نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

عمران خان کی گرفتاری اور زرداری کا ردعمل۔۔۔ ||شرافت رانا

یہی سوچ شہید محترمہ بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے رہی ہیں کہ انہوں نے ہر لمحہ پارلیمان میں موجود رہ کر قانون سازی اور آئین میں ترامیم کے ذریعے وزیر اعظم کے عہدہ کو طاقتور بنانے کی کوشش کی۔ عدالتی نظام کو جمہوری ریاست کا نظام بنانے کی کوشش کی اور فوج کو پارلیمانی جمہوریت کی تکریم کرنے کا سبق سکھانے کی کوشش کی۔
شرافت رانا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کچھ باتیں ایسی کہنے کے لئے نسل در نسل جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ تاریخ علم سیاسیات کی لیبارٹری ہے اور تاریخ سے نابلد لوگ اگر سیاست میں آ جائیں تو وہ نہ صرف سیاسی رویوں کو برباد کرتے ہیں بلکہ جمہوریت اور پارلیمانی نظام کو خطرہ میں ڈال دیتے ہیں۔

 

صدر آصف علی زرداری کو فیض، باجوہ اور عمران خان گرفتار کرنا چاہتے تھے۔ وہ عدالت کے سامنے پیش ہوئے اور جج کو بتایا کہ یہ عدالتی نظام ہم نے بہت محنت اور جدوجہد سے مستحکم کیا اور استحکام کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔ جو لوگ مجھے گرفتار کرنا چاہتے ہیں وہ اس عدالتی نظام سے زیادہ طاقتور ہیں۔

 

میں اپنی ذات کے لیے عدالتی نظام کو داؤ پر لگانے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ آصف علی زرداری نے جج سے استدعا کی کہ ان کی تمام قبل از گرفتاری کی ضمانت ہائے بصیغہ واپسی خارج کر دی جائیں۔

 

صدر زرداری کو معلوم تھا کہ اگر خدانخواستہ کوئی بھی جج داؤ لگا کر ان کی ضمانت کنفرم کر دے گا تو عدالتی نظام اور پارلیمانی جمہوریت اس قدر طاقتور نہیں ہیں کہ وہ جرنیلوں کا راستہ روک سکیں۔

 

عمران خان اور ان کے حامی جج بے وقوف، تاریخ سے نابلد اور عاقبت نا اندیش ہیں۔ عمران خان نے برطرفی کے بعد قومی اسمبلی میں موجود رہ کر پارلیمانی نظام کے لیے درکار آئینی ترامیم اور قانون سازی میں مدد دینے کی بجائے پارلیمانی نظام کو داؤ پر لگانے کا فیصلہ کیا۔

جو جج عمران خان کی محبت میں گرفتار ہیں۔ وہ تو مارشل لا کے نفاذ یا کسی بھی غیر آئینی قدم کے اٹھائے جانے کے بعد نئے طاقتور باس کی نوکری کر لیں گے۔

مسئلہ جمہوریت پسند اور پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنان کا ہے کہ انھیں اگلے ایک عشرہ کسی بھی ایسے قدم کے نتیجہ میں قید و بند اور جیلوں کی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

نظام بنانے کے لئے پیپلز پارٹی نے 50 سال سے بہت زیادہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ہے اور قید و بند کی صعوبتیں کاٹیں ہیں اور اپنے صحن میں قبرستان بنا رکھا ہے۔

عمران خان فین کلب کو غلط فہمی ہے۔ بھٹو ان سے کہیں زیادہ طاقتور تھا۔ دلیر تھا اور اس کا فین کلب اس پر جان وارنے کے لئے تیار تھا۔ بھٹو نے قید اور موت اس لئے قبول کی کہ کمزور ہی سہی وہ جو آئینی پارلیمانی نظام کو قائم کر چکا ہے اس کا کوئی بھی ٹکڑا اگر بچ گیا تو ریاست پاکستان بچ رہے گی۔

 

یہی سوچ شہید محترمہ بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے رہی ہیں کہ انہوں نے ہر لمحہ پارلیمان میں موجود رہ کر قانون سازی اور آئین میں ترامیم کے ذریعے وزیر اعظم کے عہدہ کو طاقتور بنانے کی کوشش کی۔ عدالتی نظام کو جمہوری ریاست کا نظام بنانے کی کوشش کی اور فوج کو پارلیمانی جمہوریت کی تکریم کرنے کا سبق سکھانے کی کوشش کی۔

 

انتہائی افسوس ہے کہ عمران خان نے ہر اچھی روایت کو نقصان پہنچایا ملک کا نقصان کیا اور پارلیمانی جمہوریت کو آج پھر ایک سنگین خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔

About The Author