نومبر 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

فوٹو: پی ٹی ایم سوشل میڈیا

ایم این اے محسن داوڑ اور علی وزیر رہا

محسن داوڑ اور علی وزیر کو ضمانت ملنے کے دوروز بعد ضابطے کی کارروائی مکمل ہونے پر ہری پور جیرل سے رہا کیا گیاہے۔

شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے اسیر اراکین قومی اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر عدالتی حکم پر ضمانت منظور ہونے کے ہری پور جیل سے رہا کر دیے گئے ہیں۔

محسن داوڑ اور علی وزیر کو ضمانت ملنے کے دوروز بعد ضابطے کی کارروائی مکمل ہونے پر ہری پور جیرل سے رہا کیا گیاہے۔ 

پشاور ہائی کورٹ نے شمالی وزیرستان میں ’سکیورٹی چیک پوسٹ پر مظاہرین اور فوجی اہلکاروں کے درمیان تصادم‘ کے بعد گرفتار ہونے والے پشتون تحفظ موومنٹ کے ممبران قومی اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر کی طرف سے ضمانت کے لیے دائر درخواستیں منظور کرتے ہوئے ان کی رہائی کے احکامات  دور روز قبل جاری کیے تھے۔

پشاور ہائی کورٹ بنوں بینچ کے جسٹس ناصر محمود پر مشتمل ایک رکنی بنچ نے بدھ کو درخواستوں پر دلائل مکمل ہونے کے بعد  دونوں اراکین قومی اسمبلی کو ضمانت پر رہا کرنے کے احکامات جاری کیے۔

دونوں پارلیمنٹ اراکین کے اہل خانہ اور ان کے وکیل نے ان کی رہائی کی تصدیق کی ہے اور سوشل میڈیا پر جیل سے نکلنے کے بعد محسن داوڑ اور علی وزیر کی تصاویر اور ویڈیوز بھی شیئر کی گئی  ہیں۔

تاہم ملزمان کے وکیل طارق افغان ایڈووکیٹ نےبرطانوی نشریاتی ادارے  بی بی سی سے گفتگو میں ضمانت کے لیے جج کی جانب سے دیے جانے والے بیل آڈر کو نامناسب قرار دیا۔ انھوں نے اسے عدالتی تاریخ کا انوکھا بیل آڈر قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ دونوں اراکین اسمبلی کے لیے لازم قرار دیا گیا ہے کہ وہ ہر ہفتے علاقے کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر، ڈی ی او کے دفتر میں حاضری دینی ہو گی اور ایک مہینے کی بعد ضمانت کی نئی درخواست دینی ہو گی۔

انھوں نے سوال اٹھایا کہ یہ حکم سمجھ سے بالاتر ہے اور ہم سوچ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ سے رجوع کریں۔

محسن داوڑ اور علی وزیر کے خلاف شمالی وزیرستان کے علاقے خاڑ قمر میں 25 مئی کو سکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹ پر ہونے والے حملے کے الزام میں مقدمات درج کیے گئے تھے اور بعد میں دونوں ارکانِ قومی اسمبلی کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔

عدالت نے دونوں پی ٹی ایم رہنماؤں سے کہا ہے کہ وہ ملک چھوڑ کر نہیں جا سکتے۔ اس کے ساتھ ہی ٹرائل کورٹ سے کہا گیا ہے کہ مقدمے کو دو ماہ میں نمٹانے کا حکم دیا گیا ہے۔

طارق افغان نے مزید بتایا کہ ماتحت عدالت سے ملزمان کی ضمانت کے لیے دائر درخواستیں خارج کر دی گئی تھیں، تاہم بعد میں ملزمان نے ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ ان کے مطابق بدھ کو عدالت عالیہ کی طرف سے دونوں طرف کے وکلا کے دلائل سنے گئے جس کے بعد دونوں ملزمان کی رہائی کے لیے درخواستیں منظور کرلی گئیں اور اس طرح عدالت کی طرف سے ان کی رہائی کے احکامات جاری کر دیے گئے۔

خیال رہے کہ مئی میں شمالی وزیرستان کے علاقے خرقمر میں سکیورٹی فورسز کی طرف سے کیے گئے آپریشن میں چند مقامی افراد ہلاک ہوئے تھے۔ بعد میں مقامی لوگوں نے متشعل ہو کر ان ہلاکتوں کے خلاف احتجاجی دھرنا دیا اور اس میں محسن داوڑ اور علی وزیر بھی شامل ہوگئے تھے۔ تاہم احتجاج کے دوران خرقمر چیک پوسٹ پر تصادم ہوا جس میں دونوں طرف سے ہلاکتیں ہوئی تھیں۔

پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ پی ٹی ایم کے کارکنان نے ارکانِ قومی اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر کی قیادت میں شمالی وزیرستان میں فوج کی خرقمر چیک پوسٹ پر ایک دن قبل گرفتار کیے گئے شدت پسندوں کے سہولت کاروں کو چھڑوانے کے لیے حملہ کیا تھا۔ تاہم بعد میں اس الزام کے تحت دونوں کے خلاف مقدمات درج کر کے گرفتار کرلیا گیا تھا۔

آئی ایس پی آر کے مطابق اس تصادم میں تین افراد ہلاک جبکہ 15 زخمی ہوئے جن میں پانچ فوجی بھی شامل تھے۔ تاہم بعد میں ان ہلاکتوں میں اضافہ ہوا تھا۔

بیان میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سکیورٹی فورسز نے باوجود براہ راست اشتعال انگیزی اور فائرنگ کے صبر سے کام لیا تاہم اس دوران چیک پوسٹ پر فائرنگ کی گئی جس میں پانچ سپاہی زخمی ہوئے۔

دوسری جانب پی ٹی ایم نے الزام لگایا تھا کہ پاکستانی فوج نے ان کے پرامن دھرنے پر حملہ کیا تھا۔

About The Author