دوہزار دس کے سیلاب نے جہاں انسانی آبادیوں کو تباہ کیا ہے وہاں اس کی شدت نے دریائے سندھ سے وابستہ آبی حیات کوبھی شدید متاثر کیا ۔
دریائے سندھ میں پائے جانے والے دنیا کے نایاب آبی جانور انڈس ڈولفن کی نسل جو پہلے ہی معدومیت کے خطرے سے دوچار تھی کو مزید خطرات کا سامنا ہے۔
اس کی وجہ سیلاب کے نتیجے میں بیراجوں کے گیٹ کھولنے سے اس کی آبادی کااپ سے ڈائون سٹریم اور ڈاون سے اپ سٹریم میں منتقل ہونا ہے ۔
آبی ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈس بلائنڈ ڈولفن کا رہائشی علاقہ پہلے صوبہ خیبرپختونخواہ کے اٹک کے مقام سے لیکر کوٹڑی تک پھیلا ہوا تھا لیکن 1930 کے بعد بیراجوں اور ڈیموں کی تعمیر کی وجہ سے اس آبی جانور کا مسکن سکڑتا چلاگیااور اس ممالیہ کا سمندر سے رشتہ ختم ہوگیا اور اب یہ جناح بیراج سے سکھر بیراج کے درمیان کے علاقے تک محدود ہوگئی ہے۔
ورلڈ وائلڈ فنڈ کے سال دو ہزار ایک کے سروے کے مطابق دریائے سندھ میں انڈس ڈولفن کی کل آبادی 965 تھی جبکہ دوہزار آٹھ میں اس کی آبادی بڑھ کر سولہ سو بچاس سے سترہ سو کے درمیان ہوگئی ۔
جناح بیراج سے گڈو بیراج کے درمیان ساڑھے تین سو بلائنڈ ڈولفنز موجود ہیں جبکہ گڈو بیراج سے سکھر بیراج کے درمیان اس کی آبادی ساڑھے بارہ سو بتائی جاتی ہے۔
انڈس ڈولفن ایک آبی ممالیہ ہے جس کا قد ڈھائی میٹر اور وزن تقریبا ستر سے ایک سو دس کلوگرام ہوتا ہے۔
بلھن یعنی انڈس بلائنڈ ڈولفن کی اوسط عمر اٹھائیس سال ہے اور یہ تیس سے ایک سو بیس سیکنڈ کے بع سانس لینے کے لئے منہ پانی سے باہر نکالتی ہے۔
گول اور چھوٹی آنکھوں والی ڈولفن کو صرف ایک مخصوص زاویے سے نظر آتا ہے اس لئے اس کو مقامی زبان میں اندھی بلہن یعنی بلائنڈ ڈولفن اور اردو میں سوسو کہا جاتا ہے۔
جنگلی حیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ آبی ذخائر اور بیراجوں کی تعمیر، دریا کنارے کیمیکل انڈسٹری، ہائیڈل پاور اسٹیشن اور پانی کی آلودگی نے بلائنڈ ڈولفن کے قدرتی مسکنوں کی تباہ کر دیا جس کی وجہ سے وہاں بسیرا کرنے والی انڈس ڈولفن کو زندہ رہنے میں دشواری ہونے لگی۔
انڈس ڈولفن کی نسل کشی کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ بعض لوگ دوائیوں میں اس کے گوشت اور چربی استعمال کرنے کے لئے اس کا شکار کرتے ہیں۔اس منفرد آبی مخلوق کی زندگی بچانے کے لیے حکومت پاکستان نے یو این ڈی پی، ورلڈ وائیڈ فنڈاور پاکستان ویٹ لینڈپروگرام کی مدد سے ریسکیواور دریاکے ساتھ ساتھ بسنے والی کمیونئی میں آگاہی مہم تو شروع کی ہے مگر اس کا دائرہ محدود ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ضلع مظفر گڑھ کی یونین کونسل ڈھاکہ میں جہاں پر دریائے سندھ اور چناب آپس میں ملتے ہیں پچھلے دوہفتوں کے درمیان مقامی شکاریوں نے مچلھی کے شکار کے دوران دو ڈولفنز کوپکڑا جن میں سے ایک کو صوبہ پنجاب کے شعبہ اطلاعات سے تعلق رکھنے والے عطابلوچ نامی اہلکار نے ریسکیو کرالیا جبکہ دوسری زندگی کی بازی ہار گئی۔
آبی حیات خاص طور پر انڈس بلائنڈ ڈولفن کی نسل کُشی کو روکنے کے لیے جہاں آگہی مہم کا دائرہ کار بڑھانے کی ضرورت ہے وہاں آبی آلودگی پر قابوپانے کے ساتھ ساتھ بیراجوں کے ڈیزائن پر بھی نظرثانی کر نا ہوگی۔
غضنفرعباس:بشکریہ بی بی سی
نوٹ:یہ رپورٹ 2012میں تیار کی گئی
اے وی پڑھو
قومی اسمبلی دا تاریخی سیشن ،،26ویں آئینی ترمیم منظور
موہری سرائیکی تحریک دی کہاݨی…||ڈاکٹر احسن واگھا
ڈیلی سویل ٻیٹھک: سندھ ساگر نال ہمیشاں.. ݙوجھادرشن