ذوالفقار علی
آدی واس اور آج کے انسان کا مکالمہ
تحریر ذوالفقار علی
آدی واس
’’میں جب بھی دیکھتا ہوں تو روتا ہوں،
اس یخ بستہ اور ویران راستے کو،
جس کے چپہ چپہ اور قدم قدم پر،
بھوک و ننگ سے بلکتے اور ،
ٹھٹھرتی سردی سے،
شریانوں میں منجمد خون سے،
نیلو نیل ہوئے جسموں کو گھسیٹے ہوئے،
ہمارے معصوم بچوں کی آہیں اورچیخیں ایستادہ ہیں،
لاغر و لاچار ماؤں کے آنسو کے دریا بہتے ہیں،
اسی راستے پر ایک جھاڑی کے تلے،
ہماری نسل اور قبیلے کے بیگناہ،
قتل ہونے والے،
بچوں ، عورتوں اور مردوں کی،
قبریں پتہ دیتی ہیں،
میں جب جب یہ دیکھتا ہوں تو روتا ہوں،
کہ میرے پرکھوں کی وسیع زمینوں پر،
ہماری قبروں کے آثار بھی باقی نہیں رہیں گے!!!
آج کا انسان: بہت سن لیں تمہاری نظمیں، نظموں سے مہذب انسان کا پیٹ نہیں بھرتا اور نہ ہی رونے دھونے سے اس دنیا کو کوئی فرق پڑتا ہے ، جو ہو گیا وہ تاریخ ہے اور جو ہونا ہے وہ مستقبل۔۔
آدی واس: تاریخ تو گواہ ہے ، مگر منتظر ہےکسی غیر جانبدار عدالت کی، جو تعصب سے پاک انصاف کیلئے صدیوں سے چیخ رہی ہے مگر تمہارے فلسفے اور کم مائیگی پر مبنی قانون و ضابطے اندھے ،گونگے اور بہرے ہیں جن کو بے گناہوں کا خون نظر آتا ہے اور نہ ہی وہ ہماری آتما کی چیخوں کو سن سکتے ہیں، جس مستقبل کی طرف مجھے تم بہلا رہے ہو اس کا بھی مجھے اچھی طرح سے ادراک ہے کہ تم اس زمین کے ساتھ کیا کرو گے، ویسے تم نے حال کی تو بات ہی نہیں کی کیونکہ تمہارا حال ہی تمہارے مستقبل کی عمارت کو کھڑا کر رہا ہے ، کنکریٹ ، پتھر اور لوہے سے بنی ویران عمارت۔۔آج کا انسان: ماضی سے چمٹے رہو ، ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا، تم وقت اور زمانے کو جامد نہیں کر سکتے ، یہ لمحہ بہ لمحہ گردشوں کا کھیل ہے جہاں تم جیسے بنیاد پرست اور ناسٹلجک لوگوں کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے ، جاؤ اپنے بزرگوں کی قبروں پر سر میں مٹی ڈال کر آہ و فریاد کرو وہی تمہیں لحد کے اندھیروں سے ماضی کے بوسیدہ قصے کہانیاں سنائیں گے۔۔آدی واس: جسے تم گردشوں کا کھیل سمجھ بیٹھےہو وہ کھیل نہیں ہے وہ تو تعلق ہے ہر جی کا اس مٹی سے، ہوا سے، دھوپ سے، ستاروں سے، روشنی سے، پانی سے اور فضا سے۔۔۔!!تعلق اور جڑت آپسی نباہ اور مستقل مزاجی کا تقاضا کرتے ہیں مگر تم لمحہ بہ لمحہ بدلاؤ پر یقین رکھتے ہو تو تمہاری سمت کا تعین کیسے ہوگا ؟ تم کیسے آدر کر سکو گے اس تعلق کا جو وجود کل کی بقا سے جڑا ہے۔۔؟؟؟تم بنیاد پرستی کو تہمت و طعنہ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کر کے اپنے آپ کو مہذب اور ترقی یافتہ ثابت کرنا چاہتے ہو تو کرو مگر میری ایک بات یاد رکھنا تم خوش نہیں رہ سکو گے تمہارے وجود کی لرزیں تمہاری ہستی کو جکڑ کر ایسا مقید کریں گی کہ تمہاری آہ و بکا بھی کوئی نہیں سن سکے گا ۔۔آج کا انسان: ہمارے پاس ہر مسئلے کا سائنسی حل موجود ہے، ہم نے سائنسٹفک اپروچ کے بل بوتے پر دنیا کو مسخر کر لیا ہے اور ہم مستقبل قریب میں اس کائنات کو بھی مسخر کر لیں گے پھر تم جیسے سنکی طبیعت کے لوگ منہ چھپاتے پھریں گے۔آدی واس: سائنس تو وہ واسطہ ہے جو بند رازوں سے پردہ اٹھاتی ہے جو گنجلک گتھیوں کی گانٹھوں کو کھولنے کا طریقہ کھوجتی ہے جو نامعلوم سے معلوم کے سفر کے نشان ڈھونڈتی ہے مگر یہ کافی نہیں ہے۔کیونکہ جب تک ہماری رویہ جاتی اپروچ اس قابل نہیں ہوتی کہ وہ اس ” عظیم تعلق” کو برقرار رکھ سکے جو کئی ہزار سالوں کی لوک دانش اور فطری ہم آہنگی کے نفیس دھاگوں سے مختلف مظاہر کے درمیان بنا ہے، مگر جدید انسان نے اس تعلق کی اہمیت پر توجہ ہی نہ دی جس کی وجہ سے آج کا انسان اجتماعی لائف لائنز کی بہت ساری لائنز گنوا چکا ہے ۔۔آج کا انسان: تم خیالی دنیا سے چمٹے رہو ہمیں ابھی بہت سفر طے کرنا ہے۔۔آدی واس: کونسا سفر ، جنگ و جدل، ظلم و زیادتی، جبر و تشدد تنہائی و بے بسی۔۔ہوا کو مزید گندہ کرنے کا سفر، ہزاروں قسم کے جی جنتو کو نا پید کرنے کا سفر، دریاؤں اور سمندروں کو آلودہ کرنے کا سفر۔۔۔تمہارے گلیشئیر پگھل رہے ہیں، تمہارے جزیرے ڈوب رہے ہیں، تمہارا چاند گہنا رہا ہے ، تمہارے جنگل سکڑ رہے ہیں اور تمہاری زمینیں بنجر ہو رہی ہیں۔۔۔یہ تاثیر تمہاری روح میں بھی سرایت کر چکی ہے تم پھکڑ پن کا شکار ہو رہے ہو۔۔آج کا انسان: اپنی جذباتی باتیں سمبھال کے رکھو مجھے اور آگے جانا ہے ، میں ان سب مسائل کا حل نکال لونگا، تم اپنے ماضی میں زندہ رہو مجھے مسقبل کا بیانیہ تشکیل دینے دو ۔۔میرا وقت برباد نہ کرو یہاں سے دفع ہو جاؤ۔۔آدی واس: یہ دنیا صرف تمہاری نہیں ہے، تم مصنوعی طاقت کے ذریعے ہر چیز پر قادر نہیں ہو سکتے نہ ہی تم فطرت کو اپنے تصرف میں لا سکتے ہو، جب فطرت پلٹ کر اپنا وار کرے گی تو تمہاری روکھی روایتیں تمہیں نہیں بچا پائینگی، اس وقت تم اپنی بربادی کا ماتم بھی نہیں کر سکو گے۔۔
آج کا انسان: تم اپنے بیٹے ہوئے وقت کا ماتم کرو میں کہیں اور زندگی تلاش کر لوں گا۔۔نوٹ : ابتدائیہ مشہور ریڈ انڈینز شاعر اور ایکٹر چیف ڈان جارج کی ایک دلدوز نظم کا اردو ترجمہ ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ