مجاہد جتوئی
بہتے پانی کی طرح وقت کو بھی کوئی نہیں روک سکتا۔جسے ہم مستقبل کہہ رہے ہوتے ہیں وہ بھی ایک دن ”حال“ ہو جاتا ہے اور حال ماضی میں بدل جاتا ہے۔ کسی کے روکے رُکا ہے زمانہ ۔!
100دن آخر ہوتے ہی کتنے ہیں؟ صرف تین ماہ اور دس دن۔جن میں سے چھپن دن تو گزر ہی چکے ہیں۔ہمارا اشارہ موجودہ حکومت کے” آس“ پلان اور اعلان کی طرف ہے جس کے مطابق اس نے ثابت کرنا ہے کہ
” تبدیلی آ نہیں رہی بلکہ تبدیلی آگئی ہے“۔
خدا کرے ایسا ہی ہوکیونکہ اس تبدیلی کا پورے ملک کو انتظار ہے لیکن خاص طور پر سرائیکی وسیب کو۔جو دن نہیں بلکہ لمحات شمار کر رہے ہیں کہ کب تحریک انصاف کے اعلان کے مطابق الگ صوبے کا اعلان ہوتا ہے۔ لوگ سانس روک کر بیٹھے ہیں اور پورے صبر کا مظاہرہ کر رہے ہیں کہ جب تحریک انصاف کے ایجنڈے سے اتفاق کرتے ہوئے اُسے سو دن دیئے ہیں تو پھر مقررہ مدت کے اختتام سے پہلے کسی بے چینی کا اظہار توکیا مطالبہ بھی نہ دہرایا جائے کیونکہ ”صوبہ جنوبی پنجاب کے نام پر پیدا ہونے والی“ خود رَو قیادت کے ساتھ تحریکِ انصاف کا یہی معاہدہ ہوا ہے کہ سو دنوں کے اندر نیا صوبہ تشکیل دے گی۔
اگرچہ اب اس حوالے سے تحریک ِ انصاف کی قیادت کی طرف سے ”اگرچہ، مگرچہ،چونکہ ،چنانچہ“بھی سامنے آ رہی ہے لیکن پھر بھی اسے موقعہ دیا جا رہا ہے کہ وہ اپنا وعدہ وفا کرے۔ یہ تو ہے عام ووٹر کی بات۔
دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو کہ عام آدمی سے بھی زیادہ گہرا، تاریخی، ادبی اورثقافتی شعور رکھتے ہیں جنہیں عرفِ عام میں ”سرائیکی قوم پرست“ کہا جاتا ہے۔ وہ طبقہ تحریک ِ انصاف، پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے تجویز کردہ صوبے کے نام اور حدودِ اربعہ سے مکمل اختلاف رکھتا ہے۔ انہیں بنیادی طور پر ”جنوبی پنجاب “ کی اصطلاح سے ہی اختلاف ہے۔ وہ اس اصطلاح کو اپنے وجود اور تشخص کے خلاف سازش قرار دیتے ہیں۔ ان کا مطالبہ 23 اضلاع پر مشتمل ”صوبہ سرائیکستان“ ہے ۔
وہ اس سے کم کسی بھی شکل کو قبول کرتے نظر نہیں آتے۔ ان کی مخالفت میں ایک اور طبقہ سامنے آتا ہے جو اسے ”لسانیت“ سے منسوب کرتا ہے۔ حالانکہ تاریخ ثابت کرتی ہے کہ یہ وہی مطالبہ ہے جو خود قائدِ اعظم نے سندھ کو بمبئی سے علیحدہ کرنے کے مقدمہ میں کیا تھا۔ قائدِ اعظم کے اس ”لسانی بنیادوں“ پر الگ کرنے کے مطالبہ سے ساری کمیٹی کے دس گیارہ ارکان نے اس سے اختلاف کیاتھا مگر قائدِاعظم اکیلے اس مطالبے پر ڈٹے رہے کہ ”دیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ چونکہ سندھ کی زبان بمبئی سے الگ ہے لہذا اسے بمبئی سے الگ کر دیا جائے“۔ اور یہ ہو کر ہی رہا۔
سرائیکی قوم پرست بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ آخر پاکستان کے دیگر صوبوں کے نام کہاں سے آئے ہیں؟ وہ بھی تو لسانی صوبے اور لسانی نام ہی ہیں بلکہ ایک صوبے کا نام تو ماضی قریب میں ”صوبہ سرحد“سے بدل کر ”خیبر پختونخواہ“ رکھا گیا ہے۔ جس میں موجود تمام سیاسی بلکہ مذہبی جماعتوں نے بھی اقراری حصہ لیا ہے۔ تو آخر وہ اب کس بنیاد پر ”صوبہ سرائیکستان“ کی مخالفت کر سکتے ہیں؟
وقت کا دریا تیزی سے بہتا جا رہا ہے۔ کم و بیش 56 دن گزر چکے ہیں باقی 46دن رہ گئے ہیں ۔لوگ سانس روک کر انتظار کر رہے ہیں یہ جانتے ہوئے کہ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے 11اضلاع اور ن لیگ کے صوبہ بہاولپور اورصوبہ جنوبی پنجاب کا لنگڑا لولا صوبہ نہ تو خود کوئی تاریخی ثقافتی بنیادیں رکھتا ہے اور نہ ہی پاکستان کے موجودہ عدم توازن کو کسی قدر بہتر کرنے میں ممدومعاون ہو سکتا ہے۔
صورتحال اس وقت یہ ہے کہ تین صوبوں کے سامنے ایک حد سے زیادہ بڑھے ہوئے صوبے کا 65%سے بھی زیادہ حجم گویا کار میں ایک ٹریکٹر کا پہیہ لگا ہوا ہے جو کار کو منزل پر پہنچانا تو کجا خود چلنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور باقی ماندہ پاکستان میں مسلسل بے چینی اور عدم توازن کا تقاضہ ہے کہ یہ جعلی اور جبری اکثریت ختم کی جائے۔ اور اس کے لئے مناسب فطری، تاریخی ، ثقافتی بنیاد یہ ہے کہ سابق صوبہ ملتان بشمول بہاولپور کو1818ءکی صورت پر بحال کر دیا جائے اور اس کا نام ”صوبہ سرائیکستان“ ہی رکھا جائے۔
بلاشبہ اب یہ بات بھی ہونی چاہے کہ صوبے کا نام بھی بذات خود کوئی بنیادی حل نہیں ہے۔ اصل ضرورت خود مختیاری کی ہے وہ خود مختیاری جس کی ضمانت ہمیں 1940ءکی قرار داد لاہور میں دی گئی تھی کہ، ”پاکستان ایک ایسا وفاق ہوگا جس کی اکائیاں اندرونی طور پر مکمل خود مختیار اور مقتدرہوں گی“۔ جی ہاں! ”اندرونی طور پرخود مختیار اور مقتدر ہوں گی“، یہ مجبور محض صوبے نہیں ہوں گے اور یہ خیال مولانا عبید اللہ سندھی کے اس قول سے لیا گیا تھا کہ
”کسی خطے کا صوبہ کہلانا دراصل اس خطے اور عوام کی توہین اور تذلیل ہے“۔
وعدہ شدہ اس وفاق کی شکل ہمیں یونائیٹڈ اسٹیٹس آف امریکہ ، متحدہ عرب امارات، سابقہ سویت یونین اور موجودہ یورپی یونین کی شکل نظر آتی ہے۔ پاکستان کو بھی اب ایسے ہی وفاق کی ضرورت ہے جس کا وعدہ 1940ءکی قرار داد میں اب بھی مینارِ پاکستا ن اور نصاب کی کتابوں میں پڑھا جا سکتا ہے۔
سخت گیر وفاق کی قیمت ہم 1971ء میں ادا کر چکے ہیں۔مزید ناکام تجربات ہمیں مزید ناکامیوں کی طرف دھکیل دیں گے۔ لہذا وقت کا تقاضہ ہے کہ ”جنوبی پنجاب“ کا کھلواڑ کرنے کی بجائے سندھ بمبئی علیحدگی کے ماڈل کو سامنے رکھ کر قائدِ اعظم کے مو¿قف کی توثیق کرتے ہوئے”صوبہ سرائیکستان “ وجود میں لایا جائے۔
آخر کب تک ہم حادثوں کی منتظررہیں گے؟
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ