۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سابق وزیر اعظم میاں نوازشریف کی پاکستان واپسی لگ بھگ چار برس بعد ہونے والی ہے تاہم اِن چار برسوں میں ملکی سیاست نے کئی کروٹیں لی ہیں۔
اُن کی جماعت ن لیگ، جسے جی ٹی روڈ یا شمالی پنجاب میں دہائیوں تک سب سے مقبول جماعت سمجھا جاتا رہا، کی مقبولیت کو ملکی سیاست کے بدلتے حالات نے ٹھیس پہنچائی۔ تحریک انصاف کی ضمنی انتخابات میں فتح نے ن لیگ کے ووٹ بینک میں کمی کا نشاندہی کی تھی۔
ایسے میں یہ سوال اُٹھ رہا ہے کہ کیا نواز شریف کی 21 اکتوبر کو واپسی پنجاب میں ن لیگ کو لگنے والی سیاسی ضرب کی تلافی کر پائے گی؟
مسلم لیگ ن کو ’جی ٹی روڈ کی جماعت‘ کیوں کہا جاتا ہے؟
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے لاہور تک جی ٹی روڈ پر کئی اضلاع اور اُن میں متعدد قومی اسمبلی کے حلقے ہیں جن میں مسلم لیگ ن کا ہمیشہ سے ووٹ بینک رہا ہے۔
مسلم لیگ ن کی اعلیٰ درجے کی قیادت زیادہ تر اِن اضلاع سے ہی تعلق رکھتی ہے جو ملکی یا پارٹی سطح کی فیصلہ سازی میں بھی کلیدی کردار ادا کرتی رہی ہے۔
مسلم لیگ ن کو ’جی ٹی روڈ کی جماعت‘ طنزاً بھی کہا جاتا ہے۔ متعدد سیاسی حلقوں کی جانب سے یہ دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ مسلم لیگ ن کا چونکہ یہاں ووٹ بینک ہے تو ترقیاتی کام بھی زیادہ یہیں ہوتے ہیں تاکہ ووٹ بینک مضبوط رہے۔
ان اضلاع میں اٹک، راولپنڈی، چکوال، جہلم، گجرات، سرگودھا، فیصل آباد، گوجرانوالہ، حافظ آباد، منڈی بہاؤالدین، سیالکوٹ، نارووال، لاہور، شیخوپورہ، ننکانہ صاحب، قصور اور اوکاڑہ شامل ہیں۔
اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو 2018 میں جب نوازشریف اپنی بیٹی سمیت پابندِ سلاسل تھے تو ن لیگ اِن اضلاع کی کُل قومی اسمبلی کی 75 نشستوں میں سے 45 پر کامیاب رہی۔ اسی طرح سنہ 2013 میں اِن اضلاع کی کل سیٹیں 83 تھیں اور مسلم لیگ ن نے 75 پر کامیابی حاصل کی تھی۔
میاں نوازشریف کی سیاست کی ابتدا اَسی کی دہائی میں ہوئی اور جی ٹی روڈ سے ’رومانس‘ کا آغاز بھی تبھی ہوا۔
17 اگست 1989 کو بے نظیر بھٹو کے پہلے دورِ حکومت میں نواز شریف نے اسلام آباد کی فیصل مسجد میں ضیا الحق کی پہلی برسی کے موقع پر اپوزیشن جماعتوں کی قیادت کرتے ہوئے لاہور سے جی ٹی روڈ کے ذریعے اسلام آباد کی جانب مارچ کیا تھا۔
سنہ 2009 میں عدلیہ بحالی تحریک ہو یا 2017 میں سپریم کورٹ سے نااہلی کے بعد کا سیاسی ماحول، میاں نواز شریف نے جی ٹی روڈ پر ہی ’مجھے کیوں نکالا‘ اور ’سول بالادستی‘ کا بیانیہ اپنایا۔
شاید یہی وجوہات ہیں جن کی بنا پر چند سیاسی حلقے ن لیگ کو ’جی ٹی روڈ کی جماعت‘ کہتے ہیں۔
نواز شریف کی مقبولیت میں اُتار چڑھاؤ: ’لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ ہمیشہ ہی چلے جاتے ہیں‘
19 نومبر 2019 کو میاں نوازشریف علاج کے غرض سے لندن چلے گئے۔ 16 اکتوبر 2020 کو پی ڈی ایم اتحاد کے گوجرانوالہ جلسے میں میاں نواز شریف نے لندن سے ویڈیو لنک پر خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’سلیکٹڈ (عمران خان) کو لانے والوں کو جواب دینا پڑے گا۔‘
یہ جلسہ اور اُس میں کیا جانے والا خطاب میاں نوازشریف کے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ کی بنیاد بن گیا۔ اپریل 2021 میں ڈسکہ کے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 75 سے مسلم لیگ ن کی خاتون اُمیدوار کامیاب ہوئیں اور یوں نواز شریف نے اپنی پارٹی کی مقبولیت کو برقرار رکھا۔
ڈاکٹر آمنہ محمود، سابق ڈین سوشل سائنسز اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد، کہتی ہیں کہ ’نواز شریف کا پانچ ،چھ سال پہلے کا بیانیہ ’مجھے کیوں نکالا‘ سے ملک چھوڑنے تک اُن کی مقبولیت کا گراف نیچے نہیں آیا تھا۔ لیکن جب وہ ملک سے چلے گئے تو لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ ہمیشہ ہی چلے جاتے ہیں۔‘
کالم نگار عامر ہاشم خاکوانی کا بھی یہی خیال ہے کہ میاں نوازشریف جب چار سال پہلے یہاں موجود تھے تو لاہور میں اُن کی جماعت مقبول ترین جماعت تھی۔
مسلم لیگ ن کے رہنما ہوں، پی ٹی آئی کو چھوڑ جانے یا دیگر جماعتوں کے رہنما یا پھر سیاسی مبصرین، سب اس بات پر متفق ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی سے پہلے عمران خان کی مقبولیت ختم ہو کر رہ گئی تھی اور اگر وہ مزید 16 ماہ حکومت کرتے تو یقینی طور پر عوام کا اعتماد مکمل طور پر کھو چکے ہوتے۔
قائداعظم یونیورسٹی کے شعبہ سوشیالوجی کے سابق چیئرمین ڈاکٹر محمد زمان کہتے ہیں کہ ’شہباز شریف کا سولہ ماہ کے لیے حکومت کرنا، مسلم لیگ ن کی سب سے بڑی سیاسی غلطی بن گیا۔ اُس وقت عمران کی مقبولیت نچلی سطح پر ختم ہو رہی تھی۔‘
اپریل 2022 میں عمران حکومت کے خاتمے کے بعد پنجاب اور جی ٹی روڈ کی سیاست بدلنا شروع ہو گئی۔ مگر یہ اچانک نہیں ہوا۔ 2018 کے الیکشن میں پی ٹی آئی کے اُمیدواروں نے اِن علاقوں میں خود کو رجسٹرڈ کروا لیا تھا۔
17 جولائی 2022 کو پنجاب کے 20 صوبائی حلقوں میں ضمنی الیکشن ہوئے تو 15 سیٹیں پی ٹی آئی نے حاصل کیں۔ 16 اکتوبر 2022 کو قومی اسمبلی کے 8 حلقوں میں ضمنی الیکشن ہوا جس میں سات سیٹوں پر عمران خان نے خود الیکشن لڑا اور وہ 6 میں کامیاب رہے۔
تاہم 9 مئی کے واقعے کے بعد پی ٹی آئی اور اُس کی لیڈر شپ شدید دباؤ میں آ گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عمران خان سمیت کئی رہنما جیلوں میں ہیں، باقی پارٹی چھوڑ چکے اور جو رہ گئے ہیں، وہ روپوش ہیں۔
مگر دوسری طرف، نچلی سطح پر عمران خان کی عوامی مقبولیت، میاں شہباز شریف کی بطور وزیرِ اعظم 16 ماہ کی معاشی حکومتی کارکردگی اور میاں نوازشریف کی سیاسی میدان سے غیر حاضری کی بدولت یہ بحث جاری ہے کہ ن لیگ کا ووٹر پارٹی قیادت سے نالاں ہے اور سوال اُٹھائے جا رہے ہیں کہ میاں نواز شریف کی واپسی اب کتنی موثر ثابت ہو گی؟
نواز شریف کی عدم موجودگی میں کیا کچھ بدلا؟
جی ٹی روڈ کے طرزِ سیاست میں ایک بڑی تبدیلی انتخابی سٹرکچر کی ہے۔ آنے والا الیکشن گذشتہ انتخابات سے مختلف ہو گا۔ الیکشن لڑنے اور ووٹ لینے کا پرانا طریقہ کار اب شاید کارآمد نہ رہے۔
انتخابی سٹرکچر کی تبدیلی، دھڑے اور برادری کی سیاست، پینل جیسے فرسودہ سانچوں کو توڑتی محسوس ہو رہی ہے۔
ڈاکٹر طاہر کامران اس موقف کی تائید کرتے ہیں کہ جی ٹی روڈ کے اضلاع اور ملحقہ علاقوں میں مڈل کلاس میں اضافہ ہوا ہے اور انتخابی عمل میں برادری کا فیکٹر کمزور ہوا ہے۔
انتخابی و سیاسی اُمور کے ماہراور لمز کے پروفیسر ڈاکٹر محمد وسیم ایک اہم نقطہ بیان کرتے ہیں۔
ان کے مطابق ’مڈل کلاس سیاست دانوں کے خلاف رہی ہے اور پولنگ کے دِن ووٹ ہمیشہ دوردراز کے غریب طبقات ہی زیادہ دینے آتے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’عمران خان نے مڈل کلاس میں اپنا بیانیہ مقبول کیا اور ان کو موروثی اور خاندانی سیاست کے بھی خلاف کر دیا۔‘
ڈاکٹر طاہر کامران کہتے ہیں کہ ’مسلم لیگ ن متبادل قیادت پیدا نہیں کر سکی اور متبادل نظریہ بھی پارٹی کے ہاں پیدا نہ ہوسکا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’خاندانی سیاست سے ن لیگ کیسے باہر آئے گی؟ یہ فی الحال ممکن نہیں کیونکہ خاندانوں کے باہمی تعلقات ہیں لیکن مڈل کلاس کی وجہ سے خاندانی سیاست نہیں چلنے والی۔‘
ڈاکٹر محمد زمان کہتے ہیں کہ ’ن لیگ کو اپنی کھوئی طاقت کو بحال کرنے کے لیے کچھ بہت ہی غیر معمولی سطح پر کرنا ہو گا، اپنا کوئی بیانیہ دینا ہو گا اور جدید ڈیجیٹل تکنیک کو بھی بروئے کار لانا ہو گا۔‘
متبادل قیادت کی بات کرتے ہوئے سیالکوٹ کے مقامی صحافی شکور مرزا کہتے ہیں کہ ’ضلع سیالکوٹ کی شہری ثقافت پر خواجہ آصف کی گرفت ہے مگر یہ گرفت ہمیں گذشتہ الیکشن میں کمزور ہوتی دکھائی دی۔‘
نواز شریف کی عدم موجودگی میں کبھی شہبازشریف ایکٹو دکھائی دیتے، کبھی مریم نواز تو کبھی حمزہ شہباز تو کبھی یہ سب خاموش ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر طاہر کامران کہتے ہیں کہ ’اَسی کی دہائی سے میاں نوازشریف کا سیاسی سفر ارتقا اور آرگینک پراسس کا نتیجہ ہے مگر شہبازشریف، مریم نواز اور حمزہ شہباز کا سیاسی ارتقا نہیں ہوا ہے۔‘
ان کے مطابق ’جی ٹی روڈ میں جو خلا پیدا ہوا، وہ میاں نوازشریف کی غیر موجودگی کی مرہونِ منت ہے۔‘
ڈاکٹر آمنہ محمود کہتی ہیں کہ ’میاں نواز شریف اور شہباز شریف دونوں جوائنٹ پالیٹکس نہیں کر رہے۔ نوازشریف اپنی بیٹی کی سیاست کو فروغ دے رہے ہیں لیکن ہر جگہ پر مریم کو قبول کرنے والے موجود نہیں۔‘
ستر کی دہائی میں پنجاب میں پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک بہت زیادہ تھا۔ جب 1988 میں انتخابات ہوئے تو پاکستان پیپلز پارٹی، جن کا پنجاب ایک طرح سے سیاسی گڑھ سمجھا جاتا تھا، کی کارکردگی متاثرکن نہ رہی اور رفتہ رفتہ نواز شریف پنجاب کی سیاست پر حاوی ہوتے چلے گئے۔
2013 سے 2018 اور 2018 سے پی ٹی آئی کے آزادی لانگ مارچ تک پنجاب کی صورت حال پر نظر دوڑائیں تو سوال اٹھتا ہے کہ جیسے پنجاب سے پیپلزپارٹی دور ہوئی، ایسا کچھ مسلم لیگ ن کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے؟
ڈاکٹر طاہر کامران کہتے ہیں کہ جس طرح پیپلزپارٹی کے لیے پنجاب میں واپسی مشکل ہو گئی، ایسا ہی کچھ مسلم لیگ ن کے ساتھ ہو سکتا ہے۔ ’ابھی عمران خان جیل میں ہے، کچھ یہاں ورک اگر پارٹی کر بھی لے، وہ باہر آئے گا، جی ٹی روڈ سے گزرے گا تو صورتحال اُن کے حق میں پھر بدل سکتی ہے۔‘
نواز شریف کی واپسی سے کچھ بدلے گا؟
جی ٹی روڈ کے مذکورہ اضلاع کے ضلعی عہدیداران کے مطابق میاں نواز شریف کے استقبال کے لیے مقامی ایم پی اے اور ایم این اے ووٹرز کو تیار کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر محمد وسیم کہتے ہیں کہ ’جی ٹی روڈ کے اضلاع میں پی ایم ایل این کا ہمیشہ سے ووٹ بینک ہے اور 2018 کے الیکشن سے پہلے مسلم لیگ ن کو وِلن بنایا گیا اور عمران خان کی مقبولیت کو بڑھایا گیا لیکن اب عمران خان غائب ہے تو ووٹ ڈالنے والے کیسے اور کس کو ووٹ ڈالیں گے۔‘
ڈاکٹرطاہر کامران کے مطابق ’میاں نوازشریف کی شخصیت، دبنگ انداز، دو ٹوک اور واضح موقف بھی کمزور ہوا ہے۔‘
ڈاکٹر محمد زمان کا خیال ہے کہ ’نواز شریف کی واپسی سے مسلم لیگ ن کو فائدہ ملے گا، کچھ نہ کچھ فرق تو ضرور پڑے گا‘ جبکہ عامر ہاشم خاکوانی کہتے ہیں کہ ’نواز شریف کے آنے سے بالکل فرق پڑے گا، مسلم لیگ ن کا کارکن میاں نوازشریف کی واپسی کے بعد چارج ہوگا۔‘
ایسے میں ن لیگ کی ضلعی قیادت کو ایک مشکل کا سامنا ہے اور جب چند مقامی رہنماوں سے بات چیت کی گئی تو انھوں نے ان مشکلات کا برملا اظہار بھی کیا۔
ضلعی صدر اوکاڑہ سے میاں محمد منیر نے کہا کہ ’اس وقت کسی حد تک عمران فیکٹر ہے مگر ہمارے ہاں دھڑے اور شخصیات کی سیاست ہوتی ہے۔‘ سیالکوٹ کے ضلعی جنرل سیکرٹری شجاعت علی پاشا کہتے ہیں کہ ’ہم ایک ایک بندے کو سمجھاتے ہیں کہ نوازشریف کو کیوں نکالا گیا، مہنگائی کا فیکٹر زیادہ ہے، عمران کا زیادہ نہیں۔‘
تاہم نارووال کے ضلعی صدر پیر اظہارالحق شاہ کہتے ہیں کہ ’شہروں میں عمران فیکٹر ہے، حقائق کو تسلیم کرنا چاہیے۔‘ کچھ ایسا ہی حافظ آباد کے ضلعی صدر محمد بخش تارڑ نے کہا۔
ان کے مطابق ’لوگ کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی نے کھمبے کو کھڑا کیا تو ووٹ دیں گے۔‘
لاہور کے ضلعی جنرل سیکریٹری خواجہ عمران کہتے ہیں کہ ’ایک ورکر کے طور پر مَیں یہ نہیں مانتا کہ عمران فیکٹر نیچے نہیں ہے، ہم لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
ایسے میں ن لیگ کے ایک مقامی قائد نے سیاسی حقیقت کا ذکر کیا۔ ضلعی صدر سرگودھا عبدالرزاق ڈھلوں کہتے ہیں کہ ’لوگ سمجھ رہے ہیں کہ اگلی حکومت کس کی ہے، اس وجہ سے رائے عامہ بھی بدل رہی ہے۔‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام
یہ بھی پڑھیے:
بندگلی میں دَم کیسے گھٹتا ہے؟۔۔۔احمد اعجاز
حکومت کا مسئلہ کیا ہے۔۔۔احمد اعجاز
حکومت کا مسئلہ کیا ہے۔۔۔احمد اعجاز
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر