شبیر سومرو
’’آپ نے جب ہمارا انٹرویو لیا تھا،اس وقت ہم صدموں سے چور تھے اور ہمارے پاس کھانے پینے اور رہنے بسنے کو کچھ نہ تھا۔آج چودہ سال گزرگئے ہیں پر ہماری حالت آج بھی وہی ہے۔ ہمارے بنیادی مسئلے آج بھی وہی ہیں۔ اس دوران اتنا ہوا ہے کہ ہمیں صبر کرنا آگیا ہے ،وقت گزرنے کے ساتھ ہمارے صدموں کی شدت کم ہوئی ہے مگر مسئلے بڑھ گئے ہیں ۔ پہلے یہ آسرا تھا کہ جیسے جیسے دن گزریں گے ،بہتری ہوتی جائے گی مگر اتنا عرصہ گذرنے کے بعد ہر طرح کے آسرے ٹوٹ گئے ہیں ۔ آپ میڈیا کے پہلے شخص ہیں جو بار باربلکہ ہر سال رابطہ کر کے ہمارا حال پوچھتے ہیں ورنہ ادھر کئی این جی او اور اداروں والے وعدے کرکے گئے کہ بہت جلد آکر ہمارے گھر اور روزگار کا کچھ کریں گے، مگر ہم اپنی زبان سے کیا بولیں؟ آپ کو یہ ہمارا”گھر“خود ہی سب کچھ بتارہا ہوگا کہ ان لوگوں نے اپنے وعدے کس قدر پورے کئے ہیں!“ ۔
بالاکوٹ کے مفتی محمود نہایت شکایتی انداز میں بتارہے تھے اورجہاں زلزلے کے بعد انھوں نے جھونپڑ نما شیلٹر بناکر پناہ لی تھی، وہاں اب کچا پکا مکان نظر آرہاتھا۔ان کی باتیں سنتے ہوئے وہاں جمع ہونے والے دوسرے مقامی لوگ افسوس سے نفی میں سرہلا ہلاکر ان کی باتوں کی تصدیق کررہے تھے اور زبان بے زبانی سے تائید کررہے تھے کہ زلزلہ زدگان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ انہوں نے اب تک اگر زندگی کی گاڑی دھکیلی ہے تو یہ ان پر قدرت کا کرم تھا یا ان کی سخت جانی تھی،اس میں سرکاری عمّال یا اداروں کی امداد کا کوئی کردار نہیں۔
پہلی بار جب بالاکوٹ میں مفتی محمود ،ان کے بھائی آفتاب حسین ،کم عمر بھائی زاہد الطاف اور ان کے کزن اعتصام سے ملاقات اور بات چیت ہوئی تھی تو انہوں نے بتایا تھا کہ ان کے والد تحصیل بالاکوٹ کے چیئرمین رہے ہیں جوکہ اس زلزلہ میں شہید ہوگئے ہیں۔ نہ صرف والد بلکہ والدہ اور کئی دوسرے قریبی عزیز بھی زلزلہ کی نذر ہوگئے ہیں۔ اس وقت میں بالاکوٹ کے علاقے گرلاٹ میں واقع اس پرائمری اسکول کے ملبے سے اٹھ آیا تھا، جہاں3سو کے لگ بھگ پھولوں جیسے بچے8اکتوبر کو کملا گئے تھے۔
میں نے اس ملبے سے چند بچوں کے اسکول بیگ کھنگال کر کچھ چیزیں اکٹھی کی تھیں جن میں ایک ننھے طالب علم سفیر احمد کی سلیٹ، کتابیں، کاپیاں اور مور کا ایک پنکھ شامل تھا۔ اس کے بیگ میں پانی کی آدھی بھری ہوئی بوتل بھی نکلی تھی۔ سفیر کے متعلق اس کے زندہ بچ جانے والے ایک کلاس میٹ مراد حفیظ نے بتایا تھا کہ وہ ان کا مانیٹر یا پریفکیٹ تھا جوکہ شرارت کرنے والے بچوں کے نام لکھ کر کلاس ٹیچر کو دیا کرتا تھا۔ سفیر کی سلیٹ پر قلم سے ایک”گھر“ کا خاکہ بھی بناہوا ملا تھا جس کے نیچے لکھا تھا:
”یہ میرا گھر ہے“
آج اتنےسال گذر جانے کے بعد بالاکوٹ میں ہزاروں گھر بن چکے ہیں مگر جو عروج اس بستی کا زلزلے سے پہلے تھا، وہ اب تک لوٹ کر نہیں آیا۔ کہا گیا تھا کہ بالا کوٹ چونکہ ریڈ زون میں آچکا ہے، اس لیے اب یہاں کے مکینوں کو قریبی محفوظ پہاڑی مقام بکھریال پر زلزلہ پروف مکان بناکر دیئے جائینگے۔ مگر آج تک یہ سرکاری وعدہ وفا نہیں ہوا اورابھی تک بکھریال پر تعمیراتی کام شروع نہیں ہوا۔
بالاکوٹ کے پرانے دوستوں سے تازہ حال احوال فون کرکے معلوم کیا۔
یہ بالاکوٹ جیسا ہم لوگوں نے دیکھا تھا،ایسا بہت کم لوگوں نے مشاہدہ کیا تھا۔ یہ سیاحتی طور پر تو جھیلوں کی سرزمین کہلاتی تھی مگر ہمارے لئے یہ خوابوں کا دیس تھا جو ایک ہی دن کے چند لمحوں میں زلزلے نے تباہ کردیا۔ یہ بالاکوٹ جو پہلے رومانوی داستانوں لالہ افغانی ، قصہ سیف الملوک وبدیع الجمال اور سوہنی دھرتی کا سوہنا دیس مشہور تھا، وہ آج ملبے سے ابھر کر دوبارہ ایک قصبہ بن تو چکا ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ شہر زلزلے میں جاں سے گذرجانے والے ہزاروں شہداءکا گورستان بھی ہے۔
ہمارے ان خوبصورت علاقوں کی ابھی تو عالمی سطح پر تشہیر بھی نہ ہوئی تھی کہ کاغان وبالاکوٹ کے علاقوں میں نہ صرف جھیل سیف الملوک بلکہ جھیل دودی پت، جھیل لولو سر، پری بدیع الجمال کا گاﺅں ناران، جنت نظیر وادی شوگران، شڑاں اور لالہ زار جوفرش زمین پر حسن کے حامل علاقے تھے، وہ عناصر کی اتھل پتھل سے ایک ہی جھٹکے میں اپنی خوبصورتی گنوا بیٹھے ۔
بالاکوٹ زندہ ہوچکا ہے
دیومالائی پرندے ققنس کی کہانی کی طرح ماضی کا یہ شہر بے مثال اپنی ہی راکھ سے دوبارہ جینے کے جتن کرچکا ہے۔ بالاکوٹ میں زلزلے کے چند دن بعد جب ہم لوگ آئے تھے تو یہاں کا لینڈ اسکیپ اس طرح کا نظرآتا تھا کہ اسے لینڈ اسکیپ کے بجائے لینڈ اسکپ(Land Skip)کہا جاتا تو بے جا نہ ہوتا،مگر آج وہی تباہ وبرباد شہر تیزی سے نواں نکور نظر آرہا تھا ۔
ہم سمجھتے تھے کہ زلزلہ زدہ بالاکوٹ کے لوگ پختہ عمارتوں سے وابستہ ڈراووں سے اتنی جلدی باہر نہیں آسکتے، مگر ایسا نہیں۔ وہ بہت دلیر لوگ ہیں، جنھوں نے صبر تحمل سے یہ اندوہناک واقعہ برداشت کیا اورایک بار جینے کے جتن کرنے لگ گئے۔ پہلے مرحلے میں انھوں نے ممکنہ زلزلے کے خوف سے جو گھراور دکانیں بنائی تھیں، ان میں لکڑی اور ٹن کی چادروں کا استعمال کیا گیا تھا۔ اس طرز تعمیر کو وہاں محفوظ بلکہ ”زلزلہ پروف“ تعمیر کا نام دیا گیا تھا ۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ زلزلہ پروف تعمیراتی اسٹرکچر کا ہمارے زلزلہ زدہ علاقوں میں ابھی تک کوئی تصور نہیں۔
بالا کوٹ بازار کا نظارہ بہت وسیع وعریض نظر آتا ہے ،جس کے درمیان سے گزرنے والی کشادہ اور پختہ سڑک بھی صاف اور ہموار ہے ۔ درمیان والی گرین بیلٹ پر بھی پھولوں والے پودے جا بہ جا نظر آتے ہیں۔ بالاکوٹ کے ایک دوست آفتاب حسین نے میرے فون کرنے پر بتایا کہ پرویز مشرف کی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ بالاکوٹ کا علاقہ ریڈ زون کے اندر ہے، یہاں پھر کسی وقت بھی بڑا زبردست زلزلہ آسکتا ہے اور اس شہر کو یہاں سے ہٹا کر بکھریال کے مقام پر بسایا جائے گا، پر وہ سب دعوے اور وعدے خواب و خیال ہوکر رہ گئے۔ بعد کی حکومتوں اور اداروں نے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔ پھر لوگ اگر اپنی مدد آپ کرکے گھر، کاروبار نہ کرتے تو پھر کیا کرتے؟۔
بکھریال ادھر سے 25کلومیٹر دور ہے اور ادھر پہلے سے کوئی آبادی نہیں ہے۔ اردگرد علاقے میں چھوٹے چھوٹے گاﺅں ہیں۔ ادھر بھی ظاہر ہے کہ جس کا منہ جدھر اٹھتا، ادھر گھر بناکر بیٹھ جاتا کیا؟۔ سرکاری لوگ حد بندی کرکے بالاکوٹ کے اصل مکینوں کا سروے کرکے ان کو گھروں اور دکانوں وغیرہ کے لئے پلاٹ الاٹ کرتے تو اس کام کی ابتداء تو ہوجاتی مگر ادھر تو کچھ بھی نہیں ہوا۔
ان کی بات 100 فیصد درست تھی کہ برسوں گذرجانے پر بھی بالا کوٹ کے مکینوں کو متبادل مقام بکھریال پربسانے کے سلسلے میں حتمی پیش رفت نہیں ہوئی۔ لوگوں کو زندہ رہنے کے لئے زندگی کے معمولات تو شروع کرنا ہی ہےنا۔۔۔ تو ان بے چاروں نے حکومتوں سے مایوس ہو کر جیسے تیسے گذارے لائق زندگی شروع کر دی تھی اور آج بھی بس گذارہ ہی کر رہے ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر