تو مور تو یہی سمجھے گا کہ کوئی مسیحا اسے اس ہنگام سے نکال کر اس کی جان بچا رہا ہے۔ ہمارا مور چور بھی معصوم لگتا ہے اور ذمہ دار بھی کہ اس نے چہرے پر ماسک پہن رکھا ہے۔ یقیناً نرم دل بھی ہو گا، اس لیے ایک محل نما گھر سے، جہاں لوٹنے کے لیے بہت کچھ تھا، وہ صرف ایک مور کو گود میں اٹھا کر نکل لیا۔
محمد حنیف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر وہ چاہتا تو کوئی قیمتی چیز بھی اٹھا سکتا تھا۔ دیوار پر لگا کلاک، چھت پر لگا فانوس بھی اتار سکتا تھا۔ فریج میں پڑا قورمہ اٹھا سکتا تھا، ٹھنڈی ٹھار سٹرابری کے مزے لے سکتا تھا، کچن میں پڑا کوئی ڈنر سیٹ لے کر جا سکتا تھا۔
ڈیزائنر صوفوں پر پڑے کشن تو وزن میں بھی ہلکے ہوں گے، دیواروں پر لگی قیمتی پینٹنگز بھی تھیں، فرش پر ہاتھ سے بنے قیمتی غالیچے بھی ہوں گے۔ کور کمانڈر کے گھر میں تلواریں، سجاوٹی بندوقیں اور ٹرافیاں بھی ہوتی ہیں۔ اس تاریخی دن کی یادگار کے طور پر ان میں سے کوئی چیز چرا سکتا تھا۔
کسی دراز میں پڑی کرنسی، باتھ روم میں پڑے پرفیوم، راہداریوں میں پڑے گلدان، پنکھے، ائیر کنڈیشنر، کرسٹل کی ایش ٹرے، ریشمی پردے اور ٹیبل لیمپ بھی لے جا سکتا تھا لیکن اس نے یہ سب کچھ چھوڑ کر کور کمانڈر کے لان میں گھومتا پریشان مور اٹھایا اور لے کر چل پڑا۔
کسی کیمرے والے نے پوچھا کہ کیا کر رہے ہو، اس نے پروقار سادگی سے بتایا، انھوں نے ہمارا مال چرایا، اب ہم واپس لے رہے ہیں۔ پھر پوچھا گیا کہ یہ کیا اٹھایا ہوا ہے، اس نے کہا مور ہے۔
سب کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔ بہت کچھ بہت دفعہ ہو چکا ہے، وزیراعظم جیل آتے جاتے رہے ہیں، پھانسی لگتے رہے ہیں، شہید ہوتے رہے ہیں، ڈنڈا ڈولی کر کے جہازوں میں بیٹھا کر جلا وطن کیے گئے ہیں۔
سیاسی لیڈر سالہا سال کال کوٹھریوں میں رہے ہیں اور کسی جج نے بلا کر نہیں پوچھا کہ بھائی اس کا جرم ہی بتا دو لیکن تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ عوام نے دیکھا کہ کور کمانڈر کا گھر اندر سے کیسا لگتا ہے، کتنے ڈرائنگ روم، کتنی گاڑیاں، سوئمنگ پول کا سائز اور سفیدی کیے ہوئے تنوں والے کتنے درخت۔
،تصویر کا ذریعہ SOCIAL MEDIA
یہ بھی پتا چلا کہ کور کمانڈر کے گھر کا اصلی نام جناح ہاؤس ہے، جو کسی زمانے میں قائد اعظم نے خریدا تھا۔
جماعت اسلامی ، تحریک لبیک اور مسلم لیگ والے سب اپنے آپ کو قائد اعظم کا اصلی وارث کہتے ہیں۔ عمران خان تو ویسے ہی قائداعظم ثانی ہیں لیکن وارث وہی ہوتا ہے جس کو جائیداد منتقل ہوتی ہے۔
تو اب کسی کو شک نہیں رہنا چاہیے کہ قائد اعظم کا اصلی وارث کون ہے۔ لاہور کا کور کمانڈر جو ان کے گھر میں رہتا ہے۔ لاہور کے وزیراعلیٰ ہاؤس میں شہباز شریف بیٹھا ہو یا کوئی چوہدری یا بزدار، لاہور کا اصلی بادشاہ کور کمانڈر ہی ہوتا ہے۔ اس لیے ان کے گھر کی شان و شوکت سے کسی کو شکوہ نہیں ہونا چاہیے۔
یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسا رحمدل بادشاہ ہے جو اپنے گھر کی حفاظت نہیں کر سکتا اور اتنا بے مروت کہ اپنے پیارے مور کو بلوائیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر چلا گیا۔
مور عام طور پر وہ لوگ رکھتے ہیں جو بہت امیر ہوتے ہیں اور شوقین بھی۔ جن کے باغ بڑے ہوتے ہیں اور ان باغوں میں مور چلتے دیکھ کر انھیں چھوٹا موٹا مغل بادشاہ ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ مور بلی کتے جیسا پالتو جانور نہیں جو دم ہلائے اور بچوں کے ساتھ کھیلے۔ مور دور دور سے اٹھلاتا پھرتا ہے، کہتا ہے مجھے دیکھو میں کتنا خوبصورت ہوں، جب اچھے موڈ میں آئے تو پر پھیلا کر سماں باندھ دیتا ہے۔
جس مور کو میرا چور اٹھا کر لے گیا، وہ مور پر سکون لگ رہا تھا۔ اگر آپ کے گھر میں آگ لگی ہو، سینکڑوں ڈنڈا بردار گھر کی ہر چیز توڑ رہے ہوں، لوٹ مچی ہو، ایسے نعرے لگ رہے ہوں جو مور نے اپنے کور کمانڈر والے گھر کے باغ میں کبھی نہیں سنے۔
تو مور تو یہی سمجھے گا کہ کوئی مسیحا اسے اس ہنگام سے نکال کر اس کی جان بچا رہا ہے۔ ہمارا مور چور بھی معصوم لگتا ہے اور ذمہ دار بھی کہ اس نے چہرے پر ماسک پہن رکھا ہے۔ یقیناً نرم دل بھی ہو گا، اس لیے ایک محل نما گھر سے، جہاں لوٹنے کے لیے بہت کچھ تھا، وہ صرف ایک مور کو گود میں اٹھا کر نکل لیا۔ عدالتوں میں اس وقت معاملے اربوں کھربوں کی کرپشن کے ہیں۔ کور کمانڈر کے گھر میں گھس کر بلوہ کرنے والوں کو دہشت گرد کہا جا رہا ہے۔ وہ ظاہر ہے انقلاب لانے نکلے تھے۔
کچھ لاہوریوں کو داد دے رہے ہیں کہ انھوں نے وہ کر دکھایا جو کبھی بلوچ سندھی نہیں کر سکے۔ کچھ لاہوریوں کو طعنے دے رہے ہیں کہ اگر یہی کام کسی غیر پنجابی نے کیا ہوتا تو سڑکوں پر لاشیں بچھی ہوتیں۔
اس سارے مباحث میں، مجھے صرف مور اور مور چور کی فکر ہے۔ کیا مور کو مناسب خوراک ملی ہو گی، کیا وہ اپنے نئے گھر میں جو یقیناً کور کمانڈر کے گھر سے بہت چھوٹا ہو گا، آرام سے رہ سکے گا اور میں مور چور کے بارے میں زیادہ فکر مند ہوں۔
ایک جلتے ہوئے گھر سے ایک جاندار کو بچا کر لے جانے پر اس کی تعریف ہونی چاہیے لیکن مجھے شک ہے کہ پولیس اس کی تلاش میں ہو گی، اس نے شاید زندگی میں تھانہ کبھی نہیں دیکھا ہو گا۔ پولیس کے لتر بھی صرف فلموں میں دیکھے ہوں گے۔ اس کا مستقبل کیا ہو گا۔
کسی کو عمران خان کی جان کی فکر ہے، کوئی حکومت کے مستقبل کے بارے میں پریشان ہے، کوئی بے گھر ہو جانے والے کور کمانڈر کے بارے میں تجزیہ کر رہا ہے۔ مجھے صرف اور صرف مور اور مور چور کی فکر ہے۔ ہمارے اس جلتے گھر میں وہ دونوں امید کی واحد کرن ہیں۔
انقلاب لانا ہے تو لے آؤ، انتخاب کروانے ہیں کروا لو لیکن میرے مور اور میرے مور چور کو تنہا نہ چھوڑو۔
( بشکریہ : بی بی سی اردو )
About The Author Continue Reading
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر