبھالا جا رہا۔
ہماری یونیورسٹیوں ۔کالجوں اور سکولوں کا نصاب ساری دنیا میں متروک ہو چکا اس لئے انٹرنیشنل جاب مارکیٹ میں ہم دوسروں کا مقابلہ نہیں کر سکتے حالانکہ دنیا کی سب سے بڑی جوانوں کی تعداد کی طاقت ہمارے پاس ھے۔ HEC نے گزشتہ کئی سالوں کے دوران متعدد یونورسٹیوں سے Phd پروگرام بند کروائے کیونکہ وہ یونیورسٹیاں تعلیمی معیار کی کمترین سطح پر بھی پوری نہیں اترتی تھیں۔ ہمارے مدارس کی کہانی الگ ہے۔
پرانی بات ہے کہ مولانا مناظر احسن گیلانی نے ایک جگہ طلبا اور ان کے نظام تعلیم کے بارے میں فرمایا تھا کہ ہمارے طلبا کی مثال اصحابِ کہف کی سی ھے کہ وہ مدرسے میں داخل ہوتے ہیں اور جب آٹھ دس سال کے بعد مدرسہ سے تحصیل علم کے بعد نکلتے ہیں تو باہر کی دنیا بالکل بدل چکی ہوتی ہے۔
سکہ رائج الوقت بالکل تبدیل ہو چکا ہوتا ہے زمانے کا اسلوب ذرہ بھی ان کے اسلوب سے میل نہیں کھاتا اور ہمارے طلبا اپنے دور کے مسائل سے بالکل ناواقف ہوتے ہیں۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ کسی بھی حکومت کی ترجیح تعلیم رہی ہی نہیں ۔ PTI کی حکومت نے KP میں گزشہ دور حکومت میں تعلیمی بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کیا ۔اسکولوں میں سہولیات بڑھائیں اور اساتذہ کی حاضری کو یقینی بنایا۔
اسکولوں کو چیک کرنے کے لئے مانیٹرنگ ٹیمیں بنائ گئیں مگر سرکاری سکول پرائیویٹ سکولوں کے مقابلے میں بہتر کارکردگی نہ دکھا سکے۔ حالانکہ سرکاری سکول کے اساتزہ کی تنخواہیں پرائیویٹ کے مقابلے میں چار پانچ گنا زیادہ ہیں۔
معیار تعلیم میں گراوٹ کی وجہ اساتذہ کی ناقص تربیت اور committment کی کمی ہے۔ پاکستان میں سرکاری ملازمین ہر جگہ پرائیویٹ ملازمین کے مقابلے میں بہت کم output دیتے ہیں ۔سکولوں کا بھی یہی حال ہے پورے سکول کے سو اساتذہ میں بیس کام کرتے باقی سفارش کے ذریعے انکے کندھوں پر سوار رہتے ہیں ۔
بیس فیصد اساتذہ کولھو کے بیل کی طرح کام کرتے ہیں اور انکے رزلٹ کا انعام دوسروں کو ملتا ہے۔کئی اساتذہ سائنس کی سیٹوں پر بھرتی ہوتے ہیں لیکن سکول میں سائنس کا مضمون تک نہیں پڑھا سکتے۔ سرکاری اسکولوں میں ایک کلاس میں طلبا کی تعداد سو سے بھی بڑھ جائےتو حکومت کوئ توجہ نہیں دیتی۔
ہر کلاس کے لئے طلباء کی ایک مقررہ تعداد ہونی چاھئے جو تیس سے زیادہ نہ ہو تاکہ اساتزہ ان پر توجہ دے سکیں ۔ یونیورسٹیوں میں ایڈمنسٹریٹیو پرابلم بڑھتے جا رھے ہیں مگر حکومت اس طرف کوئی توجہ نہیں دے رہی۔ کہیں ہڑتالیں کہیں کلاسوں کا بائیکاٹ۔ امتحانوں سے نقل کا رحجان ختم نہیں ہو سکا۔ examination centre تک بِک جاتے ہیں۔
ہم تعلیمی اداروں سے بے علم بے عمل ڈگری ہولڈر پیدا کر رھے ہیں جن کا کوئ مستقبل نہیں اور دھکے کھا رہے ہیں۔ پرائیویٹ سکولوں میں بچوں کو پڑھانے کے اتنے اخراجات ہیں کہ 90% پاکستانی برداشت ہی نہیں کر سکتے ۔نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ڈھائی کروڑ بچے سِرے سے سکول ہی نہیں جا رہے۔
مختلف سروے بتاتے ہیں کہ کرپشن کرنے میں دوسرے محکموں کے ساتھ محکمہ تعلیم بھی ٹاپ میں شمار ہوتا ھے۔ طلباء کو کمپوٹر فراہم کرنے کے بہانے اربوں روپے کرپشن کی نظر ھو گئۓ۔ تبادلوں اور پوسٹنگ پر رشوتیں حالانکہ PTI حکومت کرپشن کے سخت خلاف ھے مگر منہ زور بیورکریسی اور کرپٹ سسٹم ہاتھ دکھا دیتا ہے۔حکومت نےParent teachers committeesبھی بنائی ہیں مگر ان کا تعلیم کے معیار بڑھانے میں کردار صفر ہے۔
اب ایک ہی حل ھے ملک میں تعلیمی ایمرجنسی لگا کر تعلیم کے معیار کو ٹھیک کیا جاۓ ورنہ ہماری ڈگریاں اپنی قدر کھو رہی ہیں اور عالمی معیار بھت آگے جا چکا ہے۔ ملک میں تعلیم کے بغیر ترقی کے خواب دیکھنا محض ایک سراب ہے جو حقیقت سے بہت دورہے ۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ