وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جبر، گھٹن، غم و ابتلا انفرادی و اجتماعی انسانی المیوں کے اجزائے لازمی ہیں تو دوسری جانب یہی اجزا تخلیقی فصل کے لیے کھاد کا کام کرتے ہیں اور اس کھاد سے لمحہِ موجود کی قلم بند تاریخ اگتی ہے اور اس کی لہلہاہٹ اگلی نسل کو بھی پاؤں جمائے رکھنے کا حوصلہ دیتی ہے اور اندر سے ٹوٹنے نہیں دیتی۔شاید اسی لیے اب تک یہ بحث ہے کہ تلوار زیادہ طاقت ور ہے یا قلم ، ظلم زیادہ سخت جان ہے کہ مزاحمت؟
جب جب فلسطین کا تذکرہ ہوتا ہے مذکورہ سوالات پھر سے زخموں کی طرح ہرے ہو جاتے ہیں۔اس موضوع پر بہت کچھ لکھا گیا۔مزید لکھا جائے گا۔مگر خبریں اتنی بری بری آ رہی ہیں کہ کم ازکم آج میرا لکھنے کا ہرگز من نہیں۔بلکہ یہ جاننے کا من ہے کہ کیا کیا لکھا گیا ہے۔اسی تخلیقی سمندر کا بوند برابر نمونہ پیشِ خدمت ہے۔
( فیض احمد فیض کی لوری )
مت رو بچے
رو رو کے ابھی تیری امی کی آنکھ لگی ہے
مت رو بچے،
کچھ ہی پہلے تیرے ابا نے اپنے غم سے رخصت لی ہے
مت رو بچے،
تیرا بھائی اپنے خواب کی تتلی پیچھے دور کہیں پردیس گیا ہے
مت رو بچے،
تیری باجی کا ڈولا پرائے دیس گیا ہے
مت رو بچے،
تیرے آنگن میں مردہ سورج نہلا کے گئے ہیں
چندرما دفنا کے گئے ہیں
مت رو بچے
امی، ابا، باجی، بھائی، چاند اور سورج
تو گر روئے گا تو یہ سب اور بھی تجھ کو رلائیں گے
تو مسکائے گا تو شاید سارے اک دن بھیس بدل کر
تجھ سے کھیلنے لوٹ آئیں گے۔ (رحمان فارس کی نظم)
بچہ ہے اس کو یوں نہ اکیلے کفن میں ڈال
ایک آدھ گڑیا چند کھلونے کفن میں ڈال
نازک ہے کونپلوں کی طرح میرا شیر خوار
سردی بہت شدید ہے دہرے کفن میں ڈال
کپڑے اسے پسند نہیں ہیں کھلے کھلے
چھوٹی سی لاش ہے اسے چھوٹے کفن میں ڈال
ننھا سا ہے یہ پاؤں ، وہ چھوٹا سا ہاتھ ہے
میرے جگر کے ٹکڑوں کے ٹکڑے کفن میں ڈال
مجھ کو بھی گاڑ دے میرے لختِ جگر کے ساتھ
سینے پے میرے رکھ اسے ، میرے کفن میں ڈال
ڈرتا بہت ہے کیڑے مکوڑوں سے اس کا دل
کاغذ پے لکھ یہ بات اور اس کے کفن میں ڈال
مٹی میں کھیلنے سے لتھڑ جائے گا سفید
نیلا سجے گا اس پے سو نیلے کفن میں ڈال
عیسیٰ کی طرح آج کوئی معجزہ دکھا
یہ پھر سے جی اٹھے اسے ایسے کفن میں ڈال
سوتا نہیں ہے یہ میری آغوش کے بغیر
فارس مجھے بھی کاٹ کے اس کے کفن میں ڈال
(ڈاکٹر حنان اشراوی کی نظم)
خدا نہ کرے تمہیں کبھی اپنے ملک کے چھننے کا کرب سہنا پڑے
خدا نہ کرے تمہیں کسی قابض کی نظر بندی میں رہنا پڑے
خدا نہ کرے تمہیں اپنا گھر مسمار ہوتے دیکھنا پڑے
خدا نہ کرے تمہیں اپنے ہی دوستوں کے ہاتھوں بکنا پڑے۔
(توفیق زیاد کی نظم)
لدا میں، راملہ میں، گلیلی میں
ہم یہیں رہیں گے
تمہارے سینے پر دھری دیوار کی طرح
تمہارے حلق میں ٹوٹے شیشے کی کرچی کی طرح
ناگ پھنی کے کانٹے کی طرح
تمہاری آنکھ میں آندھیوں کی گرد کی طرح
اپنے بچوں میں انقلاب کا خمیر اٹھائیں گے
جیسے آٹے میں خمیر اٹھتا ہے۔
(سمیع القاسم کی نظم)
اگر تم میری آنکھوں کی تمام قندیلیں بجھاڈالو
میرے بچوں کے چہروں سے مسکراہٹ اکھاڑ پھینکو
میں مفاہمت نہیں کروں گا، لڑوں گا
آخر دم تک لڑوں گا
(محمود درویش کی نظم شناختی کارڈ)
درج کرو
میں عرب ہوں
میرا شناختی کارڈ نمبر پچاس ہزار ہے
میرے آٹھ بچے ہیں
اور نواں موسمِ گرما کے بعد دنیا میں آ جائے گا
پس کیا تم غصہ کرو گے؟
درج کرو
میں عرب ہوں
اور یارانِ محنت کش کے ہمراہ پتھر کی کان میں کام کرتا ہوں
میرے آٹھ بچے ہیں
میں اْن کے لیے
نان اور ملبوسات اور کاپیاں
پتھروں سے باہر نکالتا ہوں
میں تمہاری چوکھٹ سے خیرات نہیں مانگتا
نہ ہی خود کو تمہارے آستانوں پر حقیر بناتا ہوں
پس کیا تم غصہ کرو گے؟
درج کرو
میں عرب ہوں
میرا صرف نام ہے
کوئی لقب نہیں
میں ایک ایسی سرزمین میں صابر ہوں
جہاں ہر کوئی وفورِ غضب میں زندگی بسر کرتا ہے
پیدائشِ زمانہ سے قبل
ادوار کے شروع ہونے سے قبل
سرو اور زیتون سے قبل
اور گھاس کے اگنے سے قبل
میری جڑیں اس زمین میں پنجے گاڑ چکی تھیں
میرے باپ کا تعلق ہل چلانے والے خاندان سے ہے
کسی نجیب خاندان سے نہیں
میرا دادا کسان تھا
بے حسب و نسب
قبل اس کے کہ وہ مجھے کتاب پڑھنا سکھائے
اْس نے مجھے سورج کا طلوع ہونا سکھایا
میرا گھر پہرے دار کی کوٹھڑی کے مانند ہے
شاخوں اور سرکنڈوں سے بنا ہوا
پس کیا تم میری حیثیت پے راضی ہو؟
میرا صرف نام ہے ، کوئی لقب نہیں
درج کرو
میں عرب ہوں
بالوں کا رنگ: کوئلے کی طرح سیاہ
آنکھوں کا رنگ: بھورا
اور میری شناختی علامات
سر پر عربی رومال اور اْس پر سیاہ حلقہ
جو کہ مستحکم ہے پتھر کی مانند ہے
میری پسندیدہ ترین غذائیں
روغنِ زیتون اور پھلیاں
میرا پتہ
ایک دور دراز فراموش شدہ گاؤں
جس کی گلیاں بے نام ہیں
جس کے تمام باسی کھیتوں اور پتھر کی کانوں میں کام کرتے ہیں
پس کیا تم غصہ کرو گے؟
درج کرو
میں عرب ہوں
اور تم نے میرے اجداد کے باغات چرا لیے
اور وہ زمین بھی
جہاں میں اپنے تمام بچوں کے ہمراہ کھیتی کرتا تھا
تم نے میرے اور میرے پوتوں کے لیے
کچھ بھی باقی نہیں چھوڑا
سوائے ان پتھروں کے
تو کیا تمہاری حکومت
جیسا کہ کہا گیا ہے
ان پتھروں کو بھی چھین لے گی؟
لہٰذا درج کرو
صفحہ اول پر سب سے اوپر
میں لوگوں سے نفرت نہیں کرتا
نہ ہی کسی پر تجاوز کرتا ہوں
لیکن۔۔۔
جب مجھے بھوک لگے گی
غاصب کا گوشت کچا چبا جاؤں گا
خبردار رہو میری بھوک سے
اور میرے غصے سے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر