ذوالفقار علی
ایک ایسی حکومت جو روز بروز کمزور اور عالمی و اندرونی محاذوں پر تنہائی کا شکار ہورہی ہے، جس کو پالیسی لیول پر اور انتظامی معاملات میں شدید مسائل کا سامنا ہے اسے جمعیت علما اسلام (ف) کو گرانے کی کیونکر ضرورت درپیش ہے؟
یہ سوال اپنے آپ میں بہت سارے خدشات اور سوالات کو جنم دے رہا ہے، خاص کر اس صورت میں جب اپوزیشن کی دو بڑی جماعتیں اس وقت دھرنے اور لانگ مارچ پر ڈھکے چھپے انداز میں تحفظات کا اظہار کر رہی ہیں۔
اس دھرنے یا لاک ڈاؤن کا اس وقت کے سیاسی حالات کے تناظر میں جائزہ لیا جائے تو مزید شکوک و شبہات سر اٹھائے سیاسی افق پر ابھرتے نظر آتے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کی لیڈرشپ کی باتوں سے جو محتاط انداز نظر آ رہا ہے اس سے یہ اندازہ لگانا ہرگز مشکل نہیں ہے کہ ان دونوں پارٹیوں کے تھنک ٹینک مولانا کے دھرنے سے زیادہ خوش نہیں ہیں، خاص کر جو ٹائم فریم مولانا نے دیا ہے وہ اس ساری صورتحال کو اور پیچیدہ بنا رہا ہے، کیونکہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کا ہمیشہ وطیرہ رہا ہے کہ جب بھی کوئی جینوئن تحریک یا جمہوری حقوق کیلئے حالات ساز گار ہونے لگتے ہیں تو وہ ایسے چہرے ڈھونڈ کر سامنے لے آتے ہے جن کی پہچان کسی حد تک اینٹی اسٹیبلشمنٹ کے طور پر معاشرے میں مروج ہو چکی ہوتی ہے۔ اس طرح کی کئی مثالیں ہماری سیاسی تاریخ میں پائی جاتی ہیں جس کی ایک مثال مشرف دور میں وکلاء بحالی تحریک کی شکل میں ہمارے پاس موجود ہے۔
جب اصلی ” طاقت گر” دیکھتے ہیں کہ ان کے اقتدار کو خطرہ ہے تو وہ اپنے ہی بچوں کو نگل لیتے ہیں، ایک نئے ہنی مون کیلئے کسی نئی دلہن کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔
جمعیت کے حالیہ دھرنے کو میں ذاتی طور پر اس شکل میں دیکھتا ہوں کہ آنے والے دنوں میں موجودہ حکومت کی سیاسی اور معاشی ناکامی کو ” کیپچر” کرنے کیلئے ایسی ” پینسلین” کا استعمال کیا جائیگا جو جینوئین تحریکوں کے مدافعتی نظام کو وقتی ابھار کے بعد کنٹرول کر کے اپنے ہاتھ میں لے لے گی۔جس سے لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی اور سانپ بھی مر جائیگا۔
اس لئے فضل الرحمن سے صرف وہی خوش ہیں جو ” جوڑ توڑ” کے ماہر ہیں اور جنہوں نے ہمیشہ اپنی ایمپائر کو اسی ہنر کے بل بوتے پر اب تک چلایا ہے۔
یہ دھرنا یا تحریک بہت ہی کنٹرولڈ طریقے سے آگے بڑھے گی تاکہ پاکستان تحریک انصاف سمیت باقی سیاسی پارٹیوں پر پریشر بڑھا کر انہیں لگام دی جا سکے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اس ساری صورتحال کا ادراک ملک کی دو بڑی سیاسی پارٹیاں کیسے کرتی ہیں اور کس طرح اپنے کردار کا تعین کرتی ہیں۔
مجھے لگتا ہے کہ اپوزیشن کو اس سارے سکرپٹ کی بھنک ہے اور وہ بہت محتاط طریقے سے آگے بڑھیں گے مگر وقت کے ساتھ ساتھ ان کے آپشن محدود سے محدود تر ہوتے جائیں گے۔اس لئے ایسی توقع رکھنا کہ ملک میں اس دھرنے سے جمہوریت بحال ہوگی یا اسٹیبلشمنٹ کمزور ہو جائیگی نری بیوقوفی ہوگی۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ