اسلام آباد: وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے کہاہے کہ بچوں کو قومی زبان کیساتھ ساتھ مادری زبان میں بھی تعلیم دی جائے گی ۔ نئے نصاب کو اپریل 2020 سے لاگو کرنے کی تجویز ہے۔
انہوں نے یہ بات آج وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں قومی نصاب کونسل کی پہلی باضابطہ میٹنگ کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو میں بتائی ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ چاہتے ہیں ملک میں یکساں تعلیمی نظام ہو،موجودہ نظام میں ناانصافی ہے، مخصوص طبقے کیلئے بھرپور مواقع ہیں،ہمیں ایک قوم اور ایک نظام تعلیم کی جانب بڑھنا ہے۔
شفقت محمود نے کہا کہ آج کےاجلاس میں تنظیم المدارس، نجی سکولز ، تعلیمی ماہرین بھی میٹنگ میں موجود تھے ،امید ہے اگلی میٹنگ میں سندھ کے وزیر تعلیم بھی آئیں گے کیونکہ تعلیم سیاست سے بالاتر ہے ۔
انہوں نے کہا کہ تمام اسٹیک ہولڈرز متفق ہیں کہ ایک قوم بننے کیلئے یکساں نصاب ضروری ہے،نئے نصاب کے خدوخال دسمبر میں بن جائیں گے جس کے بعد اس پر مشاورت ہوگی اور 2020سے نئے نصاب کو لاگو کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
وفاقی وزیر تعلیم نے بتایا کہ اسلامیات کے مضمون کیلئےخصوصی کمیٹی تشکیل دی جا رہی ہے،کمیٹی میں مدارس سمیت دیگر شعبہ جات کے نمائندے ہونگے ،کمیٹی تعین کرے گی کونسی جماعت سے اسلامیات کے کونسے اسباق پڑھائے جائیں گے ۔
ایک سوال کے جواب میں کہا بچوں کو قومی زبان کیساتھ ساتھ مادری زبان میں بھی تعلیم دی جائے گی ،اس منزل کی جانب بڑھنا ہے جہاں تمام بچوں کیلئے یکساں سرٹیفکیٹ ہو ،نصاب کے حوالے سے بعض اختیارات صوبوں کو منتقل کرنے کی تجویز بھی زیر غور ہے۔ کوشش ہے ہر کام صوبوں کیساتھ اتفاق رائے سے کریں تاکہ آئندہ حکومتیں بھی کام جاری رکھیں۔
شفقت محمود نے کہا نصاب سے ایسے الفاظ بھی نکالیں گے جو اقلیتی برادری کو ناگوار گزرتے ہیں ۔ خواہش تھی سندھ کے وزیر تعلیم بھی میٹنگ میں آئیں ،سیاست اپنی جگہ لیکن وزارت کی سطح پر سندھ کے وزیر کو شرکت کرنی چاہیے ۔
وفاقی وزیر تعلیم نے کہا کہ مدارس میں جہاں تک ممکن ہوا حکومت اساتذہ کی کمی پورا کرے گی ،مدارس میں اساتذہ کی کمی پوری کرنا بجٹ سے مشروط ہوگی ۔
شفقت محمود نے یہ دعوی بھی کیا کہ مدارس سے آٹھویں نویں اور میٹرک کے امتحانات سے متعلق مذاکرات کامیاب ہوگئے ہیں۔ پہلے آٹھ سال کے نصاب میں ملک بھر میں بہت یکسانیت ہوگی ۔ آٹھویں کے امتحان کے بعد سائنس، آرٹس اور مذہبی تعلیم کے آپشنز ہونگے۔
انہوں نے کہا کہ نجی سکولز کی فیسوں کو معاملہ الگ ہے ، سپریم کورٹ کے فیصلے کی تشریح کی ضرورت ہے ،پہلے فیصلے میں عدالت نے 20 فیصد کم کی دوسرے فیصلے میں اس کا ذکر ہی نہیں ہے۔ عدالتی حکم کی جس سکول نے خلاف ورزی کی اس کیخلاف کارروائی ہوگی۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
قومی اسمبلی دا تاریخی سیشن ،،26ویں آئینی ترمیم منظور