نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ناروے کی انوکھی جیل

دنیا کی انوکھی جیل جس کے قیدی واپس جانے سے انکار کردیتے ہیں‎

کسی شخص کو جیل بھیجنے کا مقصد بدلہ لینا ہوتا ہے یا اس کی بحالی؟ 20 سال قبل ناروے نے سزا کے لیے 'لاک اپ' کرنے کی حکمتِ عملی کو ترک کر دیا اور وہاں دوبارہ جرم کرنے کی شرح میں زبردست کمی دیکھنے میں آئی۔

کسی شخص کو جیل بھیجنے کا مقصد بدلہ لینا ہوتا ہے یا اس کی بحالی؟ 20 سال قبل ناروے نے سزا کے لیے ‘لاک اپ’ کرنے کی حکمتِ عملی کو ترک کر دیا اور وہاں دوبارہ جرم کرنے کی شرح میں زبردست کمی دیکھنے میں آئی۔

بی بی سی کی ایما جین کربی اس سسٹم کو کام کرتے ہوئے دیکھنے اور ان جیل حکام سے ملنے کے لیے گئیں جنھیں قیدیوں کے لیے تربیت کار اور رول ماڈل کے طور پر تربیت دی گئی ہے۔

ایک پرجوش انسٹرکٹر کچھ 20 کے قریب افراد کو یوگا سکھا رہی ہیں۔ یہ سب لوگ صبح کی مدھم دھوپ میں گھاس پر بچھے ہوئے ربڑ کے میٹس پر بچوں کے انداز میں بیٹھے ہیں۔

وہ ٹیٹوز سے بھرے ہوئے ایک شخص کی قمیض درست کرتی ہیں اور اس کی پیٹھ سہلاتے ہوئے ان سے پوچھتی ہیں کہ انھیں یوگا سے سٹریچ یا کھینچاؤ محسوس ہو رہا ہے یا نہیں۔

یہ دنیا کے کسی بھی ہیلتھ سینٹر میں ایک معمول کی یوگا کلاس ہوسکتی ہے مگر ناروے کی سخت ترین سکیورٹی والے ہالڈن جیل میں شرکا یوگا اور سپا کے عام صارفین سے کافی مختلف ہیں۔ قاتل، جنسی زیادتی کے مجرم اور منشیات کے سمگلر ننگے پیر اپنے جیل افسران کے ہمراہ یوگا میں حصہ لیتے ہیں اور اپنی انسٹرکٹر کی ہدایات پوری توجہ سے سنتے ہیں۔

جب ہم پاس کھڑے ہو کر یہ سرگرمی دیکھ رہے تھے تو جیل کے گورنر آر ہوئیڈال نے کہا کہ ‘یہ انھیں پرسکون کرتا ہے۔ ہم اس جگہ غصہ اور تشدد نہیں چاہتے۔ ہم پرسکون اور پرامن قیدی چاہتے ہیں۔’

یہ پوری جگہ کسی جیل کے بجائے ایک یونیورسٹی کا خوبصورت کیمپس لگتی ہے

 طرح طرح کے درختوں سے گھری ہوئی دو منزلہ رہائشی عمارت اور لکڑی کے گھروں جیسی عمارتوں سے یہ پوری جگہ کسی جیل کے بجائے ایک یونیورسٹی کا خوبصورت کیمپس لگتی ہے۔

مگر اس سکون کی بھی ایک قیمت ہے۔ ہالڈن جیل میں ایک شخص کو قید رکھنے کا سالانہ خرچ 98 ہزار پاؤنڈ ہے جبکہ انگلینڈ اور ویلز میں قیمت تقریباً 40 ہزار پاؤنڈ یا اے کیٹیگری کے قیدیوں کے لیے 59 ہزار پاؤنڈ ہے۔

نقرئی رنگ کے ایک چھوٹی سے سکوٹر پر سوار ایک باوردی پولیس اہلکار ہمارے قریب سے گزرتے ہوئے ہمیں ہیلو کہتے ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ دو قیدی ذمہ دارانہ انداز میں اسی رفتار سے ان کے ساتھ تیز چل رہے ہیں۔

میرے حیرت زدہ چہرے کو دیکھ کر ہوئیڈال ہنس پڑتے ہیں۔

وہ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘اسے ڈائنامک سکیورٹی کہا جاتا ہے۔ گارڈ اور قیدی ہر کام ساتھ ساتھ کرتے ہیں۔ وہ ساتھ کھانا کھاتے ہیں، ساتھ والی بال کھیلتے ہیں، تفریحی سرگرمیوں میں ساتھ حصہ لیتے ہیں اور یوں ہمیں قیدیوں کے ساتھ میل جول رکھنے، ان سے بات کرنے اور انھیں ہمت دلانے میں مدد ملتی ہے۔’

جب آر ہوئیڈال نے نارویجین کریکشنل سروس میں اپنا کریئر 1980 کی دہائی کے اوائل میں شروع کیا تھا تو جیلوں کا نظام مکمل طور پر مختلف تھا۔

وہ یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ‘وہ بہت مشکل تھا۔ جیل کے اس کلچر پر مردانہ ہیبت حاوی تھی جس کی توجہ سکیورٹی اور پہرے پر تھی۔ اس کے علاوہ مجرمان کے دوبارہ جرم کرنے کے شرح تقریباً 60 سے 70 فیصد تھی جتنی کہ امریکہ میں ہے۔’

مگر 1990 کی دہائی کے اوائل میں نارویجیئن کریکشنل سروس کی اخلاقیات میں سخت اصلاحات کا ایک مرحلہ شروع کیا گیا۔ اس کا مقصد بقول ہوئیڈال ‘بدلے’ کے بجائے ‘بحالی’ پر توجہ دینا تھا۔

وہ قیدی جو پہلے اپنے دن کا زیادہ تر حصہ قید خانے میں بند رہ کر گزارتے تھے، اب ان کے لیے روزانہ کی بنیادوں پر تعلیمی و تربیتی پروگرام شروع کیے گئے ہیں جبکہ جیل کے محافظین کے کردار کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا گیا۔

جب میں گارڈ کا لفظ استعمال کرتی ہوں تو ہوئیڈال شائستگی سے ڈانٹتے ہوئے کہتے ہیں ‘گارڈ نہیں، ہم جیل افسران ہیں’ اور ظاہر ہے کہ ہم یقینی بناتے ہیں کہ قیدی اپنی سزا پوری کریں لیکن ہم ان قیدیوں کو ایک بہتر انسان بننے میں بھی مدد دیتے ہیں۔

’ہم رول ماڈل، کوچ اور تربیت کار ہیں۔ اور ہماری وسیع تر اصلاحات کے بعد ناروے میں صرف دو سال کے بعد دوبارہ جرم کرنے کی شرح میں 20 فیصد جبکہ پانچ سال بعد 25 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی، اس لیے یہ سسٹم کام کرتا ہے۔‘

دوسری جانب برطانیہ میں دوبارہ جرم کرنے کی شرح صرف ایک سال کے بعد تقریباً 50 فیصد ہے۔

ہالڈن جیل کا طرزِ تعمیر ایسے رکھا گیا ہے کہ یہاں رہنے والوں کو قید کا احساس اور نفسیاتی تناؤ کم سے کم ہو جبکہ وہ آس پاس کے قدرتی ماحول سے ہم آہنگ رہ سکیں۔ درحقیقت 13 کروڑ 80 لاکھ پاؤنڈ کی رقم سے تیار ہونے والا یہ جیل اپنے سادگی مائل ڈیزائن کی وجہ سے کئی ایوارڈ جیت چکا ہے۔

طرح طرح کے درختوں سے گھری ہوئی دو منزلہ رہائشی عمارت اور لکڑی کے گھروں جیسی عمارتوں سے یہ پوری جگہ کسی جیل کے بجائے ایک یونیورسٹی کا خوبصورت کیمپس لگتی ہے۔

ایک بل دار، موٹی اور 24 فٹ اونچی دیوار اس جیل کا احاطہ کرتی ہے مگر اس پر کوئی خاردار تاریں یا بجلی کی باڑ نہیں نظر آتی اور پوشیدہ سیکیورٹی کیمرے تو آپ کو ڈھونڈنے پڑتے ہیں۔ ہوئیڈال بتاتے ہیں کہ دیوار کی دونوں جانب حرکت کا پتہ لگانے والے سینسر نصب ہیں مگر کبھی کسی نے فرار ہونے کی کوشش نہیں کی۔

یہاں ہر قیدی کا اپنا سیل ہے جس میں ٹوائلٹ، شاور، فرج، ڈیسک، فلیٹ ٹی وی اور جنگل کے نظارے ہیں جبکہ کامن روم میں دبیز صوفے اور ساز و سامان سے لدا ہوا ایک کچن ہے۔ جب میں نے یہ دونوں چیزیں دیکھیں تو ہالڈن کے گورنر سے پوچھا کہ کیا یہ بہت زیادہ سہل پسند ماحول نہیں؟

ہالڈن جیل میں قیدیوں کا ایک سیل

آر ہوئیڈال اثبات میں سر ہلاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ اس سوال کی توقع کر رہے تھے۔ یہ وہ سوال ہے جو ان سے حیرت زدہ غیر ملکی صحافی اور ناروے کے اندر موجود نقاد روزانہ ہی پوچھتے ہیں۔

ان کا اصرار ہے کہ ‘آزادی چھن جانا کوئی آسان بات نہیں ہے۔’

وہ کہتے ہیں کہ: ‘ناروے میں سزا صرف آزادی چھن جانا ہے، دیگر حقوق باقی رہتے ہیں۔ قیدی ووٹ ڈال سکتے ہیں، سکول اور صحت تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں، ان کے کسی بھی نارویجیئن شہری جیسے حقوق ہوتے ہیں۔ کیوں کہ قیدی انسان ہوتے ہیں۔ انھوں نے غلط کام کیا ہے اور انھیں سزا ملنی چاہیے، مگر وہ پھر بھی انسان ہی ہوتے ہیں۔’

سائٹ پر موجود ایک گیراج میں دو قیدی ایک گاڑی کے مڈ گارڈ اندر سے صاف کر رہے ہیں۔ یہاں موجود زیادہ تر قیدیوں کی طرح یہ لوگ بھی ہر صبح ساڑھے 7 بجے اپنے سیل سے نکلتے ہیں اور سوا 8 بجے تک کام پر پہنچ جاتے ہیں۔ دوپہر میں گارڈز کے بریک کے ساتھ اپنے سیل میں ایک گھنٹے کی بریک کے علاوہ انھیں رات ساڑھے 8 بجے تک دوبارہ لاک نہیں کیا جاتا۔

اس کے پیچھے تصور یہ ہے کہ قیدیوں کو نارمل ہونے کا احساس دلایا جائے اور انھیں یہاں سے نکلنے کے بعد ایک نئی زندگی کی تیاری میں مدد دی جائے۔ کئی قیدی ہالڈن سے مکمل طور پر تربیت یافتہ مکینک، کارپینٹر اور شیف بن کر نکلیں گے۔

جب ہم لکڑی کی ورکشاپ سے گزر رہے تھے جہاں کئی قیدی جنوبی ناروے میں زیرِ تعمیر ایک نئی جیل کے لیے لکڑی کے کمرے اور بینچ بنا رہے تھے، تو ہوئیڈال نے ہمیں بتایا کہ ‘ہم ان کی آمد کے دن سے ان کی رہائی کی منصوبہ بندی شروع کر دیتے ہیں۔’

وہ مجھے یاد دلاتے ہیں کہ ‘ناروے میں تاحیات قید نہیں ہے اس لیے یہ تمام قیدی ایک نہ ایک دن آزاد ہو جائیں گے۔’

وہ کہتے ہیں کہ ‘ہم آپ کے پڑوسی کو آزاد کر رہے ہیں۔ اگر ہم جیل میں قیدیوں کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کریں گے تو آپ کی گلی میں بھی جانور ہی چھوڑیں گے۔’

ناروے میں زیادہ سے زیادہ 21 سال کی قید ہو سکتی ہے پر اگر کسی مجرم کو معاشرے کے لیے مسلسل خطرہ تصور کیا جائے تو قانون حفاظتی تحویل کے طور پر اس کی سزا میں پانچ پانچ سال اضافے کی اجازت دیتا ہے۔

گرافک ڈیزائن سٹوڈیو میں دھیمے انداز میں گفتگو کرنے والے فریڈرک جیل کی کُک بُک کے سرورق کے لیے اپنے حیران کن ڈیزائن کو حتمی شکل دے رہے ہیں۔ قتل کے جرم میں 15 سال کی سزا پانے والے فریڈرک کہتے ہیں کہ وہ اپنے جرم اور اس سے پہنچنے والی تکلیف کو اب قبول کر چکے ہیں۔ جیل کے اندر تین ہفتے خاموشی سے الگ تھلگ گزارنے نے انھیں سکون حاصل کرنے اور اپنے ماضی پر غور کرنے میں مدد دی ہے۔

جب وہ مجھے بتاتے ہیں کہ انھوں نے ہالڈن میں آنے سے لے کر اب تک گرافک ڈیزائن میں ڈپلومہ حاصل کر لیا ہے، یا جب وہ بتاتے ہیں کہ انھوں نے آٹھ دیگر امتحانات اے اور بی گریڈز میں پاس کیے ہیں اور یہ کہ وہ اب اے لیول کی میتھ اور فزکس کا نارویجیئن متبادل پڑھ رہے ہیں تو ان کا لہجہ ایسا نہیں تھا کہ وہ شیخی بگھار رہے ہیں۔ وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ میں یہ سمجھ جاؤں کہ وہ قید کے اندر اپنا وقت دانائی سے استعمال کر رہے ہیں تاکہ اونچی دیواروں سے باہر نکل کر اپنے لیے ایک اچھا مستقبل بنا سکیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘جب آپ کے پاس مواقع نہ ہوں اور آپ صرف ایک پنجرے میں بند ہوں تو آپ ایک اچھے شہری نہیں بنتے۔’ پھر وہ اپنی سکرین پر ایک فوٹو کے رنگ درست کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘یہاں آپ کے پاس اچھے مواقع موجود ہیں، آپ ڈپلومہ حاصل کر سکتے ہیں اور جب آپ باہر نکلیں تو آپ شاید ایک مستحکم ملازمت حاصل کر سکتے ہیں اور یہ اہم ہے۔’

جب میں نے فریڈرک کو ان کے حالیہ امتحان میں کامیابی پر مبارکباد دی تو انھوں نے شرمیلے انداز میں سر ہلا کر مجھے چپکے سے بتایا کہ انھیں امید ہے کہ ایک مرتبہ جب ان کا کم سیکیورٹی والی جیل میں تبادلہ ہو جائے گا تو وہ ماسٹرز یا پی ایچ ڈی تک حاصل کر سکیں گے۔

یوں تو ہالڈن میں کھڑکیوں پر سلاخیں نہیں ہیں مگر یہ کہا جا سکتا ہے کہ سلاخوں کے پیچھے زندگی کو نارمل بنانا نارویجیئن کریکشنل سروس کے بنیادی فلسفوں میں سے ہے۔ ہالڈن میں اس کا مطلب صرف روز مرّہ کا روٹین نہیں بلکہ خاندانوں سے باقاعدہ رابطہ بھی شامل ہے۔

ہر تین ماہ میں ایک مرتبہ وہ قیدی جن کے بچے ہوں وہ ‘ڈیڈی اِن پرِزن’ نامی سکیم سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں جس کے تحت چند حفاظتی ٹیسٹ پاس کر کے وہ شریک حیات اور بچوں کے ساتھ جیل کے میدان میں ہی قائم لکڑی کے ایک آرامدہ گھر میں دو راتیں گزار سکتے ہیں۔

جیل کی افسر لِن اینڈریسن اس گھر کا دروازہ کھول کر چھوٹا سا کھیل کا میدان دکھاتے ہوئے کہتی ہیں: ‘دیکھیں، بہت سارے کھلونے اور بچوں کی کتابیں۔’ مرکزی بیڈ روم میں ڈبل بیڈ اور اس کے ساتھ بچوں کا جھولا بھی رکھا گیا ہے۔

وہ مسکراتے ہوئے کہتی ہیں کہ ‘قیدیوں کو ‘گھر گھر’ کھیلنے کا موقع ملتا ہے اور چوں کہ یہ بہت بڑی رعایت ہے اس لیے انھیں اپنے آپ کو اس کا اہل ثابت کرنا پڑتا ہے۔’

لِن 30 سال سے کچھ اوپر کی ہیں۔ وہ 11 سال سے محکمۂ جیل کے ساتھ ہیں جن میں سے 10 سال انھوں نے ہالڈن میں گزارے ہیں۔ اس کیٹیگری اے کے جیل میں تقریباً نصف سٹاف خواتین پر مشتمل ہے۔ مگر لِن مجھے یقین دلاتی ہیں کہ انھوں نے وہ ذاتی الارم اپنے کریئر میں صرف دو مرتبہ بجایا ہے جو کہ تمام جیل افسران اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔ ان کا اصرار ہے کہ انھیں کبھی بھی جنسی طور پر خطرہ محسوس نہیں ہوا ہے۔

وہ کندھے اچکاتے ہوئے کہتی ہیں کہ ‘معاشرے میں خواتین کی موجودگی عام ہے اس لیے یہاں موجود مردوں کو اس کی عادت ڈالنی پڑتی ہے۔ انھیں نہ صرف وردی بلکہ وردی پہنے شخص، اور خاتون کی بھی عزت کرنی پڑتی ہے۔ اور ہم ان کی عزت کرتے ہیں اس لیے وہ ہماری عزت کرتے ہیں۔’

دستکاری ورکشاپ میں منشیات سمگلنگ پر طویل سزا پانے والے جون اپنی سلائی مشین پر ایک سیاہ کھلونا بھیڑ سی رہے ہیں۔ جب میں جون سے پوچھتی ہوں کہ ہالڈن کی اچھی باتیں کیا ہیں تو جون جس چیز کی سب سے پہلے نشاندہی کرتے ہیں وہ خواتین افسران کی موجودگی ہے۔

وہ سلائی کے لیے تیار اپنی بھیڑ پر نظر جما کر گہری سوچ کے سے انداز میں کہتے ہیں ‘وہ جارحانہ لوگوں کو قابو میں رکھنے کے لیے زیادہ مؤثر ہیں۔ آپ کو ان کے قریب ہوتے ہوئے مختلف انداز میں سوچنا پڑتا ہے۔’

‘اور جب ہم فٹ بال کھیلتے ہیں تو خواتین بری ریفریز ثابت نہیں ہوتیں۔’

خان نامی ایک اور قیدی ہماری گفتگو توجہ سے سنتے ہوئے وہ مینڈک نیچے رکھ دیتے ہیں جو وہ سی رہے ہیں۔

وہ اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘ہم خوش قسمت ہیں کہ خواتین گارڈز موجود ہیں۔ ان کی وجہ سے چیزیں نارمل ہوجاتی ہیں۔’

برطانیہ میں ایک جیل افسر کی تربیت مکمل ہونے میں 12 ہفتے لگتے ہیں مگر ناروے میں اس کام میں دو سے تین سال لگتے ہیں۔ اوسلو سے آٹھ کلومیٹر شمال مشرق میں واقع للسٹروم شہر میں شیشے سے بنی سفید رنگ کی ایک پرشکوہ عمارت میں یونیورسٹی کالج آف نارویجیئن کریکشنل سروس ہے جہاں ہر سال 1200 درخواست دہندگان میں سے منتخب ہونے والے 175 افراد جیل افسر بننے کے لیے اپنی تربیت کا آغاز کرتے ہیں۔

ہانس جورگن برکر مجھے کیمپس میں قائم تربیتی جیل کا دورہ کرواتے ہیں جس میں اصلی جیل کے جیسے سیل اور فرنیچر موجود ہے۔ میں ایک سٹور روم میں ہیلمٹس اور خنجر پروف جیکٹس دیکھتی ہوں۔ برکر مانتے ہیں کہ جیل افسران ہنگامہ آرائی سے نمٹنے اور سیکیورٹی کی تربیت حاصل کریں گے مگر وہ کورس کے اس حصے کو ضروری نہیں سمجھتے۔

ہانس جورگن برکر

وہ کہتے ہیں کہ ‘ہم مجرموں کو دوبارہ جرم کرنے سے روکنا چاہتے ہیں جس کے لیے افسران کا اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے۔’ وہ مجھے سلیکشن کے سخت مرحلے کی دستاویز دکھاتے ہیں جس کے مطابق نارویجیئن اور انگلش میں ایک تحریری امتحان اور جسمانی فٹنس کا ٹیسٹ پاس کرنا ضروری ہے۔ چوںکہ ایک تہائی قیدی غیر ملکی ہوتے ہیں اس لیے افسران سے روانی سے انگلش بولنے کی توقع کی جاتی ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ‘میرے طلبا قانون، اخلاقیات، علمِ جرائم، معاشرے میں واپسی اور سماجی خدمات کے بارے میں پڑھیں گے۔ اس کے بعد ان کی ایک سال تک جیل میں تربیت ہوگی جس کے بعد وہ اپنا فائنل امتحان دینے کے لیے آئیں گے۔’

جب میں ان سے پوچھتی ہوں کہ کیا وہ صرف تین ماہ کی تربیت حاصل کرنے والے کسی جیل افسر کو اپنے پاس رکھیں گے تو اس سوال پر ان کے چہرے کے تاثرات بدل گئے۔

برطانوی نظام پر تنقید کرنے میں تھوڑی مگر واضح ہچکچاہٹ کے ساتھ وہ کہتے ہیں کہ ‘مجھے لگتا ہے کہ مختصر تربیت سے کرپشن کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

‘ہمارے نظام میں افسران کی تنخواہیں معقول ہیں اور ایک افسر قانون کے بارے میں جتنا زیادہ جانتا ہوگا، وہ اس بارے میں بھی زیادہ جانتا ہوگا کہ قیدیوں سے کیسے پیش آنا ہے اور تشدد سے کیسے بچنا ہے۔’

ہر سال ان کے طلباء برطانیہ جا کر ایک دن کسی برطانوی جیل کا مشاہدہ کرتے ہوئے گزارتے ہیں اور میں ان سے پوچھتی ہوں کہ ان کے طلباء کا برطانیہ کی ہائی سیکیورٹی جیلوں کے بارے میں کیا خیال ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے طلباء شور، ہجوم اور سٹاف کی نسبتاً کم تعداد کو دیکھ کر ہمیشہ حیران ہوتے ہیں۔

وہ شائستگی سے اپنا گلا صاف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘یہ چشم کشا صورتحال ہے۔’

ہالڈن میں جو واحد شور مجھے سنائی دیتا ہے وہ منشیات کے عادی افراد کے یونٹ میں کامن روم سے اٹھ رہا ہوتا ہے جہاں اپنے اردگرد سے بے خبر ایک قیدی چور پولیس کا ٹی وی شو دیکھ رہا ہے۔ ایک موقع پر میری گائیڈ لِن اینڈریسن کسی کام کے سلسلے میں وہاں سے چلی جاتی ہیں اور میں اس قیدی کے ساتھ تنہا رہ جاتی ہوں۔ وہ میری طرف دیکھ کر مسکراتا ہے، سکرین پر بندوقیں تھامے پولیس اہلکاروں کی جانب اشارہ کرتا ہے، نارویجیئین زبان میں ایک لطیفہ کستا ہے اور اپنے سیل کی جانب چلا جاتا ہے۔

جیل کے کامن روم میں قیدیوں کے لیے تفریح کی سہولت بھی موجود ہے۔

جب میں جیل کے گورنر آر ہوئیڈال سے ہالڈن جیل میں تشدد کے واقعات کے بارے میں پوچھتی ہوں تو وہ واقعتاً حیران نظر آتے ہیں۔ میں انھیں بتاتی ہوں کہ انگلینڈ اور ویلز میں پانچ سالوں میں تشدد کے واقعات میں تین گنا اضافہ ہوا ہے اور یہ کہ 2018 میں سٹاف پر 10 ہزار 213 حملے کیے گئے جن میں سے 995 کو سنگین قرار دیا گیا تھا۔

وہ حیرانی کے عالم میں کہتے ہیں: ‘ظاہر ہے کہ ہمارے چند پرانے جیلوں میں کبھی کبھی تشدد ہوتا ہے مگر مجھے واقعی یاد نہیں کہ یہاں آخری مرتبہ تشدد کب ہوا تھا۔ شاید تھوکنے کے ایک یا دو واقعات ہوئے ہوں۔’

جیل کے باغ میں 28 سالہ زیرِ تربیت افسر جون فریڈرک اینڈرسن اپنی تجربہ کار ساتھی لِن کے ساتھ وقفے پر ہیں۔ ہالڈن میں 258 قیدی ہیں (بشمول ان 22 کے جو دیوار کے دوسری جانب ہاف وے ہاؤس میں ہیں) جبکہ 290 سٹاف کے ارکان ہیں جن میں سے 190 جیل افسران ہیں۔ باقی ورکشاپ کے انسٹرکٹر، اساتذہ اور انتظامی ارکان ہیں۔’

اس سے قبل گاڑیوں کے سیلزمین رہ چکے جون فریڈرک تسلیم کرتے ہیں کہ اگر ان کی حفاظت کی گارنٹی نہ ہوتی تو وہ محکمۂ جیل میں کبھی شمولیت اختیار نہ کرتے۔ وہ کہتے ہیں کہ اب تک انھیں ہالڈن میں کبھی خطرہ محسوس نہیں ہوا ہے۔ انھیں اپنی تربیت اور خود سے زیادہ تجربہ کار افسران کی دانائی پر اعتماد ہے۔ نارویجیئن جیل افسران مرچی کے سپرے تک بھی اپنے ساتھ نہیں رکھتے۔

جون فریڈرک اینڈرسن

وہ کہتے ہیں کہ ‘میرا پہلا دفاع میری آواز اور قیدیوں کے ساتھ میرا سماجی تعلق ہے۔ ہم حالات بگڑنے ہی نہیں دیتے۔’

لِن لقمہ دیتی ہیں: ‘اگر آپ خود اچھی حالت میں نہیں ہیں تو آپ دوسروں کی مدد بھی نہیں کر سکیں گے۔ اس ملازمت میں آپ کو ہمیشہ ذہنی طور پر مضبوط رہنا پڑتا ہے۔ آپ کو توجہ برقرار رکھنی پڑتی ہے۔ اگر آپ سہمے رہیں گے تو آپ کسی کی مدد نہیں کر سکیں گے۔’

وہ مجھے بتاتی ہیں کہ ایک مرتبہ ایک برطانوی جیل کا دورہ کرتے ہوئے وہ اس وقت نہایت حیران ہوئیں جب جیل حکام نے انھیں بتایا کہ جیل میں کچھ جگہوں پر کھڑا ہونا خطرناک تھا کیوں کہ قیدی ان پر اوپر سے چیزیں پھینک سکتے تھے۔

‘اور وہاں اتنے زیادہ قیدی تھے! برطانیہ ناروے سے زیادہ لوگوں کو لاک اپ کرتا ہے نا؟’

سکاٹ لینڈ، انگلینڈ اور ویلز میں قید کرنے کی شرح مغربی یورپ میں سب سے زیادہ ہے۔ سکاٹ لینڈ ہر ایک لاکھ میں سے 150 افراد کو قید کرتا ہے جبکہ انگلینڈ اور ویلز میں یہ تعداد 140 افراد ہے۔ اس کے مقابلے میں ناروے میں یہ تعداد صرف 63 ہے۔

جیلوں میں کم آبادی کا مطلب ہے کہ ہالڈن جیل میں ہر تین قیدیوں کے لیے ایک افسر متعین کیا جا سکتا ہے۔ اس افسر کا کام یہ ہوتا ہے کہ قیدیوں کو درخواستیں بھرنے میں مدد دیں، ان کی شکایات دور کرے اور یقینی بنائے کہ قیدیوں کو گھر پر فون کرنے کا کوٹہ ملے۔

قتل کے جرم میں 17 سال کی قید کاٹ رہے کِم سے جب میں اس نظام کے بارے میں پوچھتی ہوں تو وہ نسبتاً طنزیہ انداز میں اپنی بھنویں اچکاتے ہیں۔

کمرے میں ہمارے ساتھ موجود ہوئیڈال کو بغور دیکھتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ‘کچھ قیدیوں کو میل جول رکھنا پسند ہوتا ہے اور کچھ کو نہیں۔ میں گارڈز کے ساتھ زیادہ بات کرنے کے بارے میں شک رکھتا ہوں۔ اگر میں ان سے زیادہ بات کروں گا تو کہیں ایسا تو نہیں ہوگا کہ یہ اسے میرے خلاف استعمال کریں گے؟ یہ دو دھاری تلوار ہے۔ کچھ گارڈز تو ٹھیک ہیں مگر….’ یہ کہہ کر وہ بدستور ہوئیڈال کی جانب دیکھتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں جو کہ ابھی تک انھیں دیکھ کر مسکرا رہے ہیں۔

جب میں اور ہوئیڈال کچھ رنگین پینٹنگز کے پاس سے گزرتے ہوئے ان کے دفتر واپس جا رہے تھے تو انھوں نے مجھے بتایا کہ ہالڈن کی ڈائنامک سیکیورٹی قیدیوں کو ہمیشہ پسند نہیں آتی کیونکہ ہمہ وقت افسران کی موجودگی نشہ آور اشیاء کی تجارت مشکل بنا دیتی ہے۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہالڈن میں یہ کام ہوتا ہے مگر وہ کہتے ہیں کہ یہ جیل کے باہر سے سمگل کی گئی ہیروئن یا سپائس نہیں بلکہ دوائیں (افیمی اجزاء اور درد کش) ہوتی ہیں جو کہ جیل کے ڈاکٹروں نے ہی تجویز کی ہوتی ہیں۔

ایک دیوار پر آویزاں ہمت افزاء پیغام

ہوئیڈال جیل کے نئے منصوبوں کے بارے میں کافی پرجوش ہیں۔ ایک موسیقی کا گروپ حال ہی میں شروع ہوا ہے۔ قیدیوں کے پاس جیل میں ہی اپنا ایک ریکارڈنگ سٹوڈیو ہے جس کا نام بالکل درست طور پر ‘کرمنل ریکارڈز’ رکھا گیا ہے۔ ہوئیڈال کو امید ہے کہ وہ جیل کی نئی کھانوں کی ترکیبوں کی کتاب کی ریلیز اور کرسمس کنسرٹ ساتھ منعقد کروائیں گے۔ مگر اس مسلسل مثبت سرگرمی کے پیچھے ایک پریشان کن فکر بھی ہے۔ بحرِ شمالی میں تیل کی پیداوار سے منافعوں میں کمی واقع ہو رہی ہے اور حکومت نے خبردار کیا ہے کہ جیلوں کے بجٹ میں بھی سخت تر کٹوتی ہونے والی ہے۔

ہوئیڈال مدلل انداز میں کہتے ہیں: ‘اگر آپ کو معیاری اور زبردست نتائج چاہیئں تو ہمیں اس کے لیے پیسے چاہیئں۔ ہمارے پاس جو پروگرام ہیں اگر وہ جاری نہ رہے تو مجھے ڈر ہے کہ کہیں تشدد اور دوبارہ جرم کرنے کا امکان بڑھ نہ جائے۔ یہ اچھا نہیں ہے۔ یہ بالکل بھی اچھا نہیں ہے۔’

یونٹ سی میں ایک سیل کا دروازہ کھلا ہوا ہے اور میں کھڑکی میں ایک گلاس میں ایک سرخ گلاب رکھا ہوا دیکھتی ہوں۔ اس سیل کے قیدی کو ایک اور کم سیکیورٹی والے جیل میں منتقل کر دیا گیا ہے مگر شاید ہالڈن میں اپنے وقت کے دوران سیکھی ہوئی دانائی کو آگے منتقل کرنے کی کوشش میں وہ وائٹ بورڈ پر اس قیدی کے لیے جلدی جلدی میں ایک پیغام چھوڑ گئے ہیں جو ان کے جگہ لے گا۔

‘محبت کرنے کا مطلب بدلے کی توقع کیے بغیر محبت کرنا ہے۔ محبت آپ کو آزاد کرتی ہے، میرے دوست، خود سے خود کو آزاد کر لو۔’

بشکریہ : بی بی سی اُردو

About The Author