جاوید اختر بھٹی
سنا ہے کہ ن م راشد کا ملتان میں 5/6 برس قیام رہا ۔ ان کی رہاٸش نواں شہر کی پہلی گلی میں تھی ۔ اس گلی میں ایک صاحب خاکسار تحریک سے وابستہ تھے راشد ان کے کرایے دار تھے غالباً ان کا نام عبدالرحمنٰ خاکسار تھا ۔
ن م راشد ملتان کمشنر آفس میں کلرک تھے۔ یہ 1938 کے قریب کا زمانہ ہے ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال کی وفات کے وقت ان کا قیام ملتان میں تھا ۔
ان دور میں خاکسار تحریک ملتان میں کافی مضبوط تھی ۔ ملتان کے بہت نوجوان اس تحریک میں شامل تھے ۔ ڈاکٹر صلاح الدین حیدر اور مصور زوار احمد کے والد بھی اس کا حصہ تھے ۔
ن م راشد اس تحریک سے وابستہ تھے ۔ ان دنوں انہوں نے اپنی بیگم کو جو لاہور میں رہتی تھیں ، بہت سے خطوط لکھے یہ کتابی صورت میں آ چکے ہیں۔ ان خطوط میں بار بار خاکسار تحریک کا ذکر آتا ہے ۔ ان کا خیال تھا کہ یہ انقلابی تحریک ہی ہندوستان میں اسلامی انقلاب لاٸے گی ۔
ن م راشد نے ملتان کے دو شاعروں کے شعری مجموعوں کے دیباچے لکھے ایک بھیم سین ظفر ادیب کا ” جوٸے بار “ اور دوسرا صادق مصور کا مجموعہ تھا جس کا نام اس وقت ذہن میں نہیں ہے ۔
وہ ملتان کے ایک رسالے ” نخلستان “ ( یہ ایمرسن کالج کا رسالہ نہیں تھا ) کے مدیر تھے ۔ ممتاز مفتی کی پہلی تحریر راشد نے ہی شاٸع کی تھی ۔ میرا خیال ہے کہ ممتاز مفتی ان دنوں سراٸیکی وسیب کے کسی سکول میں استاد تھے ۔
آزادی کے بعد ایک دفعہ راشد ملتان تشریف لاٸے تھے ان کے ساتھ پبلک لاٸبریری لانگے خاں باغ میں تقریب ہوٸی تھی ۔
یہ بھی پڑھیے
”سیفل نامہ“ مولوی لطف علی تے محبوب مٹھل مجاہد جتوئی||سعید خاور
”ساڈے دل دریا، ساڈی اکھ صحرا“(وسیب یاترا :21)||سعید خاور
”دریا او دریا، پاݨی تیݙے ݙونگھے“(وسیب یاترا :20)||سعید خاور