پنجابی اور اردو سپیکنگ سوشل میڈیا دانشوروں (چند ایک کو چھوڑ کر، چند ایک سے مراد چند ایک ہی ہے) کا ایک مستقل مسئلہ ہے کہ جب جب معاملات ان کی توقعات کے برعکس ہونے لگتے ہیں تو بجائے غلطی ماننے اور اپنی سیاسی سمت درست کرنے کے پیپلز پارٹی اور زرداری صاحب میں نقص ڈھونڈنا اور مغلظات بکنا شروع کر دیتے ہیں۔
نواز شریف بیمار ہے اسے علاج کی ضرورت ہے سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے مقدمات میں اسے سزا ہوئی اور اس کی وقتی رہائی کے پیچھے سیاسی حالات و واقعات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔
چلیں ان پنجابی دانشوروں کی بات کو مان لیتے ہیں کہ واقعی نواز شریف بیمار ہے اور اس قدر بیمار ہے جس قدر یہ بیان کر رہے ہیں اس لئے اس کی رہائی کسی بارگین کا نتیجہ نہیں ہے۔
بس اتنا بتا دیں مریم نواز کو کیوں چھوڑا گیا جو ایسٹبلشمنٹ نواز شریف اور اس کے پورے خاندان کو جیل میں رکھنے کے لیے کھل کر میدان میں تھی عدالتوں کے ججوں کو ہدایات دینے سے لے کر نیب کے ذریعے شریف خاندان کو دیوار سے لگا رہی تھی یکدم سے کیسے اس میں انسانیت عود کر آئی کہ عمران خان کی مخالفت کے باوجود نواز شریف کو عدالتوں کے ذریعے انصاف اور علاج کا حق دلوانے کے لیے متحرک ہو گئی؟
فضل الرحمان کو پیپلز پارٹی نے تو شروع میں ہی بتا دیا تھا کہ وہ حکومت کے کسی دھرنے کے نتیجے میں خاتمے کے حق میں نہیں ہے اس وقت نواز شریف اور اس کی جماعت کے حامی یہ دانشور سب پیپلز پارٹی پر ایسٹبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل کے الزامات لگاتے یا امکانات کا اظہار کرتے رہے۔لیکن جب فضل الرحمان کا مارچ پنجاب میں داخل ہوا اور لاہور سے ہوتا ہوا اسلام آباد پہنچا تو ن لیگ ایسے گم ہو گئی جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ تو اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ اس کی وجہ ن لیگ کا ایسٹبلشمنٹ کے ساتھ نواز شریف کی رہائی اور پھر علاج کی غرض کے لئے ملک سے روانگی کے لئے معاملات کا طئے کرنا ہو سکتا ہے تو اسے کیسے جھٹلایا جا سکتا ہے۔
نواز شریف بیمار نہ بھی ہوتا تو بھی اس نے رہا ہونا تھا پیپلز پارٹی اور زرداری صاحب کا ایک ہی موقف تھا کہ دنیا جس طرح پاکستانی ایسٹبلشمنٹ کے حوالے سے بداعتمادی اور شکوک وشبہات کا شکار ہے اور پاکستان جس طرح کے معاشی مسائل کا سامنا کر رہا ہے اس صورت میں ملک کو اس طرح چلانا ممکن نہیں ہے جیسے ایسٹبلشمنٹ عمران خان کے ذریعے چلانا چاہتی ہے ۔
یہی وجہ ہے سفارتی محاذ پر ایک کے بعد دوسرا جوتا پڑا، انڈیا نے فوجی طاقت کے بل بوتے پر عالمی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی قوم کی تسلی کا سامان اتفاقاً ابھینندن کے پکڑے جانے کی صورت میں پیدا ہوا لیکن انڈیا نے مزید فوجی دباؤ بڑھایا پھر ابھینندن کو چائے بھی پلانی پڑی اور اسے گھر چھوڑ کر بھی آنا پڑا۔
کشمیر ہاتھ سے نکل گیا اور یہ بیچارے کالی پٹیاں باندھ کر اپنے ملک کی سڑکوں پر احتجاج کرتے رہ گئے عالمی برادری سے چندہ وصولی مہم چند ماہ میں ہی بند کرنی پڑی کہ جس نے جو کچھ دینا تھا دیکر مزید دینے سے معذرت کر لی۔
اس چندے سے وہی پہلے والا ٹھاٹھ باٹھ اور جھوٹا بھرم کچھ دن برقرار رکھا جا سکتا تھا اس کے بعد عوام کو نچوڑنا باقی تھا۔ ڈنڈے لیکر نکل پڑے تاجر آگے یہ پیچھے کچھ دیر تو ایسا چلا پھر یہ آگے اور تاجر پیچھے۔
عوام پر مہنگائی کے پہاڑ توڑ دئیے گئے۔ پیڑول، بجلی، گیس، سبزی، دال کیا کچھ مہنگا نہیں کیا لیکن پھر بھی ملک اس طریقے سے چلتا دکھائی نہیں دے رہا جیسے ایسٹبلشمنٹ چلانا چاہتی ہے اور زرداری صاحب انہیں اول روز سے کہہ رہے ہیں ہم کوئی روکاوٹ نہیں ڈالیں گے آپ ملک چلائیں بے شک ہمیں جیلوں میں رکھیں جھوٹے مقدمے بنائیں ملک چلائیں جیسے آپ کا دل چاہیے ویسے چلائیں۔
لیکن ملک ویسے چلتا دکھائی نہیں دے رہا کرتار پور کوریڈور کھول کر بھی، بھارت کی جانب سے کشمیر کا خصوصی سٹیس ختم کرنے کے باوجود سفارتی تعلقات منقطع نہ کر کے بھی مودی کے دل میں اپنے لئے رتی بھر نرمی پیدا نہیں کر سکے اب عوام پر مزید بوجھ ڈالتے ہیں تو عوام لڑنے کو تیار ہے ۔
مولانا فضل الرحمان استعفیٰ نہیں لے سکا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بہت سے پی ٹی آئی کے لوگ اس کے دھرنے میں پی ٹی آئی کے جھنڈوں کے ساتھ شامل ہونا چاہتے تھے لیکن اس خوف سے شریک نہیں ہوئے کہ کہیں ان کو جے یو آئی کے لوگوں سے مار نہ پڑ جائے۔
تقریباً ہر شخص چاہتا تھا کہ مولانا فضل الرحمان استعفیٰ لینے میں کامیاب ہو جائے۔ عمران خان چلا بھی جائے اور شہباز شریف آ جائے، نواز شریف کو علاج کے لیے ملک باہر جانے کی اجازت نہ بھی ملتی، زرداری صاحب اور اس کی پارٹی کے مزید جتنے بھی لوگوں کو گرفتار کر لیں یا انہیں چھوڑ دیں ایسٹبلشمنٹ جس طریقے سے ملک کو چلانا چاہتی ہے ملک مزید ایسے نہیں چل سکتا ۔
ایسٹبلشمنٹ نواز شریف کے ساتھ معاملات طئے کرنے کے چکر میں ہے کہ اسے چند رعایتیں دیکر مودی اور عالمی برادری سے بڑی رعایتیں لی جا سکیں لیکن ایسٹبلشمنٹ کے لئے بری خبر یہ ہے کہ نواز شریف کے پاس بھی انہیں دینے کے لیے بھی کچھ نہیں ہے یہاں تک کہ جان کی امان بھی۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ