رضوان ظفر گورمانی
پرویز مشرف کے دور کے ابتدائی سال تھے میں گاؤں سے پڑھنے کے لیے کوٹ ادو آیا کرتا تھا ہمارے گورنمنٹ ہائی سکول کوٹ ادو کی کینٹین اور سائیکل سٹینڈ کا ٹھیکہ کاظم شاہ کے پاس ہوتا تھا سکول کی کینٹین پہ بریانی کی چھوٹی پلیٹ پانچ روپے اور بڑی دس روپے میں مل جاتی تھی سکول کے گیٹ کے سامنے عباس پلازہ میں کشمیر ہوٹل کے نام سے اک چھوٹا سا فوڈ پوائنٹ تھا وہاں دس روپے میں دو سموسے چنے ڈال کر ملا کرتے تھے تفریح کے بعد نماز کا وقفہ ہوتا تھا اہل تشیع طالب علم کلاس روم کی بیک سائیڈ پہ اک چھوٹے دروازے جو عام طور پہ بند ہی رہتا تھا سے جنرل بس سٹینڈ کی طرف نکل کر بھٹیوں والے محلے میں نماز پڑھنے کے لیے جاتے تھے اس گلی کی نکڑ پہ سڑک کنارے سٹوڈنٹ بریانی والے اک ریڑھی ہوتی تھی اور جنرل بس سٹینڈ پہ کالا چائے ہوٹل کے پیچھے اک نتھو چھولے والا بیٹھتا تھا
یہ وہ فوڈ پوائنٹ تھے جو طالب علمی کے دور میں ہمارا پیٹ بھرتے تھے کشمیر ہوٹل کے سموسوں جیسا ذائقہ مجھے دوبارہ کبھی نہیں ملا سٹوڈنٹ بریانی والا اب بھی موجود ہے اور میں اب کئی بار اس کے پاس بریانی کھانے گیا لیکن بڑھتی مہنگائی نے اس کے ذائقے کو بدل ڈالا ہے کاظم شاہ کینٹین چھوڑ چکا ہے اور نتھو بے چارہ فوت ہو گیا ہے
اس سب میں اگر میں کسی ذائقے کو مس کرتا ہوں تو وہ نتھو کے چھولے ہی ہیں کیا آپ یقین کریں گے نتھو چھولے کی پلیٹ اور تین تندور کی روٹیاں دس میں دیا کرتا تھا چھولے پانی کی طرح پتلے ہوتے تھے اور روٹی اتنی پتلی کہ آر پار نظر آ جائے میں آج تک نہیں سمجھ پایا کہ نتھو وہ روٹیاں کیسے پکا کر لاتا تھا اس کے پاس چھوٹی سی جگہ تھی لیکن ہر وقت رش لگا رہتا تھا
ان چھولوں کا ذائقہ اور اس نرم گرم روٹی کا متبادل مجھے آج تک نہیں ملا اس کی دکان میں جاتے ہی اک اشتہا انگیز خوشبو ہمیں گھیر لیتی تھی پتلے چھولوں نہیں معلوم ایسا کیا ڈالتا تھا کہ لوگ انگلیاں چاٹتے رہ جاتے
پھر میں بڑا ہو گیا جاب لگی تو پاکستان بھر میں گھومنے فائیو سٹار ہوٹلز میں قیام اور طعام کے مواقع ملے انٹرنیشنل اداروں کی فنڈنگ سے ان بڑے بڑے ہوٹلز میں آئے دن ٹریننگز اور ورکشاپس کا اہتمام کیا جاتا اک وقت ایسا آیا کہ میں اس سب سے تھک گیا اور کوشش کیا کرتا کہ ایسی ٹریننگز میں نہ جانا پڑے خیر کہنے کا مقصد یہ ہے کہ میں نے ہر طرح کے پاکستانی کھانے کھا کر دیکھے ہیں میں چونکہ خود بھی ککنگ کا شوق رکھتا ہوں اس لیے مجھے صرف وہ کھانے ہی پسند آتے ہیں جو واقعی لذیز ہوں
بڑا نام اچھی سٹنگ ارینجمنٹ پرسکون ماحول اور بہترین سروس یہ سب اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے لیکن میں ان سب سے زیادہ ذائقے اور معیار کو اہمیت دیتا ہوں
اس لیے میں نے کوٹ ادو کے ہر بڑے ہوٹل میں بھی کھانا کھایا ہے اور سڑک کنارے بنے چھپر ہوٹلز سے بھی کوٹ ادو میں کوئی نیا فوڈ پوائنٹ نظر آ جائے تو اک بار اسے چیک ضرور کرتا ہوں
آج میں اپنے تجربے سے احباب کو کوٹ ادو کے اچھے فوڈ پوائنٹس سے آگاہ کرتا ہوں اگر آپ بریانی پلاؤ یا چاول سے بنا کچھ کھانا چاہتے ہیں تو نصیب بریانی کوٹ ادو ہسپتال کے سامنے موجود سٹوڈنٹ بریانی لگانے والا نوجوان بہتر ہیں اس کے علاوہ مجھے قلندری پلاؤ والوں کا ذائقہ بھی بہتر لگتا ہے یہ کوٹ ادو میں کافی قدیمی پکوان ہیں جنوبی پھاٹک کے نیچے ان کا فوڈ پوائنٹ ہے اک جنرل بس سٹینڈ میں آٹے والی شاپ کے سامنے ٹھہرتا ہے اور اک موچیوالہ سکول کے سامنے ریڑھی لگاتا ہے یہ پلاؤ کو بریانی کہہ کر بیچتے ہیں
اگر آپ نان چھولے یا نان حلیم کھانا چاہتے ہیں تو چھولے آپ صوفی مرغ چھولے ویگن سٹینڈ والے سے کھا سکتے ہیں حلیم کالی پل پہ کاشی حلیم والے سے لے سکتے ہیں یہ نسبتاً بہتر ہیں کوٹ ادو میں فرائیڈ رائس مجھے ابھی تک کسی کے پسند نہیں آئے البتہ گھر کے بنے ہوئے بہترین فرائیڈ رائس کافی دفعہ کھا چکا ہوں
فاسٹ فوڈ کی بات کریں تو کوٹ ادو میں اٹالین پیزے والے آئے پیزا ہٹ آیا لیکن ناکام ہو گئے ہم کوٹ ادو والے مانتے ہیں کہ اک ہزار روپے کے اک روٹی جتنے پیزے کی بجائے اک ہزار میں اک کلو چکن کڑھائی تین بندوں کے ساتھ کیوں نہ کھائی جائے اس لیے فاسٹ فوڈ چین ناکام ہو گئیں اور مجھ جیسے کئی لوگوں کے ممبر شپ کارڈ کے پیسے ڈوب گئے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ کوٹ ادو میں پیزہ ملتا ہی نہیں کوٹ ادو میں تقریباً ہر بڑی بیکری والے پیزہ بناتے ہیں اک دو دیگر فوڈ پوائنٹ پہ بھی پیزہ بنتا ہے لیکن جو پیزہ اور زنگر برگر ارحم بیکری والوں کا ہے ویسا کوٹ ادو میں کہیں بھی نہیں ملتا دیگر فوڈ پوائنٹ کی طرح ان بٹھا کر کھلانے کی بجائے ٹیک اووے سسٹم ہے اب انہوں نے کالی پل پہ کاشف بیکرز بھی خرید لیا ہے ..یہ لوگ ڈی جی خان سے آئے ہیں انہوں نے پہلے ارحم خریدی اور پھر کاشف بیکرز ان لوگوں کا اخلاق معیار اور ذائقہ ایسا ہے کہ جو اک بار گیا وہ دوبارہ نہ جائے ایسا ممکن نہیں..میرے ذاتی دوست یہاں جاتے ہیں میرا نام لے کر تعریف کرتے ہیں اور رعایت کرا آتے ہیں ان کی مٹھائی کیک پیزہ تو اچھے ہیں ہی لیکن جو زنگر برگر لذیذ ہے کیا کہنے
کوٹ ادو کی ہوٹلز میں ملتا تو سب کچھ ہے لیکن ہر جگہ ہر ڈش اچھی نہیں ہوتی اس لیے اگر آپ چکن کڑھائی کھانا چاہتے ہیں تو کیفے بشیر سے کھائیے اگر مٹن کڑھائی کھانی ہے تو آغوش ہوٹل باربی کیو گرین ویلی ہوٹل چکن پیس لاثانی فش کھانی ہے تو فوڈ کلب اور اگر آپ نے قیمہ چنے کڑی پکوڑا جیسے سالن کھانے ہیں تو پاکیزہ اچھی چوائس ہے پٹھان کی ہوٹل پہ نمکین گوشت,روش, قیمہ اور دال ملتی تو ہے لیکن یہاں سے کچھ کھانا ہے تو چپلی کباب ہی کھائیے
ابھی کچھ دن پہلے منڈی مویشی روڈ پہ اک فوڈ پوائنٹ کھلا ہے یہ مرغ چھولے بریانی اور قورمہ بناتے ہیں چھولے دو بار کھائے ذائقہ بہترین ہے لیکن چنے ٹھیک سے گلے ہوئے نہیں تھے سخت تھے باقی بریانی بھی مناسب تھی دوبارہ کھائی جا سکتی ہے مگر جو ان کا قورمہ مزے کا تھا کیا کہنے مجھے قورمہ اتنا پسند نہیں لیکن یقین جانیں میں نے نہ صرف وہیں بیٹھ کر کھایا بلکہ گھر کے لیے پیک کرا لایا اگر آپ مناسب پیسوں میں گھر والوں کو باہر کا کچھ کھلانا چاہتے ہیں تو ایمان والے سے بیف قورمہ لے آئیں آریز تو اسے چکن کڑھائی سے بھی بہتر قرار دے چکا ہے کم قیمت میں کڑھائی کے مزے اٹھائے جا سکتے ہیں
اگر آپ چائے پینا چاہتے ہیں تو کوئٹہ ہوٹل والے کی چائے بہترین ہے اس کے علاوہ دیوانی عدالت کی کینٹین پہ بھی اچھی چائے ملتی ہے کافی جوسز آئس کریم قلقلی ڈرنکس سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں تو دی سپ بہترین آپشن ہے
آخر میں وہ فوڈ پوائنٹ جن پہ جانا میرے نزدیک بے وقوفی ہے ان میں کیفے حسن جنرل بس سٹینڈ کے سامنے نیو نصیب بریانی کی ریڑھی اور لیوز کیفے یہ ایسے فوڈ پوائنٹ ہیں جو میرے نزدیک فضول ترین فوڈ سرو کرتے ہیں
میں ان فوڈ پوائنٹ پہ بہت جلد اک وی لاگ بھی بنانے والا ہوں اور دن میں کھائے گئے تمام کھانوں میں مجھے ناشتہ بہت پسند ہے اور میری اک خواہش ہے کہ میرا اک بہت اچھا ناشتے کا پوائنٹ ہو جہاں میں اپنی پسند کا ناشتہ کھلا سکوں اگلی بار آپ کوٹ ادو کے ناشتہ پوائنٹ اور چائے ہوٹلز پہ اپنے تاثرات سے آگاہ کروں گا
تب تک کھاتے رہیے مسکراتے رہیے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر