غضنفرعباس
دوہزاردس میں آنے والے تباہ کن سیلاب کو ایک سال پورا ہونے کو آیا تو سوچاسیلاب زدہ علاقوں میں جایا جائے اور دیکھا جائے کہ ایک برس بیت جانے کے بعد سیلاب زدگان کس حال میں جیون گزار رہے ہیں۔
میں سرائیکی وسیب کے ضلع راجن پور میں تھا اور مجھے پتہ چلا کہ دریائے سندھ میں پانی چڑھنے سے، کوٹ مٹھن کے قریب ایک پُل ٹوٹ گیا ہے۔ یہ عارضی پُل، گزشتہ سال سیلاب کے دنوں میں بنایا گیا تھا۔چنانچہ میں کوٹ مٹھن کی جانب اپنا رُخ کیا۔ وہاں پہنچنے پر لوگوں کو نقل مکانی کرتے دیکھا لیکن ایک درخت کے نیچے، محمد خالد نے مجھے اپنی طرف کھینچ لیا۔۔۔۔۔
پسینے میں شرابور، پچیس سالہ خالد، لکڑی کی ایک شہتیر پر رندا لگا رہے تھے۔۔۔۔
محمد خالد، جنوبی پنجاب کے ضلع راجن پور میں نامور صوفی بزرگ، خواجہ غلام فرید کے آبائی شہر کوٹ مٹھن کے رہائشی ہیں۔ اُن کی بستی، ملاحوں کی بستی کہلاتی ہے۔
پاکستان میں گزشتہ سال کے بدترین سیلاب نے، دریائے سندھ کے کنارے اس بستی کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا تھا۔ چند مقامات پر لگے ہوئے خیمے، سیلاب کے زخموں کی یاد دلا رہے تھے، اور محمد خالد نے بھی، امریکی امدادی ادارے یو ایس ایڈ سے ملنے والے، ایک خیمے میں ہی اپنی دکان سجا رکھی تھی۔۔
خالد کا خاندان کئی پشتوں سے کشتی سازی سے منسلک ہے۔ لیکن اِس سیزن نے ان کے ہُنر کو نئی جان بخشی ہے۔خالد کے مطابق سیلاب کے بعد کالا باغ سے لیکر ٹھٹھہ تک سندھ دریا کے ساتھ بسنے والے کاشتکارخاندانوں نے بڑی تعداد میں کشتیاں بنانا شروع کر دی ہیں۔
خالد کا کہنا تھا اس برس انھوں نے گزشتہ برسوں کی نسبت دوسو گنا زیادہ کشتیاں تیارکی ہیں۔
روایتی طور پر کشتی، ماہی گیروں کا اثاثہ رہی ہے۔ لیکن دریائے سندھ کے کنارے، اس خطے میں، اب کشتی کی اہمیت، مچھلیاں پکڑنے سے آگے بڑھ چکی ہے۔
محمد خالد سے گفتگو جاری ہی تھی کہ ایک کاشتکار کشتی بنوانے کی تلاش میں آن پہنچے۔راجن پور کی یونین کونسل نور پور مچھی والا سے تعلق رکھنے والے کاشتکارملک گل محمد بوہڑ کا کہنا تھا کہ گزشتہ برس آنے والا سیلاب ان کا سب کچھ بہا کر لے گیا تھا۔ اس لیے وہ اور اس کے علاقے میں بسنے والے دیگر لوگ اب اپنی کشتیاں بنوانا چاہتے ہیں مگر کشتیاں بنانے والے کاریگر کم پڑگئے ہیں ۔صرف یہی نہیں بلکہ کشتی بنانے کے معاوضے اور لکڑی کے نرخوں میں بھی بھی سو فیصد اضافہ ہوچکاہے۔
اور یہ صرف مقامی لوگ ہی نہیں، بلکہ دریا کے کنارے آباد، دور دراز کی بستیوں کے لوگ، بیو پاریوں کے ذریعے، اپنی نئی ضرورت پوری کرنے کی کوششوں میں ہیں۔
ایک بیوپاری، غلام یاسین، ملاحوں کی بستی میں، اپنے آرڈر پورے کرتے ہوئے نظر آئے۔غلام یاسین خود بھی ملاح ہیں اوردربارفرید کے عقب میں واقع بستی منچھری کے باسی ہیں ۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلے وہ کشتی چلایا کرتے تھے مگرپھر انھوں نے لکڑی کا ٹال لگایا اور کشتی بنوا کر بیچنا شروع کردیں ۔ ان کے مطابق اس برس انھیں بڑی تعداد میں کشتیاں بنوانے کے آرڈر ملے ہیں مگر کاریگر ضرورت سے کہیں کم ہیں ۔ اس لیے وہ بہت کم لوگوں کی ڈیمانڈ پوری کر پائیں گے۔
محمد خالد نے کشتی بنانے کے لیے درکار لکڑی کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ سب سے مضبوط کشتی دیار کی لکڑی سے بنتی ہے مگر وہ چونکہ بہت مہنگی اور کمیاب لکڑی ہے اس لیے بڑے بڑے زمیندار ہی وہ کشتی بنوا پاتے ہیں ۔
محمد خالد کے مطابق چلغوزہ ، آم ، شیشم اور سفیدہ کی لکڑی بھی کشتی سازی کے لیے استعمال ہو رہی ہے مگر دیار کے مقابلے میں ان کی عمر بہت کم ہوتی ہے۔یعنی جتنا گُڑ اتنا میٹھا۔ لیکن طلب اور رسد کی غیر متوازن صورتحال نے محمد خالد کی آمدن میں کتنا فرق ڈالا ہے؟
اس پر خالد کا کہنا تھا کہ اس کی آمدن تو ضرور بڑھی ہے مگر اس کی آزادی سلب ہوئی ہے پہلے وہ اتنا زیادہ کام نہیں کرتے تھے مگر اب انھیں ان کی خواہش کے برعکس کام کرنا پڑتا ہے کیونکہ ڈیمانڈ زیادہ اور کشتی ساز کم ہیں ۔ خالد کے بقول وہ لوگوں کی مجبوریوں کو دیکھتے ہوئے دن رات کام میں مصروف ہیں۔یہ کہتے ہی نئے موقعے پر مبنی، اِس سیزن سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے محمد خالد، ایک بار پھر کشتی کے تختے بنانے میں مصروف ہو گئے۔
میں نے ان خیالات کے ساتھ کوٹ مٹھن چھوڑا، کہ گزشتہ سال کے بدترین سیلاب نے، دریا کے کنارے برسوں سے مقیم اِن لوگوں کو، ہمیشہ کے لیے خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔ وہ خوف، جس نے شاید، دریا اور اِس کی لہروں میں جینے بسنے والوں کے درمیان، اعتماد کا رشتہ ہی ختم کر دیا ہے۔ سائیکل، موٹر سائیکل یا گاڑی کی طرح، نقل و حرکت کے لیے، اب ایک کشتی بھی، یہاں کے باسیوں کی مستقل ضرورت بنتی جا رہی ہے۔
نوٹ: یہ تحریر 2011میں لکھی گئی
اے وی پڑھو
سیت پور کا دیوان اور کرکشیترا کا آشرم||ڈاکٹر سید عظیم شاہ بخاری
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ