چودہ سال پہلے اسے ہفتے جب ذاکر مجید کو اغوا کر کے غائب کیا گیا تو اس کی بہن فرزانہ مجید (ایم فل بائیو کیمسٹری کی طالب علم) نے اپنی والدہ کو نہیں بتایا۔ ماں بیمار تھی سوچا پتا نہیں یہ صدمہ سہہ پائے گی یا نہیں۔
ساتھ شاید یہ امید بھی تھی جو ہر مسنگ پرسن کے عزیزوں کو پہلے چند دن ہوتی ہے کہ شاید ذاکر کو آج اٹھایا ہے تو کل واپس آ جائے، شاید ماں کو بتانا ہی نہ پڑے۔ ذاکر مجید واپس نہیں آیا۔ محلے میں ایک فوتگی ہو گئی، ماں کو افسوس کرنے جانا تھا فرزانہ نے سوچا اس سے پہلے کہ کوئی محلے والا بتا دے میں خود بتا دیتی ہوں۔
اس نے ماں کو بتایا، ماں روئی اور مصلے پر بیٹھ گئی۔ چار سال ہو گئے ہیں مصلے پر ہی بیٹھی ہوئی ہے۔ فرزانہ نے یہ بات مجھے کوئی نو سال پہلے ایک مسنگ پرسنز کے احتجاجی کیمپ میں بیٹھے ہوئے بتائی تھی۔
ذاکر مجید کے اغوا کو 14 سال ہو گئے اور اس کی ماں اب بھی مصلے پر بیٹھی ہوئی ہے۔ ان چودہ سالوں میں بشمول میرے کوئی صحافی، کوئی چیتا اینکر، کوئی نوخیز یوٹیوب چینل والا ذاکر کی والدہ تک یہ پوچھنے نہیں پہنچا کہ آپ کیسا محسوس کر رہی ہیں۔
کوئی ڈیڑھ سال پہلے ذاکر مجید کی والدہ نے اپنا مصلیٰ اٹھایا اور اسلام آباد پہنچ گئیں۔ بلوچی زبان میں کچھ باتیں کی جو نہ کسی ٹی وی چینل نے دکھائیں نہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں۔ انھوں نے کہا کہ لوگ اس ریاست کو گالیاں دیتے ہیں ہم گالیاں بھی نہیں دیتے بس التجا کرتے ہیں، انصاف مانگتے ہیں۔ ہمارا کلیجہ پھٹنے کو ہے ہمارے بچوں کو منظر عام پر لایا جائے، بازیاب کروایا جائے۔ ہم بہت اذیتیں سہہ کر یہاں تک پہنچے ہیں۔ میں شوگر کی مریض ہوں، دل گردے کی مریض ہوں۔ میرے گھر میں ذاکر کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔ اب میرے گھر کے دروازے پر تالا لگا ہے میں کسی اور کے گھر میں رہتی ہوں۔
ہمارے اداروں کو چاہیے کہ ہمارے دکھ درد سنیں۔ وہ بھی پاکستانی ہیں میں بھی پاکستانی ہوں۔ یہ مسلمانوں کا ملک ہے یہاں ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ مسلمانوں کے اس ملک کے دارالخلافہ میں اس بزرگ عورت کی درد بھری درخواست کسی نے نہیں سنی۔ وہ پھر واپس گھر جا کر مصلے پر بیٹھ گئی۔ اب اس کو مصلے پر بیٹھے چودہ سال پورے ہو گئے ہیں۔ پاکستان کے پینل کوڈ کے مطابق چودہ سال عمر قید کی سزا ہوتی ہے۔ بندہ مار کے جیل جاؤ تو بھی آپ چودہ سال بعد آزاد ہو کر گھر واپس آ جاتے ہیں۔
ڈاکر مجید پر سرے سے کوئی پولیس کیس تھا ہی نہیں۔ ذاکر مجید کی والدہ نے اب بھی ریاست کو گالی نہیں دی۔ جن کے اب اٹھائے جا رہے ہیں اور جو کبھی کھل کر اور کبھی دبی زبان میں گالیاں دیتے ہیں۔ وہ ماضی قریب میں بلوچ مسنگ شہریوں اور ان کے عزیزوں کو دشمن کا ایجنٹ اور جاسوس کہتے تھے۔ ان سے کوئی پوچھے کہ چودہ سال تک مصلے پر بیٹھی مناجات کرتی ایک گھریلو عورت کیسے وطن دشمن بن گئی۔
کٹھور دل والے کبھی کبھی یہ بھی پوچھتے ہیں کہ ذاکر مجید اور اس طرح کے سینکڑوں نوجوانوں کے خاندان والوں کو کیسے پتا ہے کہ انھیں ریاست نے اٹھایا ہے۔ اور یہ کیسے علم ہے کہ وہ زندہ ہیں۔
ریاست کے اٹھانے کے تو عینی شاہد ہیں، سی سی ٹی وی فوٹیج ہے، پولیس کیس ہے، کورٹ میں پٹیشن ہے۔ یہ امید کوئی کیسے ختم کر دے کے اس کا بیٹا شاید اب اس دنیا میں نہیں ہے اس لیے خاموش ہو کر گھر بیٹھ جاؤ۔ کئی مسنگ پرسن آٹھ دس سال کے بعد بھی زندہ واپس لوٹے ہیں۔ ذاکر مجید کی جبری گمشدگی کے پہلے کچھ سالوں میں اس کے گھر والوں کو اس کے زندہ رہنے کی خبر آتی تھی۔ جو گمشدہ رہا ہو کر آتے تھے وہ ذاکر کے زندہ ہونے کی خبر دیتے تھے۔ ذاکر خود ثبوت کے طور پر اپنی قیمیض کا بٹن توڑ کر ان کے ہاتھ بھیجتا تھا۔ سال بیتتے گئے بٹن آنا بند ہو گئے۔ آخر ایک نوجوان قیدی کی قمیض میں کتنے بٹن ہوتے ہیں۔
مسنگ پرسنز کے بارے میں سب سے ہولناک بات ایک رشتے دار نے مجھے بتائی تھی۔ اس نے کہا تھا اندر ہی اندر ہم ان پر رشک کرتے ہیں جن کے رشتے دار غائب ہونے کے بعد مسخ شدہ لاشوں کی صورت میں مل جاتے ہیں۔ دفنا دیتے ہیں، فاتحہ پڑھ لیتے ہیں ایک دن صبر آ ہی جائے گا۔ ہم ہر وقت دروازے پر دستک کا انتظار کرتے ہیں۔
آج کل ریاست کے باغیوں پر فوجی عدالتوں میں مقدمے چلانے کا موسم ہے۔ ظاہر ہے جمہوریت میں ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن کیا یہ فوجی انصاف اغوا کیے گئے بلوچی نوجوانوں کو میسر نہیں آ سکتا۔ کیا وہ اتنے پاکستانی بھی نہیں کہ انھیں کسی کرنل صاحب کی عدالت میں ہی پیش کیا جا سکے؟ اگر یہ بھی نہیں ہو سکتا تو کوئی اہلکار ذاکر مجید کی والدہ کو جا کر یہ کہہ سکتا ہے کہ مائی اٹھ جاؤ مصلے سے یہاں خدا کوئی اور ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر