محمد عامر خاکوانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھیلوں کو پسند کرنے والے بے شمار دوسرے لوگوں کی طرح میرے لئے بھی میچز کے بعض لمحات بڑے مسحورکن اور کبھی نہ بھولنے والے ہوتے ہیں۔ہم پاکستانی سپورٹس لور ز سے مراد کرکٹ سے محبت کرنے والے ہی لیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اب یہی ہمارا قومی کھیل لگاہے۔ گلی گلی ، محلے محلے میں بچے بالے، لڑکے، نوجوان کرکٹ ہی کھیلتے ہیں۔ جہاں کہیںخوش قسمتی سے گراﺅنڈ دستیاب ہیں ، وہاں ہارڈ بال اور باقی جگہوں پر ٹیپ ٹینس بال سے کرکٹ کھیلی جاتی ہے۔رمضان میں فلڈ لائٹس لگا کر ٹورنامنٹ کرانا عام ہے۔ ٹیپ بال کے لئے پچ ضروری نہیں، گھاس پر بھی کھیلی جاتی ہے، سٹرک کو پچ بنا کر بھی کام چلا لیاکرتے ہیں۔
بھلے وقتوں میں ہاکی بھی کھیلی جاتی تھی۔ قومی کھیل ہونے کے ناتے اسے عزت حاصل رہی ۔مجھے یاد ہے کہ ہمارے سکول کی ہاکی ٹیم تھی اور تب ہر روز سکول کے گراﺅنڈ میں ہاکی کھیلی جاتی۔ ہمارے چھوٹے سے شہر احمد پورشرقیہ میں ہاکی کے دو کلب تھے۔، ان میں مسابقت بھی تھی ، مقابلہ رہتا، دوسرے شہروں سے ٹیمیں بھی آیا کرتیں۔ تب قومی ہاکی ٹیم کے میچز بھی بڑے جاندار اور سنسنی خیز ہوتے تھے۔ میری عمرکے لوگوں نے اسی کے عشرے اور پھر نوے کے اوائل برسوں میں ہاکی کے شاندار میچز دیکھے۔ پاکستان نے 1982کا ورلڈ کپ جیتا تھا، تب اختر رسول کپتان تھے، وہی جو بعد میں سیاست میں آئے ، رکن اسمبلی بنے اور پھر ن لیگی کارکنوں کو لے کر سپریم کورٹ بلڈنگ پر حملہ کے الزام میں کئی برسوں تک سیاست سے نااہل بھی رہے۔
پاکستانی ہاکی ٹیم تب کمال کی تھی، سنٹرفارورڈحسن سردار، رائیٹ آﺅٹ کلیم اللہ، رائٹ ان منظور جونیئر،لیفٹ ان حنیف خان، لیفٹ آﺅٹ سمیع اللہ جنہیںان کی سپیڈ کی وجہ سے فلائنگ ہارس کہا جاتا تھا۔ اختر رسول سنٹرہاف تھے جبکہ منورالزماں اور منظورالحسن یعنی منظور سینئر فل بیک ۔مجھے بیاسی ورلڈ کپ زیادہ یاد نہیں ،تب نودس سال عمر ہوگی،البتہ 84ءکا لاس اینجلس اولمپک نسبتاً بہتریاد ہے جس میں پاکستان نے ہاکی میں گولڈ میڈل جیتا تھا۔ اس میں سب سے زیادہ گول حسن سردار نے کئے تھے ، مجھے فائنل میں ان کا ڈائیو لگا کر کیا گول یاد ہے۔
میرا خیال ہے کہ سمیع اللہ لاس اینجلس اولمپک میں نہیں تھے، شائد تب ریٹائر ہوگئے ۔ اسی طرح حسن سردار سے پہلے بڑے مایہ ناز سنٹرفارورڈ شہناز شیخ تھے ، وہ بھی ریٹائر ہوئے۔ بیاسی ورلڈ کپ کے بعد منورالزماں بھی چلے گئے تھے، منظور سینئر نے البتہ ریٹائرمنٹ واپس لے لی تھی۔ اسی ٹیم میں کچھ تبدیلیاں ہوئی تھیں یا پتہ نہیں کیا ہوا کہ صرف دو سال بعدایشین گیمز اور86 ورلڈ کپ میں نہایت بری کارکردگی آئی۔ اس پر انہی دنوں پی ٹی وی ایوارڈ شو میں خالد عباس ڈار نے بہت مزے کا خاکہ پیش کیا تھا، جس میں حسن سردار اور قومی ہاکی ٹیم کا مذاق اڑایا ۔حسن سردار ایشین گیمز سے پہلے شائد ان فٹ ہوگئے تھے۔ ٹیم کے ساتھ نہ گئے مگر لندن ورلڈ کپ کھیلا۔ ڈار نے گانا بنایا تھا: اسی کھیڈنا نہیں کوریا دے نال ، دل وچ لندن بسا اے ….۔
انہی دنوں حسینہ معین کا بہت مقبول ٹی وی ڈرامہ تنہائیاں پی ٹی وی سے نشر ہوا تھا،اس میں بہروز سبز واری (قباچہ)،شہباز شیخ، مرینہ خان اور آصف رضا میر کے کردار بہت مقبول ہوئے تھے۔تنہائیاں ڈرامے کا اپنا کریز تھا۔ مرینہ خان اسی ڈرامے سے سٹار بن گئی تھیں۔ پی ٹی وی ایوارڈ تقریب میں مرینہ ٹی وی کیمروں کا مرکز بنی موجود تھیں ، خالد عباس ڈار کی کامیڈی پرہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوئے انہیں بار بار دکھایا جاتا رہا۔ خیر یہ تو جملہ معترضہ آگیا۔ہاکی کے کھلاڑی بہرحال تب مقبول تھے اور سیلریبٹی (Celibirity)شمار ہوتے تھے۔ہاکی کا زوال مگر شروع ہوچکا تھا۔ بلندی سے نیچے کی طرف پھسلتا ہوا ایسا سفر جو پھر رکا نہیں ۔ درمیان میں ایک دو وقفے ضرور آئے۔ پاکستان نے 1994کا ورلڈ کپ جیت لیا ، ایک آدھ چیمپئنز ٹرافی میں بھی کارکردگی بہت اچھی رہی۔ شہباز سینئر ہمارے آخری سٹار فارورڈ تھے، جنہوں نے اپنی شاندار ڈاجنگ، ڈربلنگ اور خوبصورت کھیل سے اپنی فین شپ بنائی۔ ہاکی ٹیم کے کپتان تب ہاف بیک قاضی محب تھے۔
قاضی محب کینسر کی وجہ سے جلد چلے گئے۔ اچھے کھلاڑی تھے، وہ جب بھی اوپر آ کر کھیلتے فرق ڈال دیتے۔ قاضی کی ایک خاص بات ان کے باڈی ڈاج پاسز اور ہٹ تھی، وہ بڑی خوبصورتی سے آخری لمحے میں رخ بدلتے اور ایسی جگہ پاس دیتے جس کا مخالف دفاعی کھلاڑی اندازہ بھی نہیں لگا رہا ہوتا۔ چورانوے کے ورلڈ کپ میں غیر معمولی کارکردگی دکھانے والے پاکستانی گول کیپر منصور علی خان تھے، فائنل میں پنالٹی ککس پر پاکستان جیتا ، منصور نے اہم پنالٹی روکی تب جیت ممکن ہو پائی۔
پاکستانی ہاکی ٹیم کے لئے غیر معمولی کارکردگی دکھانے والے آخری کھلاڑی سہیل عباس تھے۔ یہ فل بیک کھیلتے ،مگر پنالٹی کارنر بہت اچھا لگاتے تھے۔ سہیل کی ہٹ بڑی زوردار تھی اور سکوپ بھی بہت تیز اور جاندار ۔ سہیل عباس نے تین سو سے زیادہ گول کر کے ریکارڈ بنایا تھا، پاکستان کو بہت سے میچ اس نے جتوائے، مگر وہ ہاکی کا زوال کا وقت تھا، مجموعی کارکردگی متاثرکن نہیں تھی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ فارورڈز تمام تر کوشش پنالٹی کارنر لینے کی کرتے تاکہ سہیل عباس گول کرے۔ سہیل عباس کا کیرئر اگر دس بارہ سال پہلے شروع ہوتا، وہ اگر 80ءکے عشرے میں ہاکی ٹیم میں کھیلتے تو سپرسٹار ہوتے اور شائد انہیں بہت زیادہ شہرت ملتی۔ سہیل ایک کمزور اور ماٹھی ٹیم کے تگڑے کھلاڑی تھے، مگر ٹیم کی کمزوری اور اس وجہ سے شائقین کی عدم دلچسپی ان پر بھی اثرانداز ہوئی۔ پچھلے دنوں کسی ٹی وی شو میں آئے تو شکوہ کیا کہ میں نے ملک کے لئے سینکڑوں گول کئے، اتنے میچ جتوائے، مگر مجھے کوئی جانتا، پہچانتا ہی نہیں۔
سہیل عباس کا شکوہ اپنی جگہ درست ہے، مگر یہ قدرت کے بے رحم، فکس اصول ہیں۔ سمجھ میں نہ آنے والا گورکھ دھندا، کوئی ایسا سسٹم جس کی کلید یا پاسورڈ ہمارے پاس نہیں۔بعض لوگ اپنے زمانے سے کچھ پہلے اور بعض بعد میں پیدا ہوجاتے ہیں۔تب وہ مس فٹ رہتے ہیں یا اپنے حصے سے کم شیئر پاتے ہیں۔اگر معاملہ الٹ ہوتا تو شائد وہ تہلکہ مچا دیتے۔ سمیع اللہ، حسن سردار، اصلاح الدین ، منظور سینئر وغیر ہ میں سے کوئی اگر آج ہاکی ٹیم میں ہوتے یا دس سال پہلے آتے تو شائدا ن کا نام ہی نہ بن پاتا۔
کرکٹ میں بھی یہی معاملہ ہے۔ پاکستانی کرکٹ میں بعض ایسے کھلاڑی تھے جو آج کی ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کے لئے فٹ تھے ، اپنی تیز، جارحانہ ، بے باک کرکٹ کی وجہ سے۔ بدقسمتی سے وہ سلو ٹیسٹ کرکٹ کے دور میں آئے ، جب ون ڈے فارمیٹ بھی ٹیسٹ سے ملتا جلتا تھا۔ مس فٹ ہونے کی وجہ سے یہ آﺅٹ ہوگئے۔عظمت رانا ایسے ہی ہارڈ ہٹر بلے باز تھے، انہیں ایک آدھ میچ ہی ملا، وہ بڑے بلند وبالا چھکے لگاتے تھے ۔ ظہور الٰہی ٹی ٹوئنٹی کے حساب سے بڑے فٹ آل راﺅنڈر تھے، چھکے چوکوں کی بارش کرنے والے اور عبدالرزاق کی طرح کے میڈیم پیسر۔ظہورالٰہی کی اپنے دور میں جگہ ہی نہ بن پائی۔ اس کے برعکس اظہر علی کلاسیکل سلو ٹیسٹ کرکٹ کے کھلاڑی تھے۔ اپنے زمانے سے دس سال بعد آئے ، جب ون ڈے کا مزاج بھی بدل چکا تھا اور ٹی ٹوئنٹی کرکٹ بھی مقبول ہوگئی۔ اظہر علی پہلے ٹی ٹوئنٹی سے اور پھر ون ڈے سے باہر ہوئے، بتدریج ٹیسٹ کرکٹ سے بھی جلد ریٹائر ہونا پڑا۔ اگر وہ صرف چند سال پہلے قومی ٹیم میں آتے تو شائد ان کے ریکارڈز بہتر ہوتے اور کارکردگی بھی۔
بابر اعظم جدید کرکٹ کے کھلاڑی ہیں، ورلڈ کلا س بلے باز۔ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں بھی ان کی کارکردگی بہت اچھی ہے۔ بابر مگر اصلاً ون ڈے فارمیٹ کے کھلاڑی ہیں، ان کی ون ڈے میں کارکردگی بھی غیر معمولی ہے، تیز ترین پانچ ہزار رنز، تیز ترین سولہ سنچریاں وغیرہ۔ بدقسمتی سے پچھلے دو تین برسوں سے ون ڈے میچز ہی بہت کم ہوگئے ہیں۔ بابرکا ڈیبیوغالباً 2017 کا ہے۔ فرض کریں وہ صرف پانچ سات سال پہلے ون ڈے کرکٹ کھیلنا شروع کر دیتے تو اب تک پچیس تیس سنچریاں بنا چکے ہوتے، کوہلی سے زیادہ ریکارڈ ان کے ہوتے۔ خیر بابر چونکہ اعلیٰ کلاس کے کھلاڑی ہیں، اس لئے جدید تقاضوں کے مطابق خود کو ایڈ جسٹ کر ہی لیا ہے،مگر ون ڈے کرکٹ کے رنگ اب ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کے آگے مدھم پڑ گئے ہیں۔
ہم نے صرف کھیلوں پر بات کی ہے، دیگر شعبوں کو بھی اس زاویے سے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ کوئی عجیب وغریب معاملہ ہے۔ کچھ سمجھا، کہا نہیں جا سکتا۔ کچھ چیزیں معلوم اور سامنے ہیں ، ایک آدھ فیکٹر نامعلوم اور غیر محسوس ہے۔ یہی اگر مسنگ ہو تو چیزیں گڑ بڑ اور نتائج مختلف آ جاتے ہیں۔ اچھی یا بری قسمت کا تعلق بھی شائد اسی سے جڑا ہو؟
بھلے وقتوں میں ہاکی بھی کھیلی جاتی تھی۔ قومی کھیل ہونے کے ناتے اسے عزت حاصل رہی ۔مجھے یاد ہے کہ ہمارے سکول کی ہاکی ٹیم تھی اور تب ہر روز سکول کے گراﺅنڈ میں ہاکی کھیلی جاتی۔ ہمارے چھوٹے سے شہر احمد پورشرقیہ میں ہاکی کے دو کلب تھے۔، ان میں مسابقت بھی تھی ، مقابلہ رہتا، دوسرے شہروں سے ٹیمیں بھی آیا کرتیں۔ تب قومی ہاکی ٹیم کے میچز بھی بڑے جاندار اور سنسنی خیز ہوتے تھے۔ میری عمرکے لوگوں نے اسی کے عشرے اور پھر نوے کے اوائل برسوں میں ہاکی کے شاندار میچز دیکھے۔ پاکستان نے 1982کا ورلڈ کپ جیتا تھا، تب اختر رسول کپتان تھے، وہی جو بعد میں سیاست میں آئے ، رکن اسمبلی بنے اور پھر ن لیگی کارکنوں کو لے کر سپریم کورٹ بلڈنگ پر حملہ کے الزام میں کئی برسوں تک سیاست سے نااہل بھی رہے۔
پاکستانی ہاکی ٹیم تب کمال کی تھی، سنٹرفارورڈحسن سردار، رائیٹ آﺅٹ کلیم اللہ، رائٹ ان منظور جونیئر،لیفٹ ان حنیف خان، لیفٹ آﺅٹ سمیع اللہ جنہیںان کی سپیڈ کی وجہ سے فلائنگ ہارس کہا جاتا تھا۔ اختر رسول سنٹرہاف تھے جبکہ منورالزماں اور منظورالحسن یعنی منظور سینئر فل بیک ۔مجھے بیاسی ورلڈ کپ زیادہ یاد نہیں ،تب نودس سال عمر ہوگی،البتہ 84ءکا لاس اینجلس اولمپک نسبتاً بہتریاد ہے جس میں پاکستان نے ہاکی میں گولڈ میڈل جیتا تھا۔ اس میں سب سے زیادہ گول حسن سردار نے کئے تھے ، مجھے فائنل میں ان کا ڈائیو لگا کر کیا گول یاد ہے۔
میرا خیال ہے کہ سمیع اللہ لاس اینجلس اولمپک میں نہیں تھے، شائد تب ریٹائر ہوگئے ۔ اسی طرح حسن سردار سے پہلے بڑے مایہ ناز سنٹرفارورڈ شہناز شیخ تھے ، وہ بھی ریٹائر ہوئے۔ بیاسی ورلڈ کپ کے بعد منورالزماں بھی چلے گئے تھے، منظور سینئر نے البتہ ریٹائرمنٹ واپس لے لی تھی۔ اسی ٹیم میں کچھ تبدیلیاں ہوئی تھیں یا پتہ نہیں کیا ہوا کہ صرف دو سال بعدایشین گیمز اور86 ورلڈ کپ میں نہایت بری کارکردگی آئی۔ اس پر انہی دنوں پی ٹی وی ایوارڈ شو میں خالد عباس ڈار نے بہت مزے کا خاکہ پیش کیا تھا، جس میں حسن سردار اور قومی ہاکی ٹیم کا مذاق اڑایا ۔حسن سردار ایشین گیمز سے پہلے شائد ان فٹ ہوگئے تھے۔ ٹیم کے ساتھ نہ گئے مگر لندن ورلڈ کپ کھیلا۔ ڈار نے گانا بنایا تھا: اسی کھیڈنا نہیں کوریا دے نال ، دل وچ لندن بسا اے ….۔
انہی دنوں حسینہ معین کا بہت مقبول ٹی وی ڈرامہ تنہائیاں پی ٹی وی سے نشر ہوا تھا،اس میں بہروز سبز واری (قباچہ)،شہباز شیخ، مرینہ خان اور آصف رضا میر کے کردار بہت مقبول ہوئے تھے۔تنہائیاں ڈرامے کا اپنا کریز تھا۔ مرینہ خان اسی ڈرامے سے سٹار بن گئی تھیں۔ پی ٹی وی ایوارڈ تقریب میں مرینہ ٹی وی کیمروں کا مرکز بنی موجود تھیں ، خالد عباس ڈار کی کامیڈی پرہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوئے انہیں بار بار دکھایا جاتا رہا۔ خیر یہ تو جملہ معترضہ آگیا۔ہاکی کے کھلاڑی بہرحال تب مقبول تھے اور سیلریبٹی (Celibirity)شمار ہوتے تھے۔ہاکی کا زوال مگر شروع ہوچکا تھا۔ بلندی سے نیچے کی طرف پھسلتا ہوا ایسا سفر جو پھر رکا نہیں ۔ درمیان میں ایک دو وقفے ضرور آئے۔ پاکستان نے 1994کا ورلڈ کپ جیت لیا ، ایک آدھ چیمپئنز ٹرافی میں بھی کارکردگی بہت اچھی رہی۔ شہباز سینئر ہمارے آخری سٹار فارورڈ تھے، جنہوں نے اپنی شاندار ڈاجنگ، ڈربلنگ اور خوبصورت کھیل سے اپنی فین شپ بنائی۔ ہاکی ٹیم کے کپتان تب ہاف بیک قاضی محب تھے۔
قاضی محب کینسر کی وجہ سے جلد چلے گئے۔ اچھے کھلاڑی تھے، وہ جب بھی اوپر آ کر کھیلتے فرق ڈال دیتے۔ قاضی کی ایک خاص بات ان کے باڈی ڈاج پاسز اور ہٹ تھی، وہ بڑی خوبصورتی سے آخری لمحے میں رخ بدلتے اور ایسی جگہ پاس دیتے جس کا مخالف دفاعی کھلاڑی اندازہ بھی نہیں لگا رہا ہوتا۔ چورانوے کے ورلڈ کپ میں غیر معمولی کارکردگی دکھانے والے پاکستانی گول کیپر منصور علی خان تھے، فائنل میں پنالٹی ککس پر پاکستان جیتا ، منصور نے اہم پنالٹی روکی تب جیت ممکن ہو پائی۔
پاکستانی ہاکی ٹیم کے لئے غیر معمولی کارکردگی دکھانے والے آخری کھلاڑی سہیل عباس تھے۔ یہ فل بیک کھیلتے ،مگر پنالٹی کارنر بہت اچھا لگاتے تھے۔ سہیل کی ہٹ بڑی زوردار تھی اور سکوپ بھی بہت تیز اور جاندار ۔ سہیل عباس نے تین سو سے زیادہ گول کر کے ریکارڈ بنایا تھا، پاکستان کو بہت سے میچ اس نے جتوائے، مگر وہ ہاکی کا زوال کا وقت تھا، مجموعی کارکردگی متاثرکن نہیں تھی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ فارورڈز تمام تر کوشش پنالٹی کارنر لینے کی کرتے تاکہ سہیل عباس گول کرے۔ سہیل عباس کا کیرئر اگر دس بارہ سال پہلے شروع ہوتا، وہ اگر 80ءکے عشرے میں ہاکی ٹیم میں کھیلتے تو سپرسٹار ہوتے اور شائد انہیں بہت زیادہ شہرت ملتی۔ سہیل ایک کمزور اور ماٹھی ٹیم کے تگڑے کھلاڑی تھے، مگر ٹیم کی کمزوری اور اس وجہ سے شائقین کی عدم دلچسپی ان پر بھی اثرانداز ہوئی۔ پچھلے دنوں کسی ٹی وی شو میں آئے تو شکوہ کیا کہ میں نے ملک کے لئے سینکڑوں گول کئے، اتنے میچ جتوائے، مگر مجھے کوئی جانتا، پہچانتا ہی نہیں۔
سہیل عباس کا شکوہ اپنی جگہ درست ہے، مگر یہ قدرت کے بے رحم، فکس اصول ہیں۔ سمجھ میں نہ آنے والا گورکھ دھندا، کوئی ایسا سسٹم جس کی کلید یا پاسورڈ ہمارے پاس نہیں۔بعض لوگ اپنے زمانے سے کچھ پہلے اور بعض بعد میں پیدا ہوجاتے ہیں۔تب وہ مس فٹ رہتے ہیں یا اپنے حصے سے کم شیئر پاتے ہیں۔اگر معاملہ الٹ ہوتا تو شائد وہ تہلکہ مچا دیتے۔ سمیع اللہ، حسن سردار، اصلاح الدین ، منظور سینئر وغیر ہ میں سے کوئی اگر آج ہاکی ٹیم میں ہوتے یا دس سال پہلے آتے تو شائدا ن کا نام ہی نہ بن پاتا۔
کرکٹ میں بھی یہی معاملہ ہے۔ پاکستانی کرکٹ میں بعض ایسے کھلاڑی تھے جو آج کی ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کے لئے فٹ تھے ، اپنی تیز، جارحانہ ، بے باک کرکٹ کی وجہ سے۔ بدقسمتی سے وہ سلو ٹیسٹ کرکٹ کے دور میں آئے ، جب ون ڈے فارمیٹ بھی ٹیسٹ سے ملتا جلتا تھا۔ مس فٹ ہونے کی وجہ سے یہ آﺅٹ ہوگئے۔عظمت رانا ایسے ہی ہارڈ ہٹر بلے باز تھے، انہیں ایک آدھ میچ ہی ملا، وہ بڑے بلند وبالا چھکے لگاتے تھے ۔ ظہور الٰہی ٹی ٹوئنٹی کے حساب سے بڑے فٹ آل راﺅنڈر تھے، چھکے چوکوں کی بارش کرنے والے اور عبدالرزاق کی طرح کے میڈیم پیسر۔ظہورالٰہی کی اپنے دور میں جگہ ہی نہ بن پائی۔ اس کے برعکس اظہر علی کلاسیکل سلو ٹیسٹ کرکٹ کے کھلاڑی تھے۔ اپنے زمانے سے دس سال بعد آئے ، جب ون ڈے کا مزاج بھی بدل چکا تھا اور ٹی ٹوئنٹی کرکٹ بھی مقبول ہوگئی۔ اظہر علی پہلے ٹی ٹوئنٹی سے اور پھر ون ڈے سے باہر ہوئے، بتدریج ٹیسٹ کرکٹ سے بھی جلد ریٹائر ہونا پڑا۔ اگر وہ صرف چند سال پہلے قومی ٹیم میں آتے تو شائد ان کے ریکارڈز بہتر ہوتے اور کارکردگی بھی۔
بابر اعظم جدید کرکٹ کے کھلاڑی ہیں، ورلڈ کلا س بلے باز۔ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں بھی ان کی کارکردگی بہت اچھی ہے۔ بابر مگر اصلاً ون ڈے فارمیٹ کے کھلاڑی ہیں، ان کی ون ڈے میں کارکردگی بھی غیر معمولی ہے، تیز ترین پانچ ہزار رنز، تیز ترین سولہ سنچریاں وغیرہ۔ بدقسمتی سے پچھلے دو تین برسوں سے ون ڈے میچز ہی بہت کم ہوگئے ہیں۔ بابرکا ڈیبیوغالباً 2017 کا ہے۔ فرض کریں وہ صرف پانچ سات سال پہلے ون ڈے کرکٹ کھیلنا شروع کر دیتے تو اب تک پچیس تیس سنچریاں بنا چکے ہوتے، کوہلی سے زیادہ ریکارڈ ان کے ہوتے۔ خیر بابر چونکہ اعلیٰ کلاس کے کھلاڑی ہیں، اس لئے جدید تقاضوں کے مطابق خود کو ایڈ جسٹ کر ہی لیا ہے،مگر ون ڈے کرکٹ کے رنگ اب ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کے آگے مدھم پڑ گئے ہیں۔
ہم نے صرف کھیلوں پر بات کی ہے، دیگر شعبوں کو بھی اس زاویے سے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ کوئی عجیب وغریب معاملہ ہے۔ کچھ سمجھا، کہا نہیں جا سکتا۔ کچھ چیزیں معلوم اور سامنے ہیں ، ایک آدھ فیکٹر نامعلوم اور غیر محسوس ہے۔ یہی اگر مسنگ ہو تو چیزیں گڑ بڑ اور نتائج مختلف آ جاتے ہیں۔ اچھی یا بری قسمت کا تعلق بھی شائد اسی سے جڑا ہو؟
یہ بھی پڑھیے:
عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر