وجاہت مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس ملک کی تاریخ کا ایک اور باب ختم ہوا۔ کل تک ایسٹ انڈیا کمپنی کے نامزد چھٹن نواب کے سرکاری دسترخوان پر قطار اندر قطار جمع ہونے والے ’صاف دامن‘ پوربیے ٹھگ اب چور نظروں سے دائیں بائیں دیکھتے کھسک رہے ہیں۔ فون پر گفتگو میں نام تک لینے کے روادار نہیں۔ مداری کا تماشا دیکھنے والے تاریخ اور سیاست کی ابجد سے ناواقف بچے حوالات کی رونق ہیں۔ کچھ لیڈر نما ’حقیقی اثاثے‘ چند روز عدالت کی راہداریوں میں اپنا مول بڑھا کے اگلی ملازمت کی درخواست جمع کروا دیں گے۔ وقت کے الٹ پھیر کا یہ ناٹک ہمارے لئے نیا ہے اور نہ آخری۔ کچھ مناظر کی باز خوانی مقصد ہے لیکن پہلے انتظار حسین کی کتاب ’چراغوں کا دھواں‘ سے ایک اقتباس دیکھ لیتے ہیں۔ (اختصار کے لئے کچھ جملے حذف کر دیے ہیں۔)
’مسافروں سے اٹااٹ بھری ایک ریل گاڑی آباد اور اجڑی بستیوں کے بیچ سے دوڑی چلی جا رہی ہے۔ اجالے میں، پھر اندھیرے میں۔ مسافر ٹھساٹھس مگر جیسے پتھر کے بنے ہوں۔ تاریخ کے اپنے صبح و شام ہوتے ہیں۔ تو وہ تاریخ کا جھٹپٹا تھا۔ ہم پر ایک پہر جا رہا تھا، دوسرا پہر آ رہا تھا۔ میرٹھ سے لاہور تک کا مختصر سفر قیامت کا سفر بن گیا۔ سہارن پور کا اسٹیشن گزر گیا ہے۔ لیجیے گاڑی رک گئی۔ مسلح گارڈ ڈبوں کے آگے پہرہ دے رہی ہے۔ کرپان سے مسلح سکھ دور سے ہمیں گھورتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔ پلیٹ فارم پر شرنارتھی ڈیرے ڈالے پڑے ہیں، بے زاری سے ہمیں دیکھتے ہیں اور پھر لاتعلق ہو جاتے ہیں۔ دن تو جیسے تیسے گزر گیا، اب کالی رات ہے اور ہم ہیں۔ باہر بھی اندھیرا، اندر بھی اندھیرا۔ تاریک ڈبے میں مسافر یوں بیٹھے ہیں جیسے آدم زاد نہیں، بھوت ہیں۔ میرے برابر میں بیٹھے بھوت نے ماچس کی تیلی کو ڈبیا پر گھسا اور اچانک بھوتوں میں کھلبلی مچ گئی۔ کون ہے یہ۔ بجھاو? سگریٹ۔ میرے برابر بیٹھے جس بھوت نے سگریٹ سلگائی ہے وہ اصل میں سلیم احمد ہے۔ سگریٹ بجھا کر وہ پھریری لیتا ہے اور ایک لطیفہ سناتا ہے۔ اس کے ساتھ کی پوری ٹولی ہنسنا شروع کر دیتی ہے۔ آپ لوگوں کو شرم آنی چاہیے۔ اندھیرے میں ایک غصیلی آواز۔ کس بات پر؟ سلیم معصومیت سے پوچھتا ہے۔ خیر گاڑی چل پڑی ہے۔ گاڑی سے باہر بیل گاڑیوں کی ایک لمبی قطار۔ کاٹھ کباڑ کے ساتھ لدے ہوئے اپنی بستیوں سے اجڑ کر نکلے ہیں اور چلے جا رہے ہیں۔ سلیم احمد ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے کہ وہ ڈرا ہوا نہیں ہے مگر جب واہگہ کے قریب آئے تو سہمے ہوئے لوگوں نے پھرتی سے جھرجھری لی اور بہادر بن گئے۔ اندھیرے ڈبے میں تقریریں شروع ہو گئیں۔ میں نے سلیم کو ٹہوکا۔ ’اب وقت ہے تو بھی ایک تقریر ٹکا دے‘۔ ’میں چپ ہوں۔ اب دوسروں کے بولنے کا وقت ہے‘۔
سلیم احمد نے کیا پتے کی بات کہی۔ صحافی اور سیاستدان کی پہچان کا ایک ہی پیمانہ ہے۔ کسی صحافی نے کون سی بات کب کہی اور کب خاموش رہا؟ کسی سیاست دان نے کون سی جماعت کب چھوڑی اور کس جماعت میں کب شامل ہوا؟ 1971ء کے بعد سے جو خطہ پاکستان کہلاتا ہے، یہاں کے سیاسی رہنماﺅں میں گن جائیے کہ افتخار حسین ممدوٹ کے سوا کون پنجاب میں 1945 سے قبل یونینسٹ پارٹی میں نہیں تھا۔ سرحد اور سندھ کی سیاست کا رنگ کیا تھا؟ قاضی عیسیٰ کے استثنیٰ کے ساتھ بلوچستان میں کون مسلم لیگ کا حامی تھا؟ پاکستان کی ابتدائی سیاسی قیادت تو تقسیم کا مطالبہ پورا ہوتے دیکھ کر حکومتی اشارے پر مسلم لیگ میں شامل ہوئی۔ پاکستان کے ابتدائی برسوں میں مسلم لیگ کا احوال جاننا ہو تو مرحوم ڈاکٹر صفدر محمود کی کتاب ’مسلم لیگ کا دور حکومت‘ اور چوہدری خلیق الزمان کی تصنیف Pathway to Pakistan دیکھئے۔
بعد کے برسوں میں اکتوبر 1955 میں سکندر مرزا کی تخلیق ری پبلیکن پارٹی اور 1962 میں ایوب خان کی کنونشن لیگ سے پاکستان کی مقتدر سیاست کا حقیقی رنگ جانیے۔ 1970 میں پیپلز پارٹی کے امیدوار کون تھے اور 1977 میں ہزاروں ساتھیوں سمیت جوق در جوق بھٹو صاحب کے ساتھ شامل ہونے والے کون تھے؟ راتوں رات پی این اے کی تشکیل کیا محض جمہوری آدرشوں کی پاسبانی تھی؟ مٹھی بھر جمہوری رہنماﺅں اور سیاسی کارکنوں کو چھوڑ کر کس نے ضیا الحق کی مخالفت کی؟ نظام اسلام اور نظریہ پاکستان جیسے نعروں کے ساتھ ضیا آمریت کے ہاتھ مضبوط کرنے والوں کے اشتہارات تاریخ کا حصہ ہیں۔ ضیا الحق نے ایم کیو ایم اور فرقہ ورانہ جماعتیں بنا کر جمہوری سیاست کی بنیادیں کھودیں۔ 1988 میں آئی جے آئی کا پودا لگانے والے خود اس کارنامے کا اعتراف کرتے رہے۔ پرویز مشرف نے اسی روایت میں مسلم لیگ (ق) تشکیل دی اور جنرل احتشام ضمیر نے پیپلز پارٹی میں محب وطن ارکان اسمبلی دریافت کیے۔
عمران خان کا سیاسی بیج تو لیفٹننٹ جنرل مجیب الرحمن اور گل حمید نے کاشت کیا تھا مگر گملے میں لگا کر رکھ چھوڑا تھا۔ 2002 کے ریفرینڈم اور قومی انتخابات میں آرائشی محراب کا کردار دیا گیا۔ میثاق جمہوریت اور اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد جمہوری قافلے پر شب خون مارنے کے لئے منتخب کیا گیا۔ طویل مدتی ادارہ جاتی سرپرستی میں ہائبرڈ بندوبست کا تجربہ معاشی سیاسی اور سفارتی سطح پر ناکام ہوا تو فروری 2021 میں دست کشی کا فیصلہ ہوا۔ تاہم اس دوران جامع اور یک طرفہ ذہن سازی سے جنم لینے والی قطبیت نے موجودہ بحران کو جنم دیا۔ سیاسی انجنیئرنگ کا شوق رکھنے والوں کو جاننا چاہیے کہ آپ ایم کیو ایم اور مذہبی تنظیموں سے تحریک انصاف تک جو سیاسی بت تراشتے ہیں، وہ بالآخر آپ پر حملہ آور ہوتا ہے۔ مان لیجیے کہ آپ کی تربیت سیاسی حرکیات کو سمجھنے کی نہیں۔ آپ کی ہر سیاسی مہم جوئی ملک کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ جناح ہاﺅس پر ہلہ بولنے والے بے شک قابل تعزیر ہیں۔ جناح ہاﺅس اور جناح کے پاکستان پر قبضہ کرنے والوں کے بارے میں بھی اپنی رائے دیجئے نا؟
یہ بھی پڑھیے:
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر