نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ملتان میں تصوف ۔۔۔۔ جاوید اختر بھٹی

پروفیسر ڈاکٹر محمد امین اور ڈاکٹر مختار ظفر ملتان کی نمایاں ادبی شخصیات ہیں۔ وہ مسلسل لکھنے پڑھنے میں مصروف رہتے ہیں۔

جاوید اختر بھٹی


پروفیسر ڈاکٹر محمد امین اور ڈاکٹر مختار ظفر ملتان کی نمایاں ادبی شخصیات ہیں۔ وہ مسلسل لکھنے پڑھنے میں مصروف رہتے ہیں۔

حال ہی میں دونوں حضرات کی کتابیں منظر عام پر آئی ہیں اور ان کا موضوع تصوف ہے۔
یوسف سلیم چشتی لکھتے ہیں کہ ’’تصوف دل کی نگہبانی کا دوسرا نام ہے کیونکہ انسان بظاہر جسم اور نفس کا نام ہے مگر در حقیقت دل کا نام ہے۔ اگر دل مسلمان نہ ہوسکا تو رکوع و سجود یا زبان سے خدا کا اقرار دونوں بے معنی ہیں۔ ‘‘

مقالات تصوف

ڈاکٹر محمد امین ملتان کے معروف شاعر ،ادیب ،نقاد اور محقق ہیں۔ اس کے ساتھ فلسفے کے استاد بھی ہیں۔ انہوں نے تصوف کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ہے۔ ان کی نئی کتاب ’’مقالات تصوف‘‘ شائع ہوئی ہے۔ اس میں اکیس مضامین شامل ہیں۔ اس میں زیادہ حوالے ملتان اور جنوبی پنجاب یعنی سرائیکی وسیب کے ہیں۔ اس کتاب کا نام ’’جنوبی پنجاب میں تصوف‘‘ ہونا چاہیے تھا۔

ڈاکٹر محمد امین

ملتان کا صوفیانہ فکر، حضرت دیوان چاولی مشائخؒ برصٖغیر کے پہلے صوفی، بابافرید کے دوہے، حضرت بہاالدین زکریا ملتانی کی صوفیانہ فکر کے چند پہلو، شیخ ابوالفتح شاہ رکن عالم ، سید ابوالحسن جمال الدین ، موسی پاک شہید کی تصنیف ، تیسیرالشافلین کا تعارف، سلطان باہو کے صوفیانہ افکار اور خواجہ فرید پر مضمون ملتان میں تصوف کی روایت بیان کرتے ہیں۔

حضرت دیوان چاولی مشائخؒ جنہیں برصغیر کا پہلی صوفی کہا جاتاہے وہ ڈاکٹر امین صاحب کے جد امجد تھے۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ ’’یہی وجہ ہے کہ لوگ ان کا احترام کرتے ہیں اور محبت سے پیش آتےہیں ۔ شاید یہ دیوان چاولی مشائخؒ کا فیض ہے جو اگلی نسلوں تک چل رہاہے۔ برصغیر کی تاریخ میں صوفیا نے ہمیشہ اپنے آپ کو عام لوگوں کے ساتھ وابستہ رکھا۔ ان کا رہن سہن اپنایا اور انکی زبان کو وسیلہ اظہار بنایا۔ ‘‘
یہی وجہ ہے کہ صوفیا کا حلقہ ہمیشہ وسیع رہا۔ صوفی عوام کے حق میں بغاوت بھی کرتے ہیں۔ سرمد اور منصور کو سزائے موت ہوئی ۔ شاہ حسین اوربلھے شاہ نے حاکم وقت سے بغاوت کی ۔ لوگ آج بھی انہیں اپنے درمیان محسوس کرتے ہیں۔

یہ کتاب اس لئے بھی اہم ہے کہ آج کل تصوف پر پرانی کتابیں دوبارہ چھپ رہی ہیں۔ نئی کتابیں سامنے نہیں آرہیں۔

ڈاکٹر صاحب نے بہت سہل انداز میں تصوف کی کچھ رمزیں سمجھانے کی کوشش کی ہے ۔ ان کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ’’اسلامی تصوف میں فرد کا تصور‘‘ بھی جلد شائع ہورہاہے۔

ایک مضمون ’’تصوف کیا ہے؟‘‘ سے اقتباس :

’’ہندوپاک میں اسلام کی اشاعت کے سلسلے میں صوفیاء کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ یہاں پہلے سے ہندو اور بدھ تصوف کی روایت موجود تھی ۔ اس لئے ہندوپاک میں تصوف کو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی اور صوفیانہ فکر خوب پروان چڑھی ۔ تصوف یہاں کے لوگوں کے مزاج سے پوری طرح ہم آہنگ تھا ۔ مسلمان صوفیاءہندوؤں میں بھی احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ ‘‘

ملتان ادب اور تصوف

ڈاکٹر مختارظفر معروف محقق اور کالم نگار ہیں۔ وہ طویل عرصہ روزنہ خبریں کے ادبی اڈیشن کے مدیر رہے ہیں۔وہ تدریس کے شعبہ سے وابستہ رہے ۔ ان کی اب تک کئی کتابیں شائع ہوچکی ہیں ۔ ان کی تحریروں اور کتابوں کا تعلق ملتان اور جنوبی پنجاب سے زیادہ ہوتاہے۔ انہوں نے ایسے موضوعات پرلکھا جس سے ملتان کی ادبی شناخت کو تقویت ملی ۔ حال ہی میں ان کی ایک کتاب منظر عام پر آئی ہے۔

ڈاکٹر مختار ظفر

یہ کتاب تین ابواب پرمشتمل ہے ۔ 1ملتانیت۔2۔ تصوف۔3۔ ادب ۔ تصوف کا باب دس مضامین پر مشتمل ہے ۔ اور یہ تمام مضمامین سلسلہ سہروردیہ کے حوالے سے لکھےگئے ہیں۔ جن میں پانچ حضرت بہاءالدین زکریاملتانیؒ ،تین حضرت رکن الدین قریشیؒ اور ایک مخدوم عبدالرشید حقانی پر ہے۔ اور آخری مضمون ’’صوفیا کا کلام ، امن کا پیام ‘‘ ہے۔

حضرت بہاءالدین زکریاملتانیؒ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’حضرت بہاءالدین زکریا سہروردیہ سلسلہ کے عارف اور صوفی تھے۔ اس سلسلے میں طریقت پر شریعت کی بالادستی پر اصرار اور راسخ الاعتقادیت کا دفاع کیا جاتاہے۔ عقیدہ پرسیت کے ساتھ دنیاوی معاملات میں مکمل شرکت کی جاتی ہے۔ چنانچہ حضرت بہاءالدین زکریا ملتانیؒ نے روحانی ترقی کے لئے شریعت کی پابندی پر زور دیا اور مادی اور روحانی معاملات میں مسلم قواعد کو لازمی قراردیا۔ ‘‘

حضرت شیخ رکن الدین کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’ شیخ رکن الدین کے پوتے اور تصوف کے سلسلہ سہروردیہ کے نامور صوفی تھے۔ شیخ رکن الدین عالم اپنے دادا اور مرشد کی طرح متمول اور مؤثر شخصیت تھے۔ مگر انہوں نے اس تمول اور دنیاوی شان وشوکت کو پبلک کی بہبود کا ذریعہ بنایا اور اپنی سیاسی دانش اور طاقت کو ہندوستان کی مختلف قوتوں کے مابین توازن کے قیام میں صرف کرکے اپنے مکتب فکر اور طریقت کو سربلندی عطا کی۔ ‘‘

یہ کتاب ملتان میں سلسلہ سہروردیہ کے انداز فکر کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ ڈاکٹر مختار ظفر سہروردی صوفیوں کی سیرت کی طرف توجہ دی ہے ۔ اور ان کی انسانی ہمدردی کو موضوع بنایاہے ۔ ان کے پیش نظر ان کا عمل ہے جس سے عام لوگوں کو فائدہ ہوا۔

About The Author