ستمبر 30, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مفت کی بجلی ۔۔۔ گلزار احمد

اسی ترکمانستان سے افغانستان ۔پاکستان اور انڈیا نے قدرتی گیس خریدنے کا معاہدہ کر رکھا ہے جو ٹیپی کے نام سے مشہور ہے ۔

آئیے آج بجلی اور واپڈا کے زخم بھلا کر دل خوش کرنے کے لیے کچھ ایسے لوگوں کا تذکرہ کرتے ہیں جو مفت بجلی استعمال کرتے ہیں یا کرتے رہے ہیں۔

یہ کالم لکھنے کا خیال ہمارے ٹانک کے ایک اعلی تعلیم یافتہ دوست کاشف عدنان صاحب کے کمنٹس سے میرے ذھن میں آیا۔ کاشف صاحب نے میرے گزشتہ روز کے کالم میں جرمنی کا حوالہ دے کر بتایا تھا کہ جس دن وہاں ملکی ضرورت سے زیادہ بجلی پیدا ہوتی ہے تو جرمنی کے لوگوں کو بجلی نہ صرف مفت بلکہ الٹا بل کے قیمت میں کمی کر کے فراہم کی جاتی ہے اور اکثر ایسا جرمنی میں چھٹیوں کے دنوں میں ہوتا ہے جب فیکٹریاں بند ہوتی ہیں ۔

خیر میرا جرمنی کی ترقی کا سن کر دل خوش بھی ہوتا ہے اور اداس بھی۔خوش تو اس لیے کہ میں فرینکفرٹ اور برلن جا کر ان کی خوشحالی اور تاریخی دیوار برلن دیکھ چکا ہوں۔ دل اداس اس لیے ہوتا ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں جرمنی تباہ کر دیا گیا اور جرمنی کو پاوں پر کھڑا ہونے کے لیے بہت سے ممالک نے مدد کی جس میں ہمارا پاکستان بھی شامل تھا۔ جرمن لوگ ایک قوم کی شکل میں پھر سے ابھرے اور دنیا کی ایک عظیم طاقت بن گئے ۔

انہی سالوں میں جرمنی کی مدد کرنے والی پاکستانی قوم فرقہ واریت ، جنگوں، نااتفاقی ۔دہشت گردی کی شکار ہو کر ایک بے سمت ہجوم بن گئی اور آج ہمارا بال بال قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے اور یہ منحوس دن ہمیں ہمارے حکمرانوں کی اقتدار کی لالچ اور کرپشن نے دکھائے۔

آج بھی اقتدار کا کھیل اسی طرح جاری ہے جبکہ پوری قوم ہر قسم کے مصائب میں گھری نظر آتی ہے۔ خیر بات دور چلی گئی ہمارے قریب کے ملک ترکمانستان کے پاس گیس کے دنیا کے چھٹے بڑے ذخائر موجود ہیں اور اس ملک کے عوام 1993 سے 2017 تک مفت بجلی ۔گیس اور پانی استعمال کرتے رہے جو حکومت نے فراہم کیے۔

اسی ترکمانستان سے افغانستان ۔پاکستان اور انڈیا نے قدرتی گیس خریدنے کا معاہدہ کر رکھا ہے جو ٹیپی کے نام سے مشہور ہے ۔اس معاہدے کے تحت ترکمنستان سے 1814 کلومیٹر لمبی گیس پائپ لائین بچھائی جا رہی ہے جوافغانستان کی قندھار ۔

ہیرات ہائی وے سے گزرتی ہوئی کوئیٹہ داخل ہو کر ملتان پہنچے گی اور پھر انڈیا کے فاضلکا کے علاقے بھی جانا تھی مگر افغانستان میں جنگ اور بدامنی کی وجہ سے تعطل کی شکار رہی ہے۔ مجھے خوش قسمتی سے اشک آباد جا کر ٹیپی کا معاہدہ اور یہ خوبصورت شھر دیکھنے کا موقع بھی ملا۔

ادھر صدر ایوب کے زمانے جب نیے ڈیمز بنے اور ہائیڈروپاور بجلی پیدا ہونا شروع ہوئی تو ہمارے گھر ڈیرہ میں آٹھ آنے ماہانہ بجلی کا بل آتا تھا۔

ہمارے ٹیوب ویل بھی واپڈا کی بجلی سے چلتے تھے اور بہت کم بل آتا تھا۔ پھر ہم پر ایسے حکمران مسلط ہوے جنہوں نے بڑے بڑے کمیشن لے کر تیل سے چلنے والے پاور جنریٹر غیر ممالک کے لگوا لیے جس سے پہلے واپڈا کا بٹھہ بیٹھ گیا پھر پوری قوم تباہی کے گڑھے میں جا گری ۔

اس وقت ہم لوگ بارہ بارہ گھنٹے لوڈ شیڈنگ بھی برداشت کرتے ہیں پھر بھی بجلی کے بلوں پر ھزاروں لاکھوں کے جرمانے ادا کرنے پڑتے ہیں۔جب دنیا ہوائ۔ سولر اور پانی کی صاف ستھری اور مفت انرجی کی طرف جا رہی تھی جس کی ملک میں فراوانی ہے ہمارے حکمران ملک کو تیل سے چلنے والے جنریٹر لگا کے رینٹل راجے بن رہے تھے۔

اب ان پاور جنریٹر کے ایسے معاہدے کیے گیے کہ اگر 22 کروڑ عوام اور ملک کو بیچ دیا جاے تو بھی ان جنریٹر کا ماہانہ خرچ ادا نہیں ہوتا۔

اگر کوئی مقامی عدالت ان معاہدوں کا پوچھے تو وہ بین الاقوامی عدالتوں میں جا کر آپ پر مزید جرمانے لگوا دیتے ہیں۔ قوم کا یہ حال ہے کہ زندہ باد اور مردہ باد کے نعروں میں مگن رہتی ہے ان حالات میں ہم سوچتے ہیں کیا آذاد قومیں اس طرح ہوتی ہیں ؟

About The Author