نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

80کی دہائی میں جہادیوں کو ہیرو کے طور پر پیش کیا جاتارہا، عمران خان

انہوں نے کہا کہ  امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کا افغان امن معاہدے سے پیچھے ہٹنا تکلیف دہ ہے، ان سے ملاقات میں مذاکرات بحال کرنے کا کہیں گے۔

نیویارک: وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان نے اسی کی دہائی میں روس کے خلاف جہادی جتھے تیار کئے اور جہادیوں کو ہیرو کے طور پر متعارف کرایا ، اس کا نقصان ہمیں آج تک اٹھانا پڑ رہاہے۔

امریکی تھینک ٹینک کو دیے گئے انٹرویو میں عمران خان کا کہنا تھا کہ افغانستان کے لوگ جنگ سے تنگ آچکے اور اب وہ امن چاہتے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا  کہ افغان  طالبان 2001 جیسے نہیں رہے، اب جنگجووں کو اندازہ ہوگیا ہے کہ وہ پورا افغانستان کنٹرول نہیں کر سکتے اور مذاکرات چاہتے ہیں۔

وزیراعظم پاکستان  نے کہا کہ’ جنگ افغان مسئلے کا حل نہیں ہے، 18 سال بعد بھی طالبان مضبوط ہیں اور مزید 20 سال بھی لڑ سکتے ہیں لیکن سب سے زیادہ نقصان عام شہریوں کا ہو رہا ہے’۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ’ اگر اشرف غنی مجھے طالبان سے مل لینے دیتے تو شائد میں ان کو افغان حکومت سے مذاکرات کے لیے تیار کر لیتا’۔

ایک سوال کے جواب میں  ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے 1980 میں امریکہ کی مدد اور روس کیخلاف جہاد کی خاطر دنیا بھر سے آنے والے مسلمانوں کو ٹریننگ دی گئی۔ روس نے جب امریکہ چھوڑا تو امریکہ نے ہمیں تنہا چھوڑ دیا تھا۔ 2002 میں جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو پاکستان نے پھر ساتھ دیا جس کا نقصان ہوا۔

وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ پاکستان کی 70 ہزار افراد جاں بحق اور معیشت کا نقصان ہے پہلے ہم نے جہادیوں کو بنایا اور پھر ان کو مارنا شروع کردیا جس کی وجہ سے ہمیں آج مشکلات کا سامنا ہے۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ’ میں پہلے دن سے کہہ رہا ہوں کہ افغانستان کا حل جنگ میں نہیں، ہزاروں جانوں کے ضیاع کے بعد بھی افغان مضبوط ہیں’۔پاکستان میں افغان مہاجرین کے کیمپ اور دونوں ممالک کے درمیان کوئی بارڈر نہیں تھا۔

انہوں نے کہا کہ ٹرمپ کا معاہدے سے پیچھے ہٹنا پاکستان کے لیے تکلیف دہ ہے آپ اگر مزید 19 سال بھی لڑ لیں تو جنگ نہیں جیت سکتے۔ آپ کے پاس دو ہی راستے ہیں جنگ یا مذاکرات۔

عمران خان نے کہا کہ طالبان کو اندازہ ہوگیا ہے وہ پورے افغانستان پر حکومت نہیں چلا سکتے۔ وہاں روزانہ بم دھماکوں میں شہری مری رہے ہیں اور اب وہ مر رہے ہیں۔

اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی کے سوال پر عمران خان نے کہا کہ’ پاکستان نےایبٹ آباد کمیشن بنایا تھا لیکن اس کے نتائج کا مجھے علم نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ  امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کا افغان امن معاہدے سے پیچھے ہٹنا تکلیف دہ ہے، امریکی صدر سے  ملاقات میں مذاکرات بحال کرنے کا کہیں گے۔

اس سوال پر کہ پاکستان کو بار بار آئی ایم ایف کے پاس کیوں جانا پڑتا ہے؟  کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ جب حکومت خسارے پر قابو پانے کی کوشش نہیں کرتی تو اسے قرض لینا پڑتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں بہت بڑے خسارے کا سامنا ہے جس کی وجہ سے قرض لینا پڑتا ہے۔

پاک چین تعلقات کے متعلق سوال پر انہوں نے کہا عمران خان کا کہنا تھا کہ چین نے ہماری حکومت ڈیفالٹ سے بچانے میں مدد کی اور ہمیں یہاں تک پہنچنے میں مدد کی۔

کیا آپ بحیثیت وزیراعظم فیصلے کرنے میں آزاد ہیں؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہماری ہر پالیسی کو فوج کی سپورٹ حاصل ہے، ہم نے ہمسایوں کے ساتھ پر امن رہنے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔

پاک بھارت تعلقات پر بات کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ’ میں نے حکومت سنبھالتے ہی مودی کو مل کر کام کرنے اور باہمی اعتماد کی بنیاد پر کام کرنے کی دعوت دی تھی۔

عمران خان نے کہا کہ بھارت نے مذاکرات سے منہ موڑا، پھر پلوامہ میں حملہ ہوا اور بھارت نے الزام پاکستان پر دھر دیا ۔

ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی کھیل کی طرح کرکٹ بھی آپ کو جدوجہد سکھاتی ہے، کرکٹ کی وجہ سے ہی میں 22 سال سیاست میں کوشش کر کے یہاں تک پہنچا۔

یہ بھی پڑھیے: وزیر اعظم عمران خان کی زلمے خلیل زاد سے ملاقات

About The Author