ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آگ لگے اس ڈاکٹری کو جب ہماری کوئی بات ہی نہ سنے۔ پڑھایا لکھایا، بڑی ڈاکٹر بنایا کہ بھئی کم ازکم گھر والوں کو تو آرام ہو گا۔ اب کیا کہوں کہ یہ عالم کہ بی بی ساری دنیا کا درد اپنے جگر میں سمیٹ کر بیٹھی ہیں اور اپنے جائیں بھاڑ میں۔
کتنی بار کہا کہ بھئی مجھے تو آتی ہے شرم ایسی باتیں کرتے ہوئے۔ بیٹیوں سے کبھی نہیں پوچھا تو بہو کی کرید کیوں؟ بچی بے چاری، سوچے گی بڑھیا قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھی اور شرم و حیا نام کو نہیں۔ سوال کرتی ہے کچھ ہوا کہ نہیں؟
ویسے تو بھیا یہ سب اللہ کے کام ہیں، ہم نے بڑی بہوؤں کو بھی نہیں پوچھا کبھی۔ منجھلی کی ایک ہی بیٹی رہی بہت عرصہ جم جم جیے۔ بارہ برس گزرے تب دوسری آئی۔ دو بیٹیاں۔ ماں باپ کی نور العین، بس اور کچھ نہیں چاہیے، کبھی نہیں کہا کہ بیٹا کیوں نہیں؟ بیٹی ہو یا بیٹا بس زندگی والے ہوں، نیک نصیب۔
ہماری تین بیٹیاں، سر آنکھوں پہ رہیں ساری عمر۔ اور یہ جو ہیں ڈاکٹر صاحبہ ان کے تو مزاج ہی نہیں ملتے۔ کہہ کہہ کر تھک گئی کہ بچی سے پوچھ لو، اگر کسی ڈاکٹر کے پاس جانا چاہے تو لے جاؤ یا خود دیکھ لو۔ میں بڑھیا اسی برس کی ہو گئی نہ جانے کب آنکھ بند ہو جائے۔ چلو مرنے سے پہلے یہ خوشی بھی دیکھ لوں۔
بھئی ہوتا ہی ہے نا شوق، آخر سب سے چھوٹا بیٹا، کچھ ہو تو میرا بھی دل لگ جاتا۔ اتنا بڑا گھر اور اس میں کل ہم تین، بیٹا صبح کام پہ، پیچھے سارا دن ہم دونوں۔ کتنی باتیں کریں ایک دوجے سے؟ وہ تو پھر بھی کوشش کرتی ہے میں ہی تھک جاتی ہوں کیا کروں اب ہمت تو رہی نہیں۔
اے لو وہ بات تو بیچ میں ہی رہ گئی۔ بس یہی تو مصیبت ہے بڑھاپے کی۔ ایک سوچ آئی، دوسری پل میں غائب، جیسے چھو منتر پڑھا ہو کسی نے۔ بس اب دیکھو کس دن ہم سانس لینا بھول جائیں، بہت جی لیے، اب اور کیا کریں گے؟ اب تو بقیہ عمر اللہ ان کو دے جنہیں ضرورت ہے، ہمیں تو نہیں، بوڑھی ہڈیاں کب تک ساتھ دیں گی؟ ان کے ابا کہا کرتے تھے تمہاری کاٹھی بہت مضبوط ہے۔ وہ بے چارے تھے منحنی اور نحیف طاقت والا کام کرنا تو انہیں بہت ہی مشکل لگتا۔ ہم نے بھی کبھی نہ کہا کہ یہ بکسہ ادھر اسے ادھر کر دیں، خود ہی کھینچ کھانچ کے جگہ بدل دیتے۔
جی امی کیوں بلا رہی تھیں آپ؟
اے بیٹا، سنتی کیوں نہیں ہو تم میری؟ کہہ کہہ کے تمہیں تھک گئی۔
امی آج تک آپ کی کوئی بات ٹالی ہے جو اب ایسا کروں؟ ہم نے لاڈ سے بانہیں گلے میں ڈال دیں۔
بھئی وہ چھوٹے بھائی بھاوج ہیں تمہارے۔
کیا ہوا انہیں؟ ہم نے گھبرا کر پوچھا۔
انہیں بھی دیکھ لو کسی دن۔ امی رک رک کر بولیں۔
امی۔ ہر دوسرے روز تو دیکھتی ہوں انہیں اور کیسے دیکھوں؟
نہیں میرا مطلب ہے کوئی خوشخبری وغیرہ۔
کیا مطلب؟ کون سی خوشخبری؟ کیا چھوٹے کو بزنس میں فائدہ ہوا؟ ہم اچھل پڑے۔
افوہ، بھئی کہنے کو تم زچہ بچہ کی ڈاکٹر ہو، اور خوشخبری کا مطلب بھی ہم سے پوچھتی ہو۔ امی چڑ کر بولیں۔
دیکھیے اماں جانی، خوشخبری ہو تو اچھی بات، نہ ہو تب بھی اچھی۔ ہم ہنس کر بولے۔
افوہ، باوا آدم نرالا ہے تمہارا۔ سب بہنیں اپنے بھائیوں کا آنگن آباد ہونے کی دعائیں مانگ مانگ کر تھکتی نہیں۔ منتیں چڑھاتیں ہیں۔ یہ بی بی منہ ٹیڑھا کر کے فرماتی ہیں، نہ بھی ہو تو اچھی بات۔ توبہ ایسی کور چشم بہن۔
امی پیاری۔ پہلی بات یہ کہ جب بچہ ہونا ہو گا، ہو جائے گا اور دوسری اہم بات یہ کہ ضروری نہیں سب کا بچہ ہو۔
اے توبہ کرو۔ کیوں نہ ہو بھلا؟ امی بگڑ کر بولیں۔
بس اللہ کی مرضی۔ خود ہی تو کہتی ہیں کہ ہر کام اللہ کی مرضی سے ہوتا ہے۔
وہ تو ٹھیک ہے بیٹا پر پھر بھی کچھ دوائیں کچھ علاج؟ آخر تمہاری موئی ڈاکٹری علاج کرتی ہے یا نہیں؟
امی جان، آپ جانتی ہیں کہ گائنی ڈاکٹر تو ہم ہیں مگر اس موضوع پہ بھائی بھابھی کو کریدنا نہیں پسند۔
افوہ بی بی ایک تو تم نک چڑھی بہت ہو۔ امی غصے میں تھیں۔
امی۔ کبھی آپ کہتی ہیں تم میری سب سے خوش مزاج بیٹی اور کبھی نک چڑھی۔ یہ کیا بات ہوئی؟ ہم نے ہنس کر کہا۔
کہنا نہیں مانتیں تم۔ خیر پرانی عادت ہے تمہاری۔ اچھا سنو ہو سکتا ہے بھائی بھاوج شرماتے ہوں تم سے پوچھتے ہوئے۔
کیوں؟ کیوں شرمائیں گے ہم سے؟ سب سے زیادہ بے تکلفی تو ہم ہی سے ہے۔
بیٹا پھر پوچھ ہی لو۔
دیکھیے امی۔ ہم ذاتی باؤنڈری کے حق میں ہیں۔ اگر شادی کے بعد ہمارا بچہ پیدا نہ ہوتا، دیر سویر ہوتی اور کوئی پوچھتا تو ہم سخت برا مناتے۔ بھول گئیں آپ کہ دوسرا بچہ آٹھ برس تک نہیں ہوا اور اس موضوع پہ ہم بات کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔
سو جو بات ہمیں نہیں پسند، دوسروں کے ساتھ کیوں کریں ہم؟
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہمارے چہیتے چھوٹے بھیا کی شادی کو تین برس گزر چکے تھے اور ہماری اماں دل ہی دل میں فکرمند ہونے کے بعد ہم سے دن رات نالاں تھیں کہ ہم ان سے دریافت کیوں نہیں کرتے کہ ماجرا کیا ہے؟
ہمارے ساتھ معاملہ کچھ یوں تھا کہ کسی کی ذاتی زندگی میں جھانکنا ہمارے اصول کے خلاف تھا چاہے وہ سگا بھائی ہی کیوں نہ ہو۔ اس وقت تک جب وہ خود نہ چاہے۔
آخر کار ایسا وقت آ ہی گیا جب دونوں کچھ شرماتے، کچھ ہچکچاتے ہمارے سامنے آ بیٹھے۔
بھابھی نے بات شروع کی۔ آپی آپ سے پوچھنا تھا کچھ؟
ہاں کہو۔
وہ وہ۔ ہمارا علاج کر دیں۔ وہ گڑبڑ کر بولی۔
ہمیں ہنسی تو بہت آئی مگر قابو پا کر کہا۔ مسئلہ تو بتاؤ؟
وہ۔ وہ۔ بے بی۔
کیا تم سے کسی نے کچھ کہا؟
نہیں، کسی نے بھی نہیں؟
پھر؟
سب بہت پوچھتے ہیں۔ وہ سر جھکا کر بولی۔
سب کون؟ ہم نے حیرانی سے پوچھا۔
میرے خاندان کے لوگ۔
امی ابا بھی پریشان ہیں۔ پھوپھیاں، چاچی، تائی مامی سب پوچھتے ہیں۔ وہ سب یہ سمجھتے ہیں کہ چار برس ہو چکے، ساس نندوں نے زندگی اجیرن کر رکھی ہو گی اور اپنے لاڈلے سپوت کے سر پہ دوسری بار سہرا سجانے کا منصوبہ بن رہا ہو گا۔
ہمارا قہقہہ۔ تم کیا جواب دیتی ہو؟
بتا بتا کر تھک گئی کہ آج تک کسی نے اشارہ بھی حمل کا نہیں پوچھا۔ یہ نہیں کہ میرے سامنے بلکہ میری غیر موجودگی میں شوہر سے بھی کوئی نہیں پوچھتا، سب مست ملنگ، اپنی اپنی دنیا میں گم مگر کوئی مانتا ہی نہیں۔ سب کا خیال ہے کہ میں چھپاتی ہوں، جھوٹ بولتی ہوں، یہ کیسے ممکن کہ چار سال گزر جائیں اور لاڈلے بیٹے کے بچے کے بارے میں کوئی بات نہ کرے۔ ایسی ساس نندیں تو کبھی دیکھی نہیں۔ کیسی عورتیں ہیں یہ؟
انہیں کہو، آ کر دیکھ لیں ہمیں۔ بلکہ ایسا کرو کہ ہم پہ ٹکٹ لگا دینا۔ ہم ہنسے۔
دیکھو، آج تم نے بات شروع کی تو ہم تمہاری مدد کرنے کے لیے تیار ہیں مگر آج سے پہلے میرے نزدیک یہ تم دونوں کا ذاتی مسئلہ تھا۔ دیر سویر کیوں ہوئی، اس میں بھی بولنے کا ہمیں حق نہیں۔
آپی، یہی بات تو کسی کو سمجھ نہیں آتی۔
ہم جانتے ہیں۔
اچھا بھیا راجہ۔ علاج شروع ہو گا تم سے۔ جاؤ ذرا لیب میں اپنا سیمن چیک کروا کر آؤ اور بھابھی رانی تم اپنے ہارمونز۔
لیجیے چڑیا اور چڑا دونوں نکلے اپنے مشن پر۔ باقی کہانی آئندہ۔
یہ بھی پڑھیے
ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر