مئی 16, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آواز حقوق جامپور… جامپور ضلع کے قیام کی اہمیت و افادیت

 آفتاب نواز مستوئی


جامپور 800سالہ قدیم تاریخی شہر ھے جسے ڈیرہ غازیخا ن ڈویژن میں مزھبی، سیاسی، سماجی، علمی ادبی اور کاروباری لحاظ سے ایک نمایاں مقام حاصل ھے. برصغیر پاک وھند کی عظم مزھبی تنظیم اھلسنت والجماعت کی بنیاد اسی شہر میں سردار احمد خان پتافی ؒ جن کا ذکر برصغیر پاک وھند کے سو بڑے مسلمان نامی کتاب میں غالباً ساتویں نمبر پر موجود ھے نے رکھی جسکے وہ پہلے بانی صدر منتخب ھوئے اور نوابزادہ سردار محمود احمد خان لغاری اسکے جنرل سیکریٹری مقرر ھوئے ۔

اسی جماعت نے انگریزی سامراج اور ھندو ازم کا مقابلہ کرنے کیلیے مدرسہ اسلامیہ قائم کیا جسمیں مسلمان بچوں کو دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم اور یتیم وغریب بچوں کیلیے قیام وطعام اور لباس کا اھتمام بھی کیا گیا تھا ۔

یہ مدرسہ اس وقت ڈیرہ غازیخان روڈ پر گورنمنٹ اسلامیہ سٹی بوائز ھائی سکول کے نام سے موجود ھے ۔

امام انقلاب اور تحریک ریشمی رومال کے بانی مولانا عبید اللہ سندھی ؒ جن کے نام سے منسوب عوام کے تعاون سے میونسپل کمیٹی جامپور شہر کے شرقی جانب مولانا عبید اللہ سندھی ؒ پارک بھی بنا رھی ھے نے پرائمری تک بنیادی تعلیم اسی مدرسہ سے حاصل کی ۔

اسی طرح پاکستان کے ایٹمی میدان میں سائنسدانوں کے استاد اول اور نوبل انعام کمیٹی کے ممبر ڈاکٹر محمد عبداللہ خان جیسے نامور لوگوں نے بھی اسی مدرسہ اسلامیہ سے ابتدائی تعلیم حاصل کر کے دنیا بھر میں اپنا نام کمایا ۔

جامپور کے قدیم ترین12 قبرستانوں میں،، قبرستان ٹھاکریوالہ،، اس حوالے سے بھی پاکستان کے بڑے قبرستانوں میں شمار ھوتا ھے کہ یہاں مدفون ھستیوں میں وقت کے ولی، نیک برگزیدہ شخصیات کے ساتھ ساتھ سب سے زیادہ تعداد قران مجید کے حفاظ کرام کی ھے ۔

یہ شہر مزھبی حوالے سے بھی ایک پرامن شہر چلا آرھا ھے روحانیت کے حوالے سے جامپور شہر میں سید قرضی سلطان، سید محسن الدین سہروردی المعروف سید مسن شاہ، سید کمال شاہ محلہ کمہاراں، نور شاہ غازی، فتح الدین پرھار المعروف فتو شاہ جن کے بام سے گورنمنٹ ایلمنٹری سکول فتو شاہ نمبر 2 بھی ھے، سید. آدم شہید، سید سلطان شاہ چشتی مودودی ، سخی لال پروانہ کے مزارات کء علاوہ خواجہ نور محمد نارو والے سرکارؒ حاجی پور، سید محب فقیر داجل روڈ، حافظ بے رنگ سلطان المعروف ابھڑنگ سلطان داجل، سخی حمزہ سلطان موضع بھمبھہ نزد چٹول، میاں محمد طیب سلطان قریشی تُنیہ ھڑند، سخی بور بخش ٹھل علی محمد، شہید بادشاہ کوٹلہ دیوان کے مزارات مرجع الخلائق ھیں-

ایک روایت یہ بھی ھے کہ سلطان العاشقین حضرت خواجہ غلام فرید ؒ جب جامپور شہر سے گزرتے تھے تو گھوڑی سے اتر کر جوتے اتار کر چلتے تھے ۔

کہا جاتا ھے کہ آپ فرماتے تھے کہ اس شہر میں انتہائی نیک اور برگزیدہ ھستیاں مدفون ھیں جن کا احترام واجب ھے۔

وارث شاہ کی پنجابی زبان میں لکھی گئی،. ھیر،. کے مقابلے میں سرائیکی زبان میں،، ھیر،. لکھنے والے عظیم شاعر چراغ اعوان کاتعلق بھی اسی دھرتی سے ھے جن کی مرقد واہ لشاری کے علاقہ درگڑی میں موجود ھے ۔

اسی طرح ایک اور نامور شاعر میاں عاقل جوگی بھی اسی خطہ سے تعلق رکھتے تھے جن کا مزار میاں دی وستی ھڑند میں ھے۔

تحریک پاکستان میں بھی یہ شہر سب سے آگے رھا یہاں کے باشندوں نے تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔

جہاں شعرا کرام او ر ادیبوں نے اپنے قلم کے جوھر دکھائے وھاں اس شہر کے سیاسی ورکر بھی کسی سے پیچھے نہ رھے جن میں سید فیض محمد شاہ مودودی، حکیم محمد خان پتافی، ملک غلام رسول ڈڈا جیسی نامور شخصیات نے قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں ۔

اسی طرح ھفت روزہ اسلام کے پبلشر ایڈیٹر اور پہلے نڈر بے باک صحافی واحد ندوی جنہوں نے جامپور میں پاک نیوز ایجنسی کی بنیاد ڈالی نے بھی تحریک پاکستان میں بھر پور کردار ادا کیا۔

زرعی وکاروباری لحاظ سے بھی جامپور ایک زرخیز خطہ ھے قیام پاکستان سے قبل سرسوں اور نیل کی بہت بڑی منڈی کا درجہ رکھنے والا یہ شہر لکڑی کی منقش مصنوعات اور پین نقاشی میں دنیا بھر میں مقبول ھے ۔

پین پر نقاشی کی ابتدا اسی شہر کے ایک سکول ٹیچر ریاض حسین راجو پین نقاش المعروف راجو بھائی نے کی جن کے تیار کردہ پین آج بھی غیر ممالک میں مقبول ھیں۔

کنالی جوتی، کُھسہ، جوتے پر کامداری کے ھنر مندوں کا یہ شہر آج بھی مرکز ھے دور دراز سے لوگ اپنی پسند کے جوتے یہاں سے تیار کرواتے ھیں۔

جامپور کے قدیم شہر داجل نسل کے بیل، بکرے، کھیر پیڑے چٌنی یعنی چٌنری یا دوپٹہ، آج بھی اپنی مثال آپ ھیں ۔

اسی طرح علاقہ پچادھ میں بلوچی روایات کے حامل کُرتے اور لباس اب بھی تیار ھوتے ھیں مگر مارکیٹ تک رسائی نہ ھونے کے باعث یہ گھریلو صنعت ماند پڑتی جا رھی ھے ۔

ایک روایت یہ بھی ھے کہ موٹر سائیکلز کی خرید وفروخت کے لحاظ سے ایشیاء کی سب سے بڑی موٹر سائکل شو روم مارکیٹ جامپور میں ھےـ

پنجاب کی سب سے بڑی بکرا منڈی جامپور کے علاقہ محمد پور دیوان میں ھر سوموار کو لگتی ھے ۔

لاھور، فیصل آباد، گوجرانوالہ الغرض پنجاب کے ھر علاقے کے بیوپاری یہاں سے بکرے اور دیگر مویشی خرید کر لے جاتے ھیں۔

تحصیل بھر میں ایک فلور ملز اور 16.کاٹن اینڈ جیننگ فیکٹریاں ھیں، پیداوار کے حوالے سے بھی جامپور کسی بھی علاقے سے کم نہیں۔

یہاں کپاس، گندم، جوار، باجرہ، مکئی، چنا، چاول کماد، تمام اجناس کاشت ھوتی ھیں موجودہ دور میں ورجینیاء تمباکو کی کاشت کا سب سے بڑا مرکز ھے اور حکومت پاکستان کو اس مد میں سب سے زیادہ ریونیو جامپور سے جاتا ھے ۔

اسی طرح سبزیات کی کاشت کے حوالے سے بھی جامپور کو مرکزی حیثیت حاصل ھے یہاں کی سبزیات خیبر پختونخواہ، بلوچستان اور سندھ کے مختلف علاقوں تک جاتی ھیں۔

اس کا علاقہ پچادھ قدرتی معدنیات سے مالا مال ھے یہاں اس قدر پتھر، اور ریت،کے ذخائر موجود ھیں جن سے مکمل سیمنٹ فیکٹری بن سکتی ھے۔

پھٹکڑی، نوشادر، سر دھونے والی مٹی جسے عرف عام میں ملتانی مٹی بھی کہا جاتا ھے اس علاقے میں کافی مقدار میں موجود ھیں۔

محکمہ آثار قدیمہ اور محکمہ سیاحت وثقافت کی نظروں سے اوجھل تاریخی قلعہ ھڑند، صحت افزا مقام ماڑی بھی اسی جامپور کا حصہ ھیں ۔

مجوزہ مرنج ڈیم بھی جامپور تحصیل میں واقع ھے یہاں کے مکینوں میں پہاڑی علاقوں کے لوگ بھیڑ بکریاں پال کر جبکہ میدانی علاقوں کے لوگ کھیتی باڑی کر کے گزر اوقات کرتے ھیں۔

تعلیم کے میدان میں جامپور اپنا منفرد مقا م رکھتا ھے پانچویں ڄماعت کے و ظیفہ کے امتحان سے لیکر بی اے بی ایس سی تک یہاں کے طلباء و طالبات ھمیشہ نمایاں پوزیشنیں حاصل کرتے ھیں ـاور یہاں کے تعلیم یافتہ اسکالرز، ڈاکٹرز، انجینیرز، آفیسرز نہ صرف ملک بھر میں پاک آرمی سمیت زندگی کے مختلف شعبہ جات میں گراں قدر خدمات سر انجام دے رھے ھیں ۔

بلکہ دنیا کے مختلف ممالک میں بھی اپنے شہر اور ملک کا نام روشن کیے ھوئے ھیں۔

انجینیر سید نور علی ضامن جنہوں نے 1926میں برطانیہ سے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی اور نہ صرف پاکستان کا نہری نظام ڈیزائن کیا بلکہ منگلا ڈیم، تربیلا ڈیم سمیت متعدد ڈیم بنائے کا تعلق بھی اسی دھرتی کے پسماندہ علاقہ داجل سے تھاـ

ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً دس لاکھ نفوس کی آبادی پر مشتمل تحصیل جامپور رقبہ کے لحاظ سے کوہ سلیمان سے لیکر دریائے سندھ تک 2322 sqkms پھیلی ھوئی ھے جبکہ اسکا ڈی ایکسکلوڈڈ ایریا 3007.ھے تحصیل جامپور کا کل رقبہ 573789ایکڑ ھے جسمیں 329087ایکڑ کاشتہ جبکہ 244702ایکڑ غیر کاشتہ ھے۔

یہ تحصیل 7قانونگوئی سرکل 68پٹوار سرکل اور 183 مواضعات پر مشتمل ھے جسمیں ایک میونسپل کمیٹی، 32یونین کونسلز، ایک سی او یونٹ، 7پولیس تھانہ جات 3پولیس چوکیاں شامل ھیں ۔

اس وقت اسکی سالانہ آمدنی ریونیو ریکارڈ کے مطابق 15کروڑ روپے سے زائد ھے.

صحت کی سہولتوں کے حوالے سے ایک تحصیل ھیڈ کوارٹر ھسپتال، 4رورل ھیلتھ سینٹرز، 13 بنیادی مراکز صحت، 13 سول ڈسپینسریاں ھیں شہر جامپور میں ایک زچہ بچہ سنیٹر تھا جسے گزشتہ چار سال سے بند کر دیا گیا ھے۔

تعلیمی حوالے سے گورنمنٹ پوسٹ گریجوائیٹ کالج فار بوائز، دو گرلز ڈگری کالج ایک گورنمنٹ کامرس کالج، ایک سینٹر برائے اسپیشل ایجوکیشن، 4گورنمنٹ بوائز ھائیر سیکنڈری جبکہ ایک گرلز ھائیر سیکنڈری سکول اسی طرح 17گورنمنٹ بوائزھائی، 14گورنمنٹ گرلز ھا ئی سکولز، 27گورنمنٹ بوائز ایلیمنٹری سکولز، 17گورنمنٹ گرلز ایلمینٹری سکولز، 183گورنمنٹ بوائز پرائمری سکولز، 143گورنمنٹ گرلز پرائمری سکولز ھیں.

فنی تعلیم کے حوالے سے ووکیشنل، ٹیکینکل ٹریننگ سینٹر 3 مردانہ اور 3 زنانہ ھیں، تحصیل بھر کے لاکھوں باشندے 1987سے مسلسل جامپور کو ضلع کا درجہ دینے کا مطالبہ کرتے چلے آرھے ھیں اور ھر جنرل الیکشن میں حصہ لینے والے امیدواروں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران اسے ضلع کا درجہ دینے اور سوئی گیس فراھم کرنے کا وعدہ کیا مگر کامیابی کے بعد اقتدار کے ایوانوں میں پہنچنے کے باوجود بھی تاحال کسی نے اپنے وعدوں کا ایفاء نہیں کیاـ

مگر جامپور ضلع کا قیام اس لیے بھی ضروری ھے کہ جامپور شہر ضلعی ھیڈ کوارٹر سے تقریباً 70 کلو میٹر دور ھے جبکہ اسکے پہاڑی اور دریائی علاقے 200سے لیکر 300کلو میٹر دور ھیں اور ان علاقوں کے باشندوں کو دور جدید کی کوئی بھی سہولت حاصل نہیں ھے خاص طور پر انہیں صحت اور پینے کے صاف پانی کے ساتھ ساتھ حصول تعلیم وروزگار کیلیے انتہائی کٹھن اور مشکل صورتحال کا سامنا کرنا ہڑتا ھے ـ

ضلع جامپور کے قیام سے جہاں لوگوں کا وقت اور پیسہ بچے گا وھاں ڈسٹرکٹ کورٹس کے قیام سے انہیں حصول انصاف میں بھی آسانی رھے گی ۔

اسی طرح عام آدمی کیلیے روزگار اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ملازمتوں کے مواقع میسر آئیں گے ضلع کے قیام سے مری سے بھی ٹھنڈا صحت افزا مقام،، ماڑی،، اور تاریخی قلعہ ھڑند پر توجہ مرکوز ھونے سے سیاحوں کی آمدورفت ھوگی ۔

علاقہ پچادھ ترقی کریگا لوگوں کی معاشی حالت پر بھی خوشگوار اثرات مرتب ھونگے ضلعی سطح کے تمام دفاتر، ڈپٹی کمشنر، ڈی پی او کمپلیکس، ڈسٹرکٹ کورٹس، ڈسٹرکٹ پولیس لائن حتی ا کہ ڈسٹرکٹ جیل تک کیلیے وسیع وعریض سرکاری اراضی،، رکھ عظمت والا،، میں موجود ھے اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو پنجاب کے دیگر اضلاع ننکانہ صاحب، چینیوٹ، حافظ آباد، ہاکپتن، وغیرہ سے جامپور زیادہ تو ھو سکتا ھے مگر کسی لحاظ سے کم ھر گز نہیں موجودہ پنجاب حکومت کو چاھیے کہ جامپور کو ضلع، داجل، محمد پور اور ماڑی کو تحصیلوں کا درجہ دیکر لاکھوں عوام کی خواھشات اور مطالبے کو پورا کرے کیونکہ انتظامی لحاظ سے بھی پنجاب حکومت کیلیے نئے اضلاع کا قیام انتہائی سود مند ثابت ھو گا جو کہ پنجاب میں ایک نئے صوبہ کے قیام کی راہ ھموار کرنے میں بھی مدد گار ھوگا.

%d bloggers like this: