خلیل کنبھار
کبھی کبھار تاریخ میں بڑے بڑے سپہ سالار گم ہو جاتے ہیں، شکست فاش سے دوچار ہوجاتے ہیں، لیکن کسی طوائف کے گھر کی دیوار پر جلتا ہوا چراغ صدیوں تک روشن رہتا ہے، وہ انکار کی علامت بن کر قائم رہتا ہے اور قومیں اسی طوائف کے انکار پر فخر کرتی رہتی ہیں۔ ایسا ہی ایک کردار ہے رفعت عباس کی شاعری کا، جس کا نام ہے : ”موراں“۔ جب محمد شاہ تغلق نے ملتان کو فتح کیا تو اس نے شہر میں منادی کا اہتمام کروایا تھا کہ آج کی رات کوئی بھی گھر روشن نہ ہوگا، یہاں تک کہ کوئی چولہا بھی نہیں جلے گا۔
اتفاقاً اسی رات موراں کے محبوب کو بھی آنا تھا اور چراغوں کی روشنی کے سواموراں کے گھر کو پہچاننا اس کے لئے مشکل ہوجاتا۔ اس لئے موراں نے ایک فاتح بادشاہ کی پابندی کا انکار کرتے ہوئے، اپنے محبوب کا خیرمقدم کرنے کے لئے، گھر کی دیوار پر چراغ جلا دیا۔ پھر وہ حکم عدولی کی پاداش میں اپنے محبوب سمیت اٹھا لی گئی۔ اس کے محبوب کو قتل کیا گیا اور موراں کو گم کر دیا گیا۔ موراں جو کہ ملتان کی گلیوں اور تاریخ کے اوراق سے غائب کی گئی تھی، وہ ایک لوک داستان بن گئی اور صدیاں بیت جانے کے بعد وہ ایک لیجنڈ شاعر رفعت عباس کی ہیروئین کے روپ میں ظاہر ہوئی۔ وہ ایک ایسی مسنگ پرسن ہیروئین ہے جس کی قبر ملتان کے باشعور لوگوں کے دلوں میں ہے۔
اسی مماثلت سے رفعت کی شاعری کے دیگر کردار بھی ہیں۔ محنت کش، مسخرے، کارٹون اس کی شاعری میں سے باقی معاشرے سے کہیں زیادہ عزتدار کردار بن کر نمودار ہوتے ہیں۔مقما
”نقلی، جوکر مسخرے، ساڈے اپنے لوک ہن رفعت“
اس کی شاعری میں ایک شہر خواب دیکھتا ہے، شہر اپنے منہ پر پانی کے چھینٹے مارتا ہے، حمام میں نہاتا ہے، نئی چپل پہنتا ہے اور شہر محسوس کرتا ہے کہ اس کے بغل کا زخم بھر چکا ہے۔ حملہ آوری کے طویل سلسلوں، قبضوں، سامراجیت اور استعماریت کی زد میں آئے ہوئے تمام شہر، اپنی مادری زبان، لوک داستانوں، تہذیب و تاریخ اور ثقافت کے خس و خاشاک میں سے، اپنی مقامیت کے وقت کو دریافت کر رہے ہیں۔
رفعت عباس جب بھی لکھتا ہے یا گفتگو کرتا ہے تو ہزاروں صدیوں سے بار بار بستا اور اجڑتا ملتان اس کے اندر میں اپنے تمام حسن اور کرب کے ساتھ موجود ہوتا ہے۔ وہ ایک ایسی روح ہے جس کو ملتان کی گلیوں میں پھرتے ہوئے وہ لمحے یاد آجاتے ہیں، جب ملتان کی گلیوں میں تاتاریوں نے گھوڑے دوڑائے تھے اور اس کا شہر ایک چیخ بن کر رہ گیا تھا۔ یا وہ لمحہ بھی وہ کبھی نہیں بھلا پایا جب برطانوی گولہ بارود نے اس شہر کے حسین دروازے کو نشان عبرت بنا دیا تھا۔
آریاؤں، ارغونوں، ترخانوں، مغلوں اور عربوں کے حملوں کا بھی وہ عینی گواہ ہے۔ وہ ہمیں بتاتا ہے کہ ان جنگوں اور دربدری کے دوران جب ہم سے ہمارا شہر چھینا گیا تھا تو ہمارے لوگ خانہ بدوش ہو کر جھنگلوں، صحراؤں اور دریاؤں کے کناروں میں گم ہو گئے۔ ان کو اچھوت، دلت، راکشس اور لادین قرار دے کر شہر بدر کر دیا گیا۔ وہ ان ذلتوں کے مارے لوگوں کے لئے اپنے شہروں میں گنجائش پیدا کرنے کے مسئلے پر نظم کہتا ہے اور ہمیں یاد دلاتا ہے کہ یہی انڈی جنیس لوگ ہیں، وہ کہتا ہے کہ جاؤ انھیں ان کے ریچھوں، لومڑیوں، نیل کنٹھوں، سانپوں اور بندروں سمیت منا کر واپس لاؤ، داخلے کے رجسٹر کو ختم کرو اور انھیں یقین دلاؤ کہ: یہ شہر آپ کا اپنا ہے، آپ جہاں چاہیں اور جس طرح چاہیں رہ سکتے ہیں۔
رفعت عباس کی شاعری میں بارش ہوتی ہے اور ہر چیز اس کے زد میں آ جاتی ہے۔ اولیائے کرام اپنے قبروں سے میں جاگ اٹھتے ہیں، پھر سو جاتے ہیں۔ بادشاہ و سپہ سالار گھبراہٹ اور غصے سے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور سپاہ کو چھوڑ کر یونان، ایران اور غزنی کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں۔ عام سپاہی بارش کی پرواہ نہیں کرتے اور وہ مٹی ہی میں سوئے ہوئے رہ جاتے ہیں۔ وہ ہمیں سمجھاتا ہے کہ حاکم اور سپہ سالار بعد از مرگ بھی مقامی نہیں ہو سکتے، البتہ صوفی اور سپاہی مقامی بن کر رہ جاتے ہیں۔
ضیاءُالحق کے مارشل لا کے دور میں اس نے ایک شعر لکھا:
”ساکوں اج تئیں یاد ہے رفعت، اس گدڑ دا قصہ
کنیں مینگڑیاں پا کے وی جو راجہ بنڑیا رہندے ”
اور پھر لوگوں نے اس گیدڑ راجہ کو پہچان لیا۔ کسی وضاحت کے سوا رفعت عباس اپنی مزاحمت میں بالکل نیا لہجہ لے کر آیا۔ اس کی شاعری میں نعرہ بازی یا روایتی مزاحمت نہیں ہے، بلکہ اس کی مزاحمت عام لوگوں کے ذہن میں موجود مزاحمت ہے اور اس سے پہلے کسی نے بھی مزاحمت کا اس طرح اظہار نہیں کیا ہے، جس طرح وہ اظہار کرتا ہے۔ مارشل لا کے رد میں وہ کہتا ہے کہ اگر تم چوکوں پر کھڑے رہو گے تو ہم آزادی کے ساتھ رقص نہیں کر سکیں گے، لہٰذا تم لوگ بیرکوں میں واپس جاؤ تا کہ ہم آسانی سے رقص کر سکیں۔
ہاکڑو ہمارا مشترکہ دریا ہے، جو کہ کھو گیا ہے، پیاسا مر گیا ہے، سوکھ گیا ہے۔ مُہرانو اور روہی کے لوگ اس دریا کو عقیدت سے یاد کرتے ہیں، لیکن رفعت عباس کی شاعری میں آج بھی روہی کے ہرن چاندنی رات میں ہاکڑو دریا کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں اور یہ ان کا روز کا معمول ہے، مطلب یہ کہ نہ صرف آدمی، بلکہ جانور بھی اپنے گم شدہ دریا کی تلاش اپنی نسلوں کی طرف منتقل کرتے ہیں۔
”اوہو جیہڑا گھاگھرا، ساڈا سُک گیا ہئی رفعت
اج وی ہرن نکلدن راتیں اوں کوں گولن کیتے ”
ہم ملتان کے چوک پر کھڑے ہیں۔ وہ بتا رہا ہے کہ اس انتہاپسندی کے دؤر میں مقامی آدمی کی زبان، دیومالا، لوک اتہاس، اور ان کا تصوف ہی اس کا آخری اور قطعی سہارا ہے۔ مہا بھارت کی زبان میں مقامیت دشمن کی ناگ پیش قدمی کے مقابلے میں مور پنچھی پیش قدمی ہے۔ مور پنچھی ہی ناگ کا توڑ ہے۔ تاجر و سوداگر کا سرمایہ کچھ اور ہے، مقامی آدمی کا سونا حاملہ گائے کے پیٹ میں چمکتا ہے اور اس کی چاندی حاملہ بھیڑ کے پیٹ میں چمکتی ہے۔
رفعت کے قلم میں اتنی قوت ہے کہ وہ اپنی شاعری کے ذریعے ہمیں وہاں لے جا کر کھڑا کرتا ہے، جہاں حملہ آور نے مقامی لوگوں کو خانہ بدوش بنایا تھا اور ان کے ناموں کے ساتھ ”داس“ اور ”راکشس“ کا لاحقہ اور ”غلام“ لفظ کا سابقہ لگایا تھا۔ وہ اشیاء، مظاہر اور مناظر کو اتنا واضح و عیاں کر دیتا ہے کہ آدمی اس لمحے میں جا کر کھڑا ہوجاتا ہے جہاں حملہ آور فطرت سے ہم آہنگ زندگی بسر کرنے والے لوگوں پر گھوڑوں اور ہتھیاروں سے آں کڑکے تھے، ان کی ماں بھومیوں پر قابض ہوکر بیٹھ گئے تھے، ان پر اپنا قانون و ضابطہ مسلط کیا تھا۔
مقامی لوگ، کُٹیا باسی، آدی باسی، شکاری، راوڑے، سامی اور ”بڑھے“ بن گئے تھے۔ ان مقامی لوگوں میں سے ہم جیسے لوگ نئے ضوابط و قوانین کو قبول کر کے حکمرانوں سے، ہمارے آباء و اجداد کے قاتلوں سے، این آر او کر کے یکجا ہو گئے، لیکن وہ لوگ ہنوز دربدر اور خانہ بدوش رہے، جن کا ذہن خارجی حکمرانوں کی اجارہ داری کوقبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ شاید ان کے ذہنوں میں وہ گھڑی کسی زخم کی مانند رس رہی ہے، جس گھڑی ان کو ان کی ہی دھرتی پر خانہ بدوش بنایا گیا تھا۔
رفعت عباس ان لوگوں کو ”انڈی جینئس“ کہتا ہے، ان کی دربدری کو المیہ سمجھتا ہے اور ان کی خانہ بدوشی کو ان کی مزاحمت مانتا ہے کہ صدیاں بیت جانے کے بعد بھی انھوں نے اپنے آباء و اجداد پر ڈھائے گئے ظلم اور حق تلفی کو بھلایا نہیں ہے، انھوں نے اپنے آباء و اجداد کے قاتلوں کے ساتھ کوئی این آر او نہیں کیا، نامور سندھی شاعر حسن درس نے بھی لکھا تھا:
طاقتوں اور تلواروں کو وقت نے بہت گھما کر دیکھا
لیکن وہ جس جگہ کھڑی تھی، وہیں کھڑی رہی
ہمارے کئی دوست اس پر فخر کرتے ہیں اور اس کو خوش نصیبی سمجھتے ہیں کہ رگ وید سندھو دریا کے کنارے پر لکھے گئے، پر رفعت عباس نے رگ وید کے جواب میں ”سنگت وید“ لکھا۔ وہ کہتا ہے کہ رگ وید میں مقامی آدمی کو کمتر اور ادنیٰ پیش کیا گیا ہے۔ انھیں ”راکشس“، ”داس“ اور ”ماس خور“ لکھا گیا ہے۔ ایسی ہی ایک بات مہا کوی شیخ ایاز نے بھی اپنی سوانح عمری میں کہی ہے کہ: ”کتاب ہندوستاں کی روح (Soul of India) میں پڑھا تھا کہ آریہ وحشی تھے اور سندھ کے اصل باشندے، جن کو غیر آریہ کہا گیا ہے، وہ مہذب تھے۔
رگ وید ہومر کی اوڈیسی اور الیڈ (Iliad) جیسی ہے۔ وہ سندھ دھرتی کے باشندوں اور بیرونی حملہ آوروں کے مابین جنگ کی، آریہ قوم کے نقطہ نظر سے، ایک رنگا رنگ اور بیش قیمت داستان ہے۔ میں آج بھی سندھو دریا کے کنارے پر رگ وید لکھے جانے پر فخر کرنے والوں کے لئے دعاگو ہوں کہ کاش انھیں یہ بات سمجھ میں آ جائے۔ ”
آج بھی اگر کوئی شاعر یا ناول نگار کسی کو ”دیو“ یا ”راکشس“ والی گالی دیتا ہے تو یہ سمجھا جائے کہ وہ حملہ آور کا ساتھی ہے، وہ قاتل کی زبان کا استعمال کرتا ہے اور مقتول کے گیت سے بیگانہ ہے۔ رفعت عباس نے فکشن ہاؤس لاہور کی طرف سے شایع کردہ انٹرویو پر مبنی اپنی کتاب میں ایسی اچھوتی اور نئی باتیں کی ہیں، اس سے پہلے کسی کو بھی جراَت نہ ہوئی کہ ایسی باتیں کر سکے۔ وہ باتیں، عموماً ناقابل قبول ہونے کے باوجود، ایسی صادق ہیں جیسی اس کی شاعری۔ اس کی شاعری میں وہ طاقت ہے جو بالکل ہی دشوار اور پیچیدہ چیزوں اور مزاحمتوں کو بھی قابل قبول اور سہل بنا دیتی ہے۔ اس کی شاعری جدائی کے درد سے ہم مقدار محبوب کی مسکان کے موافق عام فہم بھی ہے۔
ہمارے ہاں ایوارڈ ایک اعزاز ہے، چاہے دینے والا کوئی بھی ہو، لیکن رفعت نے پیلاک کا ایوارڈ لینے سے انکار کر دیا اور اس کا انکار تمام سرائیکی وسیب کا انکار بن گیا۔ گزشتہ طویل عرصے سے، پیلاک دانستاً سرائیکی وسیب کے شاعروں اور ادیبوں کو خطیر رقم کے ساتھ ایوارڈوں سے نوازتا آ رہا ہے۔ لیکن رفعت کے انکار نے اس ایوارڈ اور کثیر رقم دونوں کو بے وقعت بنا دیا۔ اس کے انٹرویو پر مبنی کتاب ”مقامی آدمی کا موقف“ واقعی میں مقامی آدمی کا ایک باکمال اور عجوباتی موقف ہے۔ گزشتہ سال کی ”بیسٹ سیلر“ قرار پانے والی اس کتاب کے مطالعے سے ہم مقامی لوگوں کے نئے موقف سے واقف ہوتے ہیں :
ساڈے اپنے ویڑھوں، عشق ٹُرے
اج ہیر ہووے، ساڈی دھی دا ناں۔
یہ وہ پہلا شعر تھا جس کو پڑھ میں انگشت بدنداں تھا کہ وحشی پن اور قبائلیت پر متکبر ہمارے اس معاشرے میں اپنی بیٹی کو محبت کا حق دینے کی بات، اس طرح کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ ان سطور کی بنیاد پر رفعت کے ساتھ تعلق کی ایک گرہ سی بندھ گئی اور اس کی غیرمعمولی اور بالکل ہی نئی شاعری کے مطالعے کی شوق میں، میں نے سرائیکی زبان کو سیکھنا اور سمجھنا شروع کیا اور اس طرح میں اس حیرت انگیز و ہوشربا شاعری کے اچھوتے جہان کی سیر کر پایا۔
رفعت اپنی شاعری میں درختوں، پرندوں، دریاؤں اور جانوروں سے مخاطب ہوتا ہے یا ان کا زبانی اظہار کرتا ہے۔ اس کی باتوں میں معصوم سوالات موجود ہیں کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ سوہنی ایک کمہار کی بیٹی ہے اور گھڑا ہاتھ میں لیتے وقت اس کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ پکا ہے کہ کچا؟ سسی کی نیند سے لے کر ہیر کے قتل تک اس کے پاس جو سوالات ہیں وہ صوفیوں کے وجود کو سوالیہ نشان بنا دیتے ہیں۔ ملتان جو کہ ہمیشہ تیروں اور تلواروں سے زخمی اور گھوڑوں کے قدموں تلے روندتا چلا آ رہا ہے، رفعت اس کے سبھی زخموں اور حملوں کا حساب رکھنے والا داستان گو شاعر ہے۔
دربدری کے ان داستانوں میں اس کے پاس جو سب سے عظیم دکھ ہے، وہ یہ ہے کہ ان جنگوں کے باعث ہمارے آباء و اجداد کے عشق ادھورے رہ گئے، لہٰذا ہمارا کام بڑھ گیا ہے۔ ہمیں وہ ادھورے عشق پورے کرنے ہیں۔ فرسودہ اور پامال راہوں پر سفر کرنے والی شاعری کے جھنگل میں سے اس کی شاعری ایک بالکل ہی نئی نرالی شاہراہ کی طرح نکلتی ہے، جس پر رفعت کے ہی قدم نقش ہیں اور اس کی شاعری کے اس انوکھے راستے میں ایک آواز، ایک پکار بھی ساتھ ساتھ سفر کرتی ہے، جو ہوبہو دل کی پکار کی صورت ہے۔
کیویں ساکوں یاد نہ رہسیں، اوندے گھر دا رستہ
ڈوں تاں سارے جنگل آسن، ٹرے تاں سارے دریا
(سندھی سے ترجمہ: علی آکاش)
اے وی پڑھو
سیت پور کا دیوان اور کرکشیترا کا آشرم||ڈاکٹر سید عظیم شاہ بخاری
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ