عفت حسن رضوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان جن دنوں نازک موڑ سے گزر رہا ہوتا ہے اس کا عکس ہماری باتوں میں بھی جھلکتا ہے۔ پچھلے ایک سال میں پاکستان کا معاشی بحران اپنی انتہا کو چھو چکا ہے۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے حکومت بنائی تو ہماری ہر اگلی کال، چار پاکستانیوں کی چائے پہ ملاقات، اور لگ بھگ ہر سوشل میڈیا بحث کا موضوع مہنگائی بن گیا۔
یہاں تک کہ ہمارے ایک عزیز نے فون کر کے مشورہ مانگا کہ ملک دیوالیہ ہونے والا ہے تو کیا بینک میں رکھی سیونگ نکال لی جائے؟ کیا بلیک میں ملنے والا ڈالر خریدا جائے؟ کیا گھر میں آٹا، گھی، دال، چاول ذخیرہ کرلیا جائے؟
ہمیں کچہری لگانے کے لیے موضوعات کی کمی نہیں، گذشتہ ایک ماہ میں پاکستان کی سیاسی کشمکش شدید تر ہوچکی ہے۔
جیلیں، فوجی عدالتیں، اعلیٰ عدلیہ، جی ایچ کیو، انٹیلی جنس کے ادارے، سٹاک ایکس چینج، پارلیمان، خارجہ کے امور اور صحافت، ریاست کا کوئی ستون ایسا نہیں جو اس بار سیاسی کیچڑ میں لتھڑا نہ ہو۔
اسی تناظر میں ہماری روزانہ کی گفتگو کا فوکس بھی ان دنوں یہی ہے۔ ایسی ہی ایک سیاسی گفتگو میں نے بھی شروع کی لیکن اس کا انجام وہ نہ تھا جیسا اکثر ہوا کرتا ہے۔
یہ سرگزشت ہے یہاں ناروے میں ہمارے مہمان ریحان اللہ والا سے ہونے والی ایک گفتگو کی۔
کراچی کے ریحان اللہ والا بڑی خاموشی سے تبدیلی کی ہوا چلا رہے ہیں۔ ان سے پہلی ملاقات فاطمہ ثریا بجیا کے گھر آج سے کوئی 12 برس قبل ہوئی تھی۔
جب پاکستان میں خال خال ہی کوئی آن لائن تعلیم، فری لانسنگ یا ڈیجیٹل مارکیٹنگ کا نام لیتا تھا ریحان اللہ والا اس وقت سے پاکستانیوں کو ڈیجیٹل دنیا کی جانب راغب کر رہے ہیں۔
یہ اعلیٰ ڈگری والوں کو نہیں ہنر مندوں کو ڈھونڈ رہے ہیں جو ای بزنس کی الف، ب سے شروع کریں اور ملین ڈالر کا بزنس کھڑا کرلیں۔
ریحان اللہ والا سٹارٹ اپ بزنس کے حوالے سے ایک سیمنار میں شرکت کے لیے ناروے آئے تو ہمارے بھی مہمان بنے۔ ہمارے مہمان خانے میں درد ِ دل رکھنے والے ہم نصف درجن پاکستانی تھے اور گفتگو کا پریشان کن موضوع پاکستان کا موجودہ سیاسی بحران تھا۔
میں نے ریحان اللہ والا سے کہا آپ تو سیدھا پاکستان سے آرہے ہیں کچھ سیاسی احوال بتائیں اس خرابے میں خیر کی کیا امید رکھیں؟
مجھے امید تھی ریحان کچھ تحریک انصاف کی بات کریں گے، عمران خان کے سیاسی مستقبل کی پیش گوئی کریں گے، فوج کی سیاست سے توبہ کی ہی کوئی امید دلائیں گے، نئے الیکشن کا کوئی نقشہ کھینچیں گے۔ لیکن جواب وہ ملا جس کی توقع نہ تھی۔
ریحان اللہ والا نے نہاری کی پلیٹ کی جانب اشارہ کیا، آپ یہاں سکون سے نہاری پکا رہی ہیں، کھا رہی ہیں چھوڑیں اس بات کو۔ اب میری مسکراہٹ میں جھینپ بھی شامل تھی۔
ریحان کہنے لگے کہ پاکستان کے موجودہ معاشی و سیاسی بحران کا کوئی حل ہے آپ کے پاس؟
میں نے غیر یقینی سے کہا نہیں، ایک سانس میں ایک جملے میں تو حل نہیں نکالا جاسکتا۔ ریحان نے گویا فیصلہ سنانے والا انداز میں کہا: ’اگر ہمارے پاس کوئی حل نہیں، کوئی پلان نہیں اور حل ڈھونڈنے کی کوئی نیت بھی نہیں تو سیاسی بحث لاحاصل ہے، بہتر ہے کہ ہم نہاری کے مزے لیں، اپنا منہ کڑوا نہ کریں۔‘
چائے کی دو پیالیاں پینے کے دوران ریحان اللہ والا کو اندازہ ہوگیا کہ ہم سب کی نال پاکستان میں گڑی ہے، ہماری باتیں چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی گھوم پھر کر اپنے وطن کی جانب لوٹ جاتی ہیں تو بالآخر ریحان نے تفصیل سے اپنی بات رکھی۔
کہنے لگے کہ پاکستان صرف سیاسی واقعات سے چلنے والا ملک نہیں، ایسا نہیں کہ سیاست ہی اس ملک کے افراد کی سمت کا تعین کرتی ہے۔
سیاست سے پرے پاکستان ایسے نوجوانوں کا مجموعہ ہے جنہیں اتنی انگلش آتی ہے کہ ای کامرس کی عالمی منڈی میں اپنا سکہ جما سکیں، آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی عمومی معلومات حاصل کرکے فری لانسنگ کی ای مارکیٹ پہ چھا سکیں۔
ریحان اللہ والا ہمیں پاکستان کے پاس موجود وہ نعمتیں گنوانے لگے جو ہمارے پالیسی ساز کسی گنتی میں نہیں رکھتے مثلاً ہم دنیا کا سستا ترین ملک ہیں، نوجوانوں کی آبادی کے حساب سے سرفہرست ہیں، ہمارے لڑکے لڑکیاں ڈیجیٹل مارکیٹنگ، آن لائن فری لانسنگ کے لیے دیگر ممالک کے مقابلے میں انتہائی سستے ریٹس پر کام کرتے ہیں، ہمارے یہاں موبائل فون، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، اور تیز ترین انٹرنیٹ تک رسائی نہایت آسان ہے، ہمارے لوگوں کو صرف ایک انقلاب کی ضرورت ہے اور وہ ہے ای بزنس، آن لائن فری لانسنگ، ڈیجیٹل مارکیٹنگ، اینٹرپرنورشپ اور چھوٹے چھوٹے بہت سارے سٹارٹ اپس کی بھرمار۔
ریحان اللہ والا اس ملاقات میں ہم سب کو یاد دلاتے رہے کہ وطن کی محبت صرف یہی نہیں کہ وطن کی سیاست میں دلچسپی لے کر لاحاصل مباحثے کیے جائیں، وطن سے محبت یہ بھی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک فرد پاکستان میں موجود اپنے ہم وطن نوجوانوں کے لیے کمانے کے کچھ ذرائع پیدا کرے۔
آخر میں ریحان اللہ والا کی ایک بات جو مجھے ہمیشہ یاد رہے گی کہ جب قوم کا ہنرمند نوجوان اجتماعی ترقی کی ٹھان لے، غیرت دار بن کر جینے کی نیت ہو اور نیٹ ورکنگ کے ذرائع بھی موجود ہوں تو سیاسی بحران، ریاست کے غلط فیصلے غیر متعلقہ موضوع بن جاتے ہیں، اس بھیڑ کو بھگدڑ کی عادت ہے انہیں بزنس پہ لگانا ہوگا۔
شدید پولرائزڈ سیاسی ماحول میں میں یہ لکھنے کی جرات کررہی ہوں کہ نوجوان مہلک، جان لیوا اور بھٹکا دینے والی سیاست سے خود کو دور رکھیں۔ شرپسندوں کے ہاتھوں استعمال ہو جانے سے باز رہیں۔ یہ ضرور سوچیں کہ اس ملک کی حقیقی آزادی کی جدوجہد میں آپ کے ہاتھ معمار بن کر تعمیر کر رہے ہیں یا پٹرول بم پھینک کر تخریب۔
اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات مصنفہ کے ہیں ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
کامریڈ خدا حافظ۔۔۔عفت حسن رضوی
ابا جان کی نصیحت لے ڈوبی۔۔۔عفت حسن رضوی
ہزارہ: میں اسی قبیلے کا آدمی ہوں۔۔۔عفت حسن رضوی
خاں صاحب! آپ کو گمراہ کیا جارہا ہے۔۔۔عفت حسن رضوی
فحاشی (وہ مضمون جسے کئی بار لکھا اور مٹایا گیا)۔۔۔عفت حسن رضوی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر