اسلم اعوان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افغانستان سے فوجی انخلا کے بعد زخم خوردہ امریکیوں کو جنوبی ایشیا میں دو متضاد اہداف نے دل و دماغ کی تقسیم کا شکار بنا دیا ہے۔ واشنگٹن ایک طرف پاکستان کو سزا دینے کے لیے بے چین ہے تو دوسری جانب چین کی اقتصادی اور تزویراتی پیش قدمی روکنے کے لیے اسے پاکستان کے ساتھ مشغولیت بھی مقصود ہے۔ چنانچہ امریکہ جنوبی ایشیا میں ”انڈیا فرسٹ‘‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہونے کے باوجود چین کی پیش رفت روکنے کی خاطر ”اونلی انڈیا‘‘ پالیسی اپنائے گا نہ بھارت کو اسلام آباد کے ساتھ امریکی تعلقات پر ویٹو کا حق دیا جائے گا کیونکہ پاکستان کے وہ حلقے‘ جو کبھی پوری طرح امریکی کنٹرول میں تھے‘ اب وہ گریز پا تال میل کے باعث پابندیوں کی تین تہوں کے نیچے بھی ایک آزاد مملکت کی طرح پیش آ رہے ہیں۔ مزید یہ کہ پاکستان جوہری ہتھیاروں والی ریاست ہونے کے علاوہ دنیا کا پانچواں سب سے بڑی آبادی والا ملک بن چکا ہے۔ ہر چند کہ یہاں مستقبل قریب میں بھی غیر جمہوری قوتوں کا عمل دخل رہے گا لیکن مملکت بہت جلد سویلین نظامِ حکومت میں ڈھلنے والی ہے۔ ماضی سے قطع نظر امکان یہی ہے کہ امریکہ عمومی انداز میں پاکستان کی سویلین ساخت کو تسلیم کر لے گا تاکہ پاک امریکہ تعلقات کی تشکیلِ نو کے طریقے اور تعاون کے متبادل آپشنز پیدا کیے جا سکیں۔ عام خیال بھی یہی ہے کہ امریکی ماہرین بہت جلد پاک امریکہ مضبوط تعلقات کے لیے جغرافیائی سیاسی استدلال مہیا کر سکتے ہیں لیکن امریکہ کے تھنک ٹینکوں کی رپورٹس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ امریکہ اب پاکستان کے ساتھ تعلقات کی بحالی باہمی تعاون کی خاطر نہیں بلکہ اسے سزا دینے کے حربوں کو بروئے کار لانے کیلئے یہ بحالی چاہتا ہے۔
سرد جنگ اور نائن الیون کے بعد کے ادوار نظروں سے اوجھل ہو چکے ہیں۔ فوری طور پر واشنگٹن کے اُفق پہ کوئی متبادل قدرِ مشترک دکھائی نہیں دیتی؛ چنانچہ واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان دوطرفہ تعلقات فی الحال غیر فعال رہیں گے؛ تاہم کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ جنوبی ایشیا کے لیے امریکہ کو طاقت کے مختلف ٹولز پر زیادہ انحصار کرنا پڑے گا کیونکہ امریکی خارجہ پالیسی کے غیر فوجی آلات پر زیادہ انحصار کرنے کی گنجائش باقی نہیں بچی۔ جس طرح مشرقِ وسطیٰ میں تیزی سے فروغ پاتے معاشی و سیاسی استحکام کو دگرگوں کرنے کے لیے امریکی اشرافیہ کو ایک نئی جنگ کی ضرورت ہے (جیسے وائٹ ہاؤس اسرائیل حماس کشیدگی بڑھانے کے لیے میدان میں کود پڑا ہے) اسی طرح افغانستان میں تشدد کی آگ بھڑکائے رکھنے کے علاوہ مقبوضہ کشمیر کے ایشو پہ پاک بھارت کشیدگی بڑھانا بھی امریکہ کے مفاد میں ہے تاکہ جنوبی ایشیا سمیت مشرقِ وسطیٰ میں چین کی اقتصادی پیشرفت کو روکا جا سکے لیکن چینی اقدامات کا جواب دینے کے طریقے تلاش کرنے کے لیے اقتصادی عوامل سے نمٹنے کی خاطر اسے امریکی فوج پر بوجھ کم کرنے کے علاوہ سفارتکاری‘ تجارت‘ مالیات‘ ٹیکنالوجی اور دیگر شعبوں پہ توجہ مرکوزکرنا پڑے گی اور یہ کوشش صرف بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کے مقابلے تک محدود نہ ہو گی بلکہ اس کا دائرہ مالیات کے علاوہ سیاسی اثر و رسوخ اور سلامتی پر بھی محیط ہونا چاہیے لیکن ایک تو افغانستان سے انخلا نے خطے پر امریکی گرفت کو کمزور کرکے مغرب کے لیے بحر ہند کے پورے خطے میں سمندری مسائل پر گہری مشغولیت کے لیے جگہ تنگ کر دی۔ دوسرا‘ اس خلا کو چین کی بڑھتی ہوئی تجارتی اور عسکری موجودگی نے پُر کر دیا۔ چنانچہ بحر ہند کے اردگرد واشنگٹن کی طرف سے ہند‘ بحرالکاہل کی حکمت عملی ناکام ہونے کے بعد ہند اور بحرالکاہل کے درمیان روابط مزید پیچیدہ ہو جانے کے باعث واشنگٹن کا سٹریٹیجک منظرنامہ بدل رہا ہے۔
چین امریکہ تعلقات حالیہ برسوں میں واضح طور پر بگڑ گئے ہیں کیونکہ امریکی خارجہ پالیسی چین کے جواب میں ڈھلتی جا رہی ہے۔ اس لیے ایشیا اور مڈل ایسٹ کی سطح پر امریکہ کے طویل مدتی عزائم دو طرفہ کشیدگی بڑھا سکتے ہیں۔ چین کے ارادوں اور صلاحیتوں کے بارے میں اضطراب کے طویل سائے میں واشنگٹن کی تشویش بڑھ رہی ہے کیونکہ چین صدر شی جن پنگ کی قیادت میں مشرقی اور جنوب مشرقی ایشیا کا مرکز بننے والا ہے۔ یہاں تک کہ ان وسیع علاقوں میں بھی جہاں امریکی اور چینی مفادات بظاہر جنوبی ایشیا میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں یعنی تزویراتی استحکام اور انسدادِ دہشت گردی وغیرہ۔ شاید اس لیے واشنگٹن اپنے یورپی اتحادیوں کو چین اور امریکہ میں سے ایک کا انتخاب کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔
چین پاکستان کو اپنے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے اہم جُز اور ابھرتے ہوئے بھارت کے مقابلے کے طور پہ پیش کرتا ہے اور دونوں ملک امریکہ بھارت پیش رفت کے خلاف خاموش مزاحمت کرتے ہیں۔ اسی طرح امریکہ افغان جنگ میں اسے شکست دینے والے مزاحمت کاروں کی حمایت کرنے پر پاکستان کو سزا دینا چاہتا ہے جبکہ بیجنگ اس کے برعکس سوچتا ہے۔ واشنگٹن کو بھی جنوبی ایشیا سمیت مشرقِ وسطیٰ میں چین کی شمولیت پر تحفظات ہیں‘ دیگر چھوٹے جنوبی ایشیائی ممالک کے ساتھ غیر پائیدار قرضوں اور پچھلے دروازے کے خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے بیجنگ کی طرف سے پورے بھارتی علاقے تک فوجی و تزویراتی رسائی حاصل کرنے کی کوشش محلِ نظر رہے گی۔ خاص طور پر سمندری حدود اور بھارت کے شمال مشرق کے آس پاس کے کچھ جنوبی ایشیائی ممالک جیسے میانمار‘ سری لنکا‘ بنگلہ دیش اور نیپال، اُدھر جمہوریت‘ انسانی حقوق‘ فلاحی حکمرانی کے مفروضوں پہ کھڑی امریکی خارجہ پالیسی کی دیرینہ ترجیحات کو امریکہ کی داخلی کشمکش نے مہمل بنا دیا ہے۔ ریپبلکنز‘ سفید فاموں کی بقا اور بالادستی کی خاطر جمہوریت‘ انسانی حقوق اور مارکیٹ اکانومی سے نجات کی خاطر چینی ماڈل اتھارٹیرین نظام کی تشکیل چاہتے ہیں۔ اسی لیے جنوبی ایشیا اور بحر ہند کے خطے کی اہمیت علاقائی سے بڑھ کر عالمی سطح پہ نمایاں ہونے والی ہے۔ عنقریب یہ خطہ عالمی سیاست میں اہمیت کے ساتھ کششِ ثقل کا بڑا مرکز ہوگا یعنی امریکہ اور چین کے وسیع مقابلے کا میدان‘ خاص طور پر ترقی پذیر دنیا اور براعظم ایشیا جہاں دنیا کی آبادی کا تقریباً 40 فیصد صرف جنوبی ایشیا میں رہتا ہے‘ یہ خطہ مڈل ایسٹ کے تیل کی سب سے بڑی مارکیٹ ہونے کی وجہ سے ترقی کی بلند شرح اور متبادل پیش کرنے کی صلاحیت کے ساتھ متحرک منڈیوں پہ مشرقی ایشیا میں کم لاگت مینو فیکچرنگ کے مرکز کے طور پر اُبھرا ہے۔ امریکی رپورٹس کے مطابق سمندر میں 80 فیصد عالمی سمندری تجارت اور 40 فیصد تیل کی ترسیل بحر ہند سے ہوتی ہے۔ بحر ہند کا خطہ افریقہ سے مشرقِ وسطیٰ‘ جنوبی ایشیا‘ جنوب مشرقی ایشیا اور آسٹریلیا تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ خطہ عالمی سیاست کے دھارے کا تعین کرنے کے لیے اعلیٰ درجے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
چین کے حوالے سے خدشات اور جنوبی ایشیا میں ہم آہنگی کے علاقائی رجحانات کے جواب میں امریکی پالیسی خطے کی طرف اگلے چند سالوں میں کئی طریقوں سے منتقل ہونے والی ہے۔ واشنگٹن خطے کی دو بڑی ریاستوں بھارت اور پاکستان کے ساتھ اپنی تلویث میں نیا توازن چاہے گا۔ چین کے ساتھ براہِ راست جنگ کے بجائے بھارت کے ساتھ شراکت داری کو یقینی بنایا جائے گا تاکہ اس خطے سمیت دنیا بھر میں چین کی بڑی پیش رفت کو روکا جا سکے۔ واشنگٹن اگرچہ افغانستان میں پیش رفت اور جنوبی ایشیا کی چھوٹی ریاستوں میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنے کے لیے مزاحمتی گروہوں کی پشت پناہی کرے گا لیکن جنوبی ایشیائی ممالک کی ترجیحات میں اضافے سمیت مختلف امور پر خطے میں اپنی مصروفیت کو مزید مضبوط کرنے کے مواقع بھی پیدا کرتا رہے گا۔ وہی روایتی پیش دستی یعنی جمہوریت‘ انسانی حقوق اور پائیدار حکمرانی کے خوشنما نعروں کو دہرانے کے علاوہ پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ترغیبات آزمائی جائیں گی کیونکہ واشنگٹن چین کے ساتھ مؤثر مقابلے کی خاطر علاقائی تعاون کے لیے اپنی جگہ کو مکمل طور پر چھوڑنا نہیں چاہے گا۔
یہ بھی پڑھیے:
کشمیریوں کا مستقبل۔۔۔اسلم اعوان
اپوزیشن جماعتوں کی آزمائش۔۔۔اسلم اعوان
پیراڈائم شفٹ میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟۔۔اسلم اعوان
افغانستان کا بحران عالمی ایشو نہیں رہا۔۔۔اسلم اعوان
عورتوں میں ہم جنس پرستی پر یہ مشہور کہانی لکھنے والی عصمت چغتائی۔۔۔اسلم ملک
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر