ذوالفقار علی
صبح کا منظر ہے ہوا میں تازگی اور ٹھنڈک کا حسین امتزاج ہے۔ سورج طلوع ہونے سے پہلے ہی زندگی جاگ اُٹھی ہے۔ گھر کی عورتیں پتھر کی چکی (گھرُٹ) پر جوار ، گندم اور باجرہ کے دانے پیس رہی ہیں۔ ہاتھ سے گھومنے والی چکی کی موسیقی کانوں میں رس گھول رہی ہے۔
درخت یا "ٹاں ویں” پر بیٹھے مُرغ کی اذان سونے والوں کو ایک نئی صبح کی چتاؤنی دے رہی ہے۔
مُختلف مذاہب کو ماننے والے اپنی اپنی عبادت گاہوں میں کسی خوف کے بغیر عبادت میں مصروف ہیں۔ کسانوں نے اپنے بیل جوت لیے اور اُن کے گلوں میں لٹکتی ہوئی ٹلیوں کی آواز نے پرندوں کو بھی جگا دیا ہے۔
نیلگوں آسمان پر چمکتے ستاروں کی روشنی مدھم پڑ رہی ہے دور اُفق پر اُبھرتے ہوا سورج ایک اور دن کو جنم دے رہا ہے۔
مٹی کے برتنوں ‘ دکھی ‘ (دکھی مٹی کا برتن ہے جس میں دودھ جمایا جاتا ہے) میں جمی دہی کو دادی اماں نے "مٹی” (ایسا برتن جس میں دہی ڈال کر لسی اور مکھن بنایا جاتا ہے) کے اندر ڈالا تو سونے جیسی دہی کی خوشبو نے بچوں کو جگا دیا۔بچے لال رنگ کے کُمہار کے ہاتھ سے بنے پیالے لے کر دادی سے دہی لینے پہنچ گئے۔
مٹی کے گُھبکار اور پرندوں کی چہچہاہٹ نے آس پاس کے ماحول میں سماں باندھ دیا ہے۔
چاروں طرف لہلہاتی فصلوں کے کھیتوں کے بیج مقامی مٹی کی کوکھ سے جنمے ہیں۔اس لیے وہ ماحول دوست اور ذائقے میں باکمال ہیں۔ سب لوگ جاگ چُکے ہیں اور اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہو گئے ہیں۔گھر کی عورتیں ناشتہ بنانے میں لگ گئی ہیں، تندور اور پتھر کی بنی ہوئی تھوبی پر تازہ روٹیوں کی مہک نے بھوک کو اور دوبالا کر دیا ہے۔گھر کی پتھاری پر بیٹھ کر سب نے مل کر مکھن، دہی اور ساگ سے ناشتہ کیا اور معمول کے کاموں پر جُت گئے۔
چرواہے بکریوں، بھیڑوں اور گائے کے ریوڑوں کے ساتھ ہو لیے۔ وہ آس پاس کی چراگاہوں میں اپنے مویشیوں کے ساتھ خوش ہیں ۔اس خوشی کا اظہار وہ لوک گیتوں کی سُریلی تان گا کر کرتے ہیں۔
ہندو کمیونٹی کے لوگ اپنے کاروبار اور دُکانوں پر چلے گئے، کُمہار، ترکھان، موچی اور نائی بھی رزق روزی کی تلاش میں نکل پڑے ہیں۔وہ اپنے فن اور اشیا کے بدلے بارٹر سسٹم کے تحت زراعت کے پیشے سے جُڑے کسانوں سے فصل پکنے کےسیزن پر گندم، جوار اور باجرہ لیں گے۔
شام کے سائے گہرے ہوتے ہی سب اپنے اپنے گھروں کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ گاؤں کے چوپال (بیٹھک) پر سب مرد اکٹھے ہو رہے ہیں گہما گہمی بڑھ رہی ہے، وہ دن بھر کا حال احوال دیں گے، بستی کے مسائل اور چھوٹے موٹے جھگڑے بھی وہیں پر نمٹائیں گے۔ حُقے کی گُڑ گُڑاہٹ میں ہنسی مذاق چل رہا ہے اور زندگی سے بھر پور قہقہے گونج رہے ہیں۔
گھر کی عورتیں بھی دن کے کام کاج سے تھک کر ” رفع حاجت” ( گاؤں سے باہر کھیتوں میں سب عورتیں اکٹھی ہو کر باتھ روم کے لیے جاتی تھیں) کے لیے جا رہی ہیں۔ وہاں بیٹھ کر وہ ایک دوسرے کو اپنا حال احوال سُنا رہی ہیں۔اس مشق سے وہ اپنا کتھارسز کر رہی ہیں۔ ایک آدھ گھنٹے بعد جب وہ گھر لوٹیں گی تو ہلکی پُھلکی ہو کر آئیں گی۔
وقت لگے بندھے ضابطوں اور فطری اصولوں کے تحت ہنسی خوشی آگے بڑھتا ہے تو بچے گھر میں موجود بزرگوں کے پہلو میں لیٹ کر قصے کا لُطف لے رہے ہیں۔ رات کے گہرے ہونے سے پہلے سب گہری نیند سو جائیں گے یوں زندگی کا دائرہ چلتا رہتا ہے۔
شادی کے گیت، مقامی تہوار اور کھیل، خالص اور دیسی پکوان دیہات کی اس زندگی میں پوری طرح رچے بسے ہیں۔
غُربت اور وسائل کی کمیابی کے باوجود زندگی میں رمق اور ردھم ہے۔ لوگوں کا آپس میں تال میل ہے ۔ماحول ، مٹی اور ثقافت کے دھاگوں نے اُنہیں پوری طرح سے جوڑ رکھا ہے۔ وہ نئے ریاستی جبر اور منظم طاقتور ریاستی اداروں کی موذی وبا سے ابھی پراگندہ نہیں ہوئے۔
وقت یوں ہی گُزر رہا تھا کہ تقسیم کی باتیں ہونے لگیں۔ صدیوں کے رشتے کمزور پڑنے لگے اور سماجی ہم آھنگی کی تصویر پھیکی لگنے لگی، بالاخر ‘ غدر ‘ ( پُرانے بزرگ سینتالیس کی تقسیم کو غدر کے واقعے سے یاد کرتے ہیں) کی وہ منحوس گھڑی آن پہنچی جس نے صدیوں کے سماجی بندھن میں بندھے لوگوں کو ایک دوسرے سے جُدا کر دیا تو دیہاتوں کی فضا بھی سوگوار ہوگئی۔
مذہب کی بُنیاد پر ہجرت کی کالی رات نے گاؤں کی روح کو تار تار کیا تو انسانی تاریخ کے ایسے المیوں نے جنم لیا جس کو بیان کرتے ہوئےکلیجہ منہ کو آتا ہے۔
تقسیم کی اس لکیر نے گاؤں سے اس کے باسی چھین لیے تو باقی ماندہ لوگ بوجھل دل کے ساتھ زندہ ہیں۔
ٹوٹ پھوٹ کا جو عمل سینتالیس میں شروع ہوا اُسے کوئی ” نیا قانون” نہیں روک سکا۔ نئے سماجی اور انتظامی ڈھانچوں کی بحث میں اس دھرتی پر ہزاروں سالوں سے بسے باشندوں پر نئی ریاستوں کے وجود نے کیا کیا ظُلم کے پہاڑ توڑے اور کس پر کیا بیتی وہ تاریخ کے سُرخ چہرے پر کُنداں ہے۔
اگرچہ اس تقسیم کے” کرداروں” کو بھی سمجھ آگئی تھی کہ اس اُتھل پُتھل کا انجام کیا ہوگا۔ اکا دُکا کرداروں نے اپنے تئیں مزید بربریت کو روکنے کی کوشش تو کی مگر وہ اس قابل نہ ہوئے کہ نفرت اور لوٹ مار کی آگ کو بُجھا سکیں۔اس آگ کو بُجھانے والے ایک کردار کو تو گولی مار کر موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔جبکہ دوسرا اہم کردار بھی بے بسی کے عالم میں ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ اللہ کو پیارے ہوا۔
نئے قانون اور نظام کی رسیوں میں جکڑنے کی تگ و دو میں طاقت ور طبقے نے مقامی ثقافت، ریتی رواج اور مقامی ادراروں کو روند کے رکھ دیا۔ اقتدار کی رسہ کشی میں مُلائیت اور رجعتی بُنیادوں کی حامل ‘ قرار داد مقاصد ‘ کے خالق مُلک کے پہلے مُنتخب وزیراعظم کو بھی اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔
تشدد اور مار پیٹ کی لہر جب پیدا ہوتی ہے تو وہ اپنے سامنے آنے والی ہر چیز کو بہا کر لے جاتی ہے۔ انسانی نفسیات کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ درد اور تکلیف کا باعث بننے والے عناصر کو آسانی سے یاداشتوں سےکُھرچا نہیں جا سکتا بلکہ یہ رہتی عمر تک زندہ رہتی ہیں۔
اب جدید ریاست کو ایک آئین کی ضرورت ہے اور وہ "چھپن” کا آئین بنانا چاہتی ہے مگر بد قسمتی سے اس خطے کی طاقت اور اقتدارپر قابض زیادہ تر لوگ غیر مقامی اور کالونیل دور کی روایتوں کے رکھوالے اور عادی ہیں، جب انہوں نے ریاست کے نئے خدو خال طے کئے تو اپنی حُکمرانی کے جواز کے لیے اُن کو ” بائنڈنگ فورس”کی ضرورت محسوس ہوئی.
زمانہ قدیم سے یہ بائینڈنگ فورس غیر مقامی حُکمرانوں کا آزمودہ نسخہ ہے جس کے تحت مقامی لوگوں کو دیوتا، خُدا اور مذہب کے نام پر اپنی حُکمرانی کو نہ صرف طوالت دی بلکہ مذاہب کے نُمائندوں سے ملکر اپنی حُکمرانی کے جواز کی گُنجائش بھی پیدا کی، کیونکہ غیر مقامیت کے فطری نفسیاتی اثرات جس میں خوف اور اندیشوں کے بیج پرورش پاتے رہتے ہیں، ان کو دو طریقوں سے کم کیا جا رہا پہلا طریقہ تو یہ ہے کہ مقامی رنگوں کو اپنا لیا جائے جبکہ دوسرا طریقہ اپنے اندر کے خوف کو انہونی طاقتوں سے جوڑ کر ایک اور خوف کا سہارا لیا جائے۔اور اس مملکت خدا داد میں دوسرے طریقے کو اپنایا گیا۔
اس پس منظر میں آئین میں ایسی ایسی شقیں ڈالیں جن کا تعلق مقامی تہذیب و ثقافت، تاریخ، رجحانات اور روزمرہ کے رہن سہن سے نہیں تھا۔ نو سال بعد ” نیا قانون” تو بن گیا مگر وہ قانون “تانگے کے کوچوان” کو کسی قسم کا تحفظ ہرگز نہیں دیتا تھا(تانگے کا کوچوان منٹو کا ایک کردار ہے جس سے مُراد غریب اور پسے ہوئے مقامی طبقات ہیں)۔
قانون اور پالیسیوں کی اس بھیڑ چال میں دیہاتوں کی زندگیوں میں جو دور رس منفی رجحانات اور اثرات مُرتب ہوئے اُس میں خود ساختہ فیلڈ مارشل اور ڈکٹیٹر ایوب خان کی ” سبز انقلاب ” کی پالیسی سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔
سبز انقلاب ایسی پالیسی تھی جس کا تعلق عالمی کارپوریٹ ایجنڈے سے تھا۔اُس ایجنڈے نے سماجی، سیاسی اور ماحولیاتی مسائل کو بے حد نقصان پہنچایا تھا۔
سبز انقلاب کو دراصل سیاست اور ٹیکنالوجی کے حاصلات کے طور پر لاگو کیا گیا تھا۔ فطرت کی بندشو ں اور سماجی ڈھانچےکو توڑ کر زراعت میں زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کرنے کے لیے سائنس کا استعمال کیا گیا جس کا مقصد معاشرے میں خوشحالی اور امن لانا بتایا گیا تھا۔ سائنس کو اگر سماجیات سے الگ کر دیا جائے تو یہ اکثر اوقات آفت کا روپ دھار لیتی ہے۔
اس پالیسی کے تحت زمینوں کی تقسیم، (اسی زمانے میں فوجیوں کو زمیندار بننے کی لت پڑی تھی جو آج تک جاری ہے) ہائبرڈ بیج، مشینری ، فرٹیلائزر ، زہریلی ادویات کے استعمال کے ساتھ ساتھ آبپاشی کے نظام کو نئے سرے سے جدید خطوط پر استوار کرنے کا کام شروع ہوا۔ جن میں نئے ڈیمز، دریاؤں کی بندر بانٹ اور نہری پانی کو "قبضہ” شدہ زمینوں کو سیراب کرنے کیلئے استعمال کیا گیا۔
اور یہ سلسلہ آج تک رکا نہیں ابھی تک جاری ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ