نومبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

47ء کے فسادات: کیا لیاقت علی سازش سے باخبر تھے؟۔۔۔|| وجاہت مسعود

اعلیٰ افسروں میں رذالت کی یہ واحد مثال نہ تھی اوروں کو بھی دیکھا کہ پرانے جاننے والوں کو گھر سے نکالا اور ان کے گھر اور مال و دولت اس طرح ہضم کر گئے کہ ڈکار نہ لی۔ ہر طرف بربریت کا وہ منظر تھا کہ مجھے اپنے مسلمان ہونے پر شرم آنے لگی۔

وجاہت مسعود

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مشتاق احمد وجدی اکبر الہ آبادی کے خانوادے سے تعلق رکھتے تھے۔ تقسیم ہند کے دوران ریلوے میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ بعد ازاں پاکستان میں آڈیٹر جنرل اور کمپٹرولر جنرل کے عہدوں پر بھی فائز رہے ۔ اپنی خود نوشت “ہنگاموں میں زندگی” میں مشتاق احمد وجدی لکھتے ہیں :

“انہی ایام میں سردار شوکت حیات نے مجھے طلب کیا اور کہا کہ سخت فسادات ہونے والے ہیں۔ ان کے لیے ہتھیار جمع کرنے ضروری ہیں۔ یہ صوبہ سرحد سے آئیں گے۔ لیکن ریلوے سٹاف کی مدد ضروری ہے۔ میں نے لائن سٹاف کے مسلمانوں کو جمع کیا۔ سب نے انتہائی مستعدی کا اظہار کیا اور قسم کھائی کہ اس کام میں جیل جانا تو کیا جان بھی دینی پڑے تو ثابت قدم رہیں گے۔ کمیٹی بنی، فرائض تقسیم ہوئے۔ میں نے حاضر ہو کر سردار شوکت حیات کو تفصیل بتائی۔ انہوں نے کہا فوراً دلی جاﺅ اور لیاقت علی خاں صاحب کو بتاﺅ۔ میں دوسرے ہی دن دلی پہنچا۔ لیاقت علی خاں اس وقت کانگریس اور مسلم لیگ کی مخلوط وزارت میں وزیرِ خزانہ تھے۔ غالباً میرے آنے کی اطلاع ان کو پہلے سے تھی۔ کارڈ ملتے ہی فوراً طلب کیا۔ غور سے تفصیلات سنیں۔ مزید ہدایات کا وعدہ کیا اور اخفائے راز کی تاکید کی۔ اسی زمانے میں وزارتِ خزانہ میں میرا تقرر بحیثیت ڈپٹی سیکرٹری کے ہو گیا۔ اور میں لاہور سے دلی چلا گیا۔ معلوم نہیں میری بنائی ہوئی تنظیم کہاں تک مفید رہی۔ بعد میں وسیع پیمانے پر جو کشت و خون ہوئے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس نے کچھ نہ کچھ ضرور مدد کی ہو گی۔۔۔“

۔۔۔۔میرے لاہور واپس پہنچنے کے بعد ہی مغربی پاکستان میں فسادات شروع ہو گئے۔ ہندوؤں اور سکھوں نے بھاگنا شروع کیا۔ مسلمان کہتے تھے کہ سکھوں اور ہندوﺅں نے لڑائی شروع کی۔ ہندو کہتے تھے کہ مسلمانوں نے۔ حقیقت اللہ ہی جانتا ہے یا ان چند لوگوں کو معلوم ہو گی جنھوں نے اس کا انتظام کیا تھا۔ عورتیں، بچے، بوڑھے بلاتمیز مارے جانے لگے۔ ہر طرف اور ہر شہر میں قتلِ عام تھا۔ مشرقی پنجاب سے خبر آئی کہ ایک ٹرین کے مسافروں کو قتل کر دیا گیا ہے۔ فوراً ہی گوجرانوالہ میں ہندوؤں اور سکھوں سے بھری ہوئی ٹرین صاف کر دی گئی۔ جواب در جواب کا لامتناہی سلسلہ تھا جو ختم ہی نہ ہوتا تھا۔ دفتر سے نکلنے میں دیر ہو جاتی۔ باہر آتا تو آسمان ہندوؤں کے جلتے ہوئے مکانوں سے سُرخ نظر آتا۔ مشرقی پنجاب سے مسلمانوں کے قافلے کے قافلے راستے میں مرتے مردوں کو دفناتے بھاگتے چلے آ رہے تھے۔ پاکستان پہنچ کر نیم مرد،ہ زمین پر گر پڑتے۔ ادھر ہندوﺅں کے قافلے بھاگ رہے تھے۔ دونوں کی راہیں بند تھیں۔ باﺅنڈری فورس بجائے حفاظت کرنے کے ان پر گولیاں چلاتی تھیں۔ اسٹیشن پر فوج تعینات تھی۔ میں خزانے کی دیکھ بھال کے لیے کئی بار وہاں جاتا۔ صرف ایک دن میں آدھے گھنٹے کے اندر اکتالیس آدمیوں کو جان بچانے کی فکر میں بھاگتے ہوئے گولی کھاتے دیکھا۔ ان کی لاشیں کھینچ کر ایک طرف پھینک دی جاتیں۔ میرا دل تڑپتا کہ ان کو کیسے بچاﺅں۔ لیکن بے بس اور لاچار تھا۔ بعض فوجیوں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ مسلمان کی شان کے خلاف ہے کہ نہتوں پر جو جان بچانے کے لیے بھاگ رہے ہوں گولی چلائی جائے۔ میری کون سنتا۔ میں فوجی افسر نہیں تھا۔ سپاہی مجھ سے بات کرنے کو بھی تیار نہ تھے۔ بعض کو تڑپتے دیکھا۔ پاس گیا ایک سکھ دھیرے دھیرے پانی مانگ رہا تھا۔ میں بھاگا بھاگا دفتر گیا اور ایک گلاس میں پانی لایا۔ قبل اس کے کہ اس کے حلق سے پانی اترے اس کی آنکھیں پتھرا گئیں۔

قائد اعظم کا اعلان تھا کہ غیر مسلم پاکستان میں حفاظت سے رہیں گے۔ حساب کے محکمے میں ان کی سخت ضرورت تھی کچھ لوگ میرے وعدوں اور میری یقین دہانی پر اعتبار کر کے رُکے رہے۔ سب عورتوں اور بچوں سمیت قتل ہوئے۔ صرف دو کی جانیں بچانے میں کامیاب ہوا۔ ایک نے اپنے بچوں کو اپنے سامنے قتل ہوتے دیکھا اور کسی طرح بھاگ کر مجھ تک پہنچا۔ میں نے اپنے کمرے میں اس کو اس وقت تک رکھا جب تک امرتسر جانے والی گاڑی تیار نہ ہو گئی۔ پھر خود اس میں بٹھا کر واپس آیا۔ دوسرے صاحب ریلوے کے ایک اہم عہدے پر فائز تھے۔ ایک دن پانچ بجے صبح ٹیلیفون کیا کہ گھر میں لوگ گھس آئے ہیں۔ میں فوراً پہنچا۔ دیکھا کہ لوگ گھر لوٹنے میں مصروف ہیں۔ یہ ریلوے ہی کے ملازمین تھے۔ سب مجھے جانتے تھے۔ کسی کو ڈانٹا، کسی کو سمجھایا۔ لوگ چلے گئے۔ میں نے کسی طرح ایک پولیس کانسٹیبل کا انتظام کیا اور اس کی ڈیوٹی لگا کر واپس ہوا۔ میری پیٹھ پھرنی تھی کہ کانسٹیبل ٹہلتا ہوا دوسری طرف چلا گیا۔

ابھی گھر پہنچا ہی تھا کہ ٹیلیفون دوبارہ بجنا شروع ہوا۔ معلوم ہوا کہ کانسٹیبل غائب ہے اور لوٹ مار کرنے والے پھر گھس آئے ہیں۔ میں واپس گیا۔ مجھے دیکھتے ہی لوگ منتشر ہو گئے۔ لیکن ان صاحب نے میری منت کی کہ اب مجھے یہاں اکیلا نہ چھوڑئیے۔ گھر لٹتا ہے لٹ جائے۔ میری جان بچائیے۔ میں ان کو اپنے ساتھ لے آیا۔ میرا اپنا گھر نہ تھا۔ ایک عزیز دوست اور اعلیٰ افسر کے ساتھ ٹھہرا ہوا تھا۔ میرے دوست نے اس غریب کو دیکھا یہ ان کا بھی پُرانا دوست تھا۔ پھر بھی ایک 22 بور کی رائفل نکال لائے اور اس کے سامنے نشانہ بازی کی مشق شروع کی۔ گو اس رائفل کی آواز چنداں زور کی نہ تھی۔ پھر بھی جتنی دفعہ چھوٹتی غریب پناہ گزین کا چہرہ زرد ہو جاتا۔ میرے دوست نے مجھے بلا کر کہا کہ اس کی جیب میں روپے بھرے ہوئے ہیں۔ اس سے کہہ دو کہ رکھ دے۔ مارنے پیٹنے کی ضرورت نہ ہو گی۔ ایک اشارہ کافی ہے۔ میں نے کہا کہ مروت اس کی اجازت نہیں دیتی۔ فرمایا کہ دوسری طرف چلے جاﺅ میں خود ہی سمجھ لوں گا۔ میں نے کہا آپ کے ہاتھ میں رائفل ہے پہلے میرا خاتمہ کیجیے پھر روپے پر قبضہ کیجیے۔ اس پر میرے دوست چپ ہو گئے۔ اب مجھے جُرات نہ تھی کہ پناہ گزین کو چھوڑ کر غسل خانے بھی جاﺅں۔ آخر اپے ساتھ کار میں بٹھا کر ریل پر سوار کر آیا۔

اعلیٰ افسروں میں رذالت کی یہ واحد مثال نہ تھی اوروں کو بھی دیکھا کہ پرانے جاننے والوں کو گھر سے نکالا اور ان کے گھر اور مال و دولت اس طرح ہضم کر گئے کہ ڈکار نہ لی۔ ہر طرف بربریت کا وہ منظر تھا کہ مجھے اپنے مسلمان ہونے پر شرم آنے لگی۔ اس میں شک نہیں کہ مشرقی پنجاب اور ہندوستان کے دوسرے حصوں میں بھی یہی بربریت جاری تھی۔ اسی طرح مسلمان عورتیں، بچے ، بوڑھے اور نہتے قتل ہو رہے تھے۔ لیکن من از بے گانگان ہرگز نہ نالم۔ سکھ ایک وحشی قوم ہے۔ جس کو ایک مسلمان بادشاہ نے چند خدمات کے عوض پنجاب کی حکومت انعام میں دے دی تھی۔ اس سے ان کے جنگلی ہونے میں نہ فرق آیا نہ آ سکتا تھا۔ ہندو کافر قوم ہے ان کے پاس نہ اللہ کے احکام نہ رسول اللہ کی سُنت اور نہ رسول کے خلفاءکی روایتیں۔ ہزار برس کی غلامی نے ان کے دلوں میں نفرت اور عداوت کے سوا کسی چیز کی گنجائش نہیں چھوڑی۔ لیکن مسلمانوں کو کیا ہوا تھا کہ اپے فرائض اور اپنی روایات کو بھول کر درندگی پر اُتر آئے۔ خلیفہ اول نے غیر ممالک کے خلاف پہلی فوج بھیجی تو تاکید کی کہ خیانت نہ کرنا، بدعہدی نہ کرنا، چوری نہ کرنا، مقتولوں کے اعضا نہ کاٹنا۔ بچے بوڑھے اور عورت کو قتل نہ کرنا۔ مسلمان ہمیشہ اس پر قائم رہے۔ صلیبی جنگوں میں عیسائی کسی شہر کو فتح کرتے تو کسی بچے بوڑھے اور کسی عورت کو زندہ نہ چھوڑتے۔ لیکن مسلمان جب کوئی شہر فتح کرتے تو اپنے مقتول اور ظلم رسیدہ بچوں اور عورتوں کا انتقام مفتوحہ علاقہ کے بچوں، بوڑھوں اور عورتوں سے نہ لیتے۔

(اقتباس: ہنگاموں میں زندگی اشاعت اول اپریل 1974، اشاعت دوم جنوری 1980)

یہ بھی پڑھیے:

منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود

ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود

وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود

اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود

وجاہت مسعود کی مزید تحریریں پڑھیں

About The Author