نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ایک اور پٹرول بم!۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پٹرول کی فی لٹر قیمت میں 26 روپے سے زائد کا اضافہ کر دیا گیاہے۔ جس نے عوام کی چیخیں نکلوا دی ہیں در حقیقت یہ غریب عوام پر ایک اور پٹرول بم گرایا گیا ہے۔ وزارت خزانہ کے نوٹیفکیشن کے مطابق پٹرول کی قیمت میں جہاں 26 روپے اضافہ کیا گیا ہے وہاں ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں.34 17 روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ حالیہ اضافہ کے بعد پٹرول کی قیمت 331 روپے 38 پیسے فی لٹر جبکہ ڈیزل کی قیمت 339روپے 18 پیسے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ ایک ماہ کے عرصہ میں یہ دوسرا خوفناک اضافہ ہے۔ اس اعلان سے ایک دن پہلے پٹرول پمپوں پر پٹرول نایاب ہو گیا، آئل مافیا نے بھاری منافع کے لالچ میں ذخیرہ اندوزی کی اور شہریوں کو ذلیل و خوار کیا۔ پٹرول کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے سے پورے ملک میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ستم دیکھئے کہ پٹرول کے قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ہی فوری طور پر روزمرہ استعمال کی چیزوں میں اضافہ ہو گیا ہے ، ٹرانسپورٹروں نے بھی کرایوں میں اضافہ کر دیا ۔ہر حکومت غربت کے خاتمے کے منصوبے انائونس کرتی ہے مگر عملی طور پر ہر حکومت غربت کی بجائے ’’غریب مکائو پروگرام ‘‘پر عمل پیرا نظر آتی ہے مگر لوگ خاموش ہیں حالانکہ اس پر احتجاج ہونا چاہئے۔ حکومتی اقدامات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے غریب عوام کی کوئی پرواہ نہیں ہے ۔آئی ایم ایف کی شرائط پورا کرنا چاہتی ہے۔ نگران وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی کا یہ کہنا کہ پٹرولیم مصنوعات مہنگی خرید کر سستا فروخت کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے جبکہ عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کچھ عرصہ پہلے کم ہوئی تھیں، اُس کا بھی عوام کو ریلیف کی بجائے تکلیف ملی۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نے غریب عوام کا جینا مشکل کر دیا ہے کہ اضافہ کا اطلاق بالواسطہ طور پر تمام مصنوعات پر ہوتا ہے۔ غربت کے باعث لوگوں کی بحث لوگ روٹی روزی کے چکر میںر الجھ چکے ہیں ان کے لئے زندہ رہنا بھی مشکل ہو چکا ہے۔ اگرچہ اب ڈالر کی قیمت میں پہلے سے کمی آچکی ہے لیکن گذشتہ دنوں میںڈالر کی قیمت میں اضافے سے نہ صرف ترقیاتی منصوبوں کی لاگت میں سو فیصد اضافہ ہو ا بلکہ غریب کو گھر بنانے کیلئے بھی سخت مشکلات پیش آرہی ہیں ہماری۔ ہر چیز ڈالر کے ساتھ جڑی ہوئی ہے اور ڈالر کیساتھ تیل کو بھی مسلسل آگ لگی ہوئی ہے۔ جب پرویز مشرف کا دور ختم ہوا پیپلز پارٹی آئی مگر اس وقت بھی غریب کو ریلیف نہ ملا، زرداری کے بعد نواز شریف آئے تو مہنگائی اور ڈالر مزید اوپر چلے گئے، عمران آئے تو غربت اور بیروزگاری میں مزید اضافہ ہوا۔ عمران خان نے اس کا ذمہ دار سابقہ حکومت کو ٹھہرایا، اب موجودہ حکمران بھی یہی کچھ کہہ ررہی ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ حکومتوں کی غلط کاریوں کا خمیازہ عوام بھگت رہے ہیں جبکہ ہونا یہ چاہئے کہ جو بھی برسراقتدار آئے وہ بتائے کہ اس نے کیا کامیابیاں حاصل کیں؟ اور لوگوں کو کیا ریلیف دیا؟ ۔ غریب عوام کو سزا دینے اور اپنی اپنی ناکامیوں کا ملبہ ایک دوسرے پر ڈالنے کی بجائے اپنی کارکردگی عوام کے سامنے لائی جائے۔ زرداری، نوازشریف اور عمران خان کو کیا معلوم کہ غربت کیا ہوتی ہے؟ چند دن پہلے پیپلز پارٹی کے رہنما مخدوم احمد محمود نے عوام کو کہا تھا کہ پٹرول کی قیمت 500 روپے لیٹر اور بجلی 100 روپے فی یونٹ کر دی جائے ۔ سوال یہی ہے کہ ان لوگوں کو کیا معلوم کہ غربت کیا ہوتی ہے؟ ۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ غربت اور بیروزگاری کے خاتمے کی صرف باتیں ہوتی ہیں، عام آدمی کی تنخواہ میں اضافے کی بات نہیں کی جاتی۔ آٹے کے بحران نے غریبوں سے دو وقت کی روٹی چھین لی ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ مہنگائی، غربت اور بیروزگاری سے غریب عوام زندہ درگور ہو چکے ہیںمگر سیاستدانوں کو اقتدار کی جنگ سے فرصت نہیں۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے ، مگر حیرت انگیز امر یہ ہے کہ ایک عرصے سے ملک بھر میں سبزیوں کی پیداوار وافر ہونے کے باوجود ان کے برخ بڑھتے چلے جا رہے ہیں ان کو کنٹرول کیلئے اقدامات نہیں کئے جا رہے ۔ یہ حقیقت ہے مفاد پرست سیاستدانوں کی اقتدار کی جنگ میں فریبی سیاست آگے اور ریاست پیچھے رہ گئی ہے، ملک و قوم کیلئے کوئی نہیں سوچ رہا، کہنے کو سب کہتے ہیں کہ اتفاق و اتحاد کی ضرورت ہے مگر سب سیاستدان اتحاد کو پارہ پارہ کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے اتحاد کی ضرورت پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ معاشی خود مختاری کے بغیر آزادی نہ مکمل ہے۔اب سوال یہ ہے کہ معاشی خود مختاری کہاں سے آئے گی؟ جب ملک بھاری قرضوں میں جکڑا ہوا ہے اور آئی ایم ایف کی مرضی کے بغیر پاکستانی معیشت کو سانس لینے کی بھی اجازت نہیں ۔ 1960ء کے عشرے میں پاکستان جن ملکوں کو قرض دیتا تھا آج اُن کا دست نگر بنا ہوا ہے۔ رہی سہی کسر نام نہاد جمہوریت کے دعویداروں نے پوری کی۔ کسی نے بھی ملک و قوم کیلئے نہیں سوچا، سب نے اپنے اپنے مفادات کو دیکھا۔ ہمارے ملک کی یہ بھی بدقسمتی ہے کہ سیاستدانوں کا تعلق اشرافیہ سے ہے، حکمرانوں کو کیا علم بیروزگاری اور مہنگائی کا غریب طبقات پر کیا اثر پڑتا ہے؟ ۔ اگر بچت کرنا چاہتے ہیں تو سرکاری افسران کو اس بات کا پابند کرنا ہوگا کہ وہ وسائل کا بے دریغ اور غلط استعمال نہ کریں۔ مشکل کا پتہ کرنا ہے تو میرے سرائیکی وسیب میں آ کر اس کسان سے پوچھئے جو مہنگی کھاد، بیج اور زرعی ادویات سود پر حاصل کرکے کاشتکاری کرتا ہے ، نہری پانی کی پہلے ہی قلت ہے، اب ذرا سوچئے کہ مہنگے ڈیزل اور مہنگی بجلی سے کس طرح زمینوں کو سیراب کرے گا؟، یقینا زرعی پیداوار میں کمی ہو گی جو کہ ملکی معیشت کیلئے تباہی کا باعث ہے، حکمرانوں کو اس اہم مسئلے پر سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ یہ منطق درست نہیں کہ دنیا بھر میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے، حکومت کو شاید اس بات کا علم نہیں کہ مہذب دنیا میں کہیں ایسی مثال نہیں ملتی کہ عوام پر مہنگائی کا بوجھ ڈالنے والے حکام خود مفت سہولتوں سے لطف اندوز ہوتے رہیں۔

 

 

 

 

 

 

 

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author