نومبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

چند دن بعد واقعی ان کے دن پھر گئے۔۔۔مبشر علی زیدی

کئی دنوں سے دبئی آفس میں یہ خبر گرم تھی کہ ایکسپریس اخبار اپنا ٹی وی چینل قائم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ لوگوں کو فون آنے لگے تو کانا پھوسیاں شروع ہوگئیں۔

جیو دبئی میں میری سب سے زیادہ دوستی عاطف اعوان اور عثمان بھائی کے ساتھ تھی۔ کافی عرصہ دفتر سے ہم عاطف کی گاڑی میں گھر واپس جاتے رہے۔ شارجہ میں ہمارے گھر قریب تھے۔

ایک دن واپسی پر عثمان بھائی نے کہا کہ راستے میں ایک جگہ رکتے ہوئے جانا ہے۔ میں نے کہا، اچھا۔ عاطف کو شاید علم تھا۔ اس نے گاڑی بردبئی کی طرف موڑ لی۔ جو لوگ دبئی سے واقف ہیں، وہ جانتے ہیں کہ شہر کے دو حصے ہیں۔ شارجہ سے ملے ہوئے حصے کا نام ڈیرہ ہے اور کریک سے اس طرف کا علاقہ بردبئی کہلاتا ہے۔

جیو نے شروع کے دنوں میں اپنے عملے کو بر دبئی کے ہوٹلوں میں ٹھہرایا تھا اس لیے کافی علاقہ ہمارا دیکھا ہوا ہے۔ عاطف کی گاڑی ہماری سابق رہائش رچمنڈ ہوٹل کے قریب ایک اور ہوٹل میں جاکر رکی۔

ہم لابی میں داخل ہوئے تو ایک نوٹس بورڈ موجود تھا: ایکسپریس کے سلطان لاکھانی صاحب سے ملاقات کے لیے آنے والے فلاں کمرے میں رابطہ کریں۔ اس سے پہلے گاڑی میں عثمان بھائی اس بارے میں بتاچکے تھے۔

کئی دنوں سے دبئی آفس میں یہ خبر گرم تھی کہ ایکسپریس اخبار اپنا ٹی وی چینل قائم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ لوگوں کو فون آنے لگے تو کانا پھوسیاں شروع ہوگئیں۔

عثمان بھائی نے جب بتایا کہ وہ ہوٹل میں سلطان لاکھانی صاحب سے ملنے آئے ہیں تو میں نے کہا کہ مجھے کوئی کال نہیں آئی اس لیے میں لابی میں بیٹھ جاتا ہوں۔ انھوں نے کہا کہ اوپر کمرے میں ہمارے سابق کولیگ عمران میر موجود ہیں۔ وہاں بیٹھ جانا۔

عمران میر جیو لاہور کے سابق کاپی ایڈیٹر تھے۔ آج ٹی وی کا آغاز ہوا تو وہاں چلے گئے۔ کسی بہتر پوزیشن پر رہے۔ اب معلوم ہوا کہ انھوں نے ایکسپریس جوائن کرلیا ہے۔

سلطان لاکھانی اور عمران میر کے ساتھ عابد عبداللہ بھی دبئی آئے تھے۔ جواد نذیر کے جیو آجانے کے بعد وہ ایکسپریس میڈیا گروپ کے ڈائریکٹر بن گئے تھے۔

خیر، ہم کمرے میں جاکر بیٹھے۔ عثمان بھائی کو ایک بورڈ روم یعنی میٹنگ کے کمرے میں بلایا گیا۔ وہ واپس آئے تو عاطف انٹرویو کے لیے چلا گیا۔ اس کے بعد عمران میر نے کہا کہ لاکھانی صاحب کو میری آمد کی اطلاع مل گئی ہے اور وہ مجھ سے بھی ملنا چاہتے ہیں۔

وہ ایک بڑا سا کمرا تھا۔ اس میں ایک ضرورت سے زیادہ لمبی میز رکھی تھی۔ اس کے ایک کونے پر لاکھانی صاحب اور دوسرے پر عابد عبداللہ بیٹھے تھے۔ میں نے کمرے میں داخل ہوکر سلام کیا۔ لاکھانی صاحب نے بہت گرم جوشی سے استقبال کیا اور کہا، بھئی مبشر! گھر واپس آجاؤ۔

جنگ گروپ سے پہلے میں نے ساڑھے تین سال روزنامہ ایکسپریس میں کام کیا تھا۔ بلکہ اس کی اولین ٹیم میں شامل تھا۔ میرے پاس آج بھی ایکسپریس کا کارڈ موجود ہے۔ اس کے مطابق میں مستقبل کی اس میڈیا ایمپائر کا فقط 18واں ملازم تھا۔

میں نے لاکھانی صاحب کا شکریہ ادا کیا۔ انھوں نے کوئی انٹرویو نہیں کیا اور حال احوال پوچھ کر کہا کہ عمران میر کے کمرے میں بیٹھیں، ہم ابھی آتے ہیں۔ کچھ دیر میں ہم تینوں کو آفر لیٹرز دے دیے گئے۔ میں صرف اپنے لیٹر کے بارے میں بتاسکتا ہوں جو آج بھی میرے پاس موجود ہے۔ اس میں لکھا تھا کہ جیو سے جو بھی سیلری ملتی ہے، اس میں 60 فیصد اضافہ کرکے تنخواہ مقرر کی جائے گی۔

ظاہر ہے کہ ہم نے پوچھا کہ ایکسپریس کا چینل کہاں سے لانچ ہوگا؟ انھوں نے بتایا کہ راس الخیمہ میں نیا میڈیا سٹی بن رہا ہے۔ وہاں ٹیکس چھوٹ مل رہی ہے۔ چینل وہیں قائم ہوگا۔ جیسے جیو کا عملہ دبئی میں کام کرتا ہے، ویسے ایکسپریس کا عملہ راس الخیمہ میں کام کرے گا۔

لاکھانی صاحب نے سوچ کر جواب دینے کے لیے پندرہ دن کا وقت دیا اور کہا کہ وہ دو ہفتے بعد ہمیں اپائنٹمنٹ لیٹر مل جائیں گے۔ ہم خوشی خوشی گھر واپس گئے۔

اگلے کئی دن سنسنی خیز تھے۔ دفتر کے بہت سے لوگوں کو ایکسپریس سے آفر لیٹر مل گئے اور سب کے انداز و اطوار بدلے بدلے نظر آنے لگے۔ لوگ کیلکولیٹر لے کر نئی آمدنی اور بچت کا حساب کرنے لگے۔ دبئی بہت مہنگا تھا۔ راس الخیمہ امارات کی سب سے غریب ریاست تھی۔ وہاں مکانوں کے کرائے کم تھے۔ زیادہ بچت ہونے کی توقع تھی۔

مجھ سے جس نے بھی پوچھا، میں نے سچ سچ بتایا کہ مجھے کوئی کال نہیں آئی۔ یہ ہرگز جھوٹ نہیں تھا۔ لوگ بھی سمجھ گئے ہوں گے کہ اس نالائق کو کون آفر دے گا۔

ادھر جیو کے کراچی ہیڈکوارٹرز کو انٹیلی جنس اطلاع مل گئی۔ ہنگامی بنیادوں پر ایک وفد کو دبئی آفس بھیجا گیا۔ جو لوگ اتاولے ہورہے تھے، ان سے ملاقاتیں کی گئیں۔ بعد میں دوستوں نے ہنس ہنس کر بتایا کہ انھوں نے حکام کے سامنے کیسے چوڑے ہوکر دھمکیاں دیں اور تنخواہوں میں اضافے کے لیے کیا مطالبات پیش کیے۔ میں نے سوچا کہ سب کے پیسے بڑھیں گے تو اپنے بھی بڑھ جائیں گے۔ اکڑفوں دکھانے کی کیا ضرورت ہے۔

چند دن بعد خاص دوستوں نے ایک خفیہ اجلاس میں فیصلہ کیا کہ جمعہ کے دن راس الخیمہ کا چکر لگایا جائے اور میڈیا سٹی کا معائنہ کیا جائے۔ تین دوست تو ہم ہوگئے، چوتھا ٹیکنیکل ڈپارٹمنٹ کا شہرام شہزاد اور پانچواں ٹیکنیکل منیجر شیراز عادل کیونکہ اس کے پاس ریو 4 تھی۔

جمعہ کو ہم چھٹی برباد کرکے راس الخیمہ پہنچے۔ چھوٹا سا شہر۔ سب دکانیں بند کیونکہ نماز کا وقت تھا۔ مبینہ میڈیا سٹی کے مقام پر دھول مٹی اڑ رہی تھی۔ لیکن ہماری آنکھوں پر ایسا نشہ طاری تھا کہ مستقبل کی سو منزلہ عمارتیں دکھائی دے رہی تھیں۔ نماز کے بعد ایک پاکستانی ریستوران ڈھونڈ کر کھانا کھایا اور ٹھنڈے ٹھنڈے واپس آگئے۔

پندرہ دن گزرے، بیس دن ہوئے، ایک ماہ ہوگیا، کسی بندے بشر نے رابطہ نہیں کیا۔ کوئی ڈیڑھ ماہ بعد خبر ملی کہ ایکسپریس والے آواری ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ ہم تینوں کا ٹولہ اسی طرح وہاں پہنچا۔ صرف عمران میر سے ملاقات ہوئی جنھوں نے تسلی دی کہ بس، تھوڑا سا انتظار اور۔ پھر دن پھرنے والے ہیں۔

چند دن بعد واقعی ان کے دن پھر گئے۔ جیو کے افسروں نے ایک ای میل کے ذریعے ہمیں اطلاع دی کہ عمران میر نے جیو جوائن کرلیا ہے اور انھیں دبئی کا اسٹیشن ہیڈ بناکر بھیجا جارہا ہے۔ عابد عبداللہ بھی چلے آئے اور انھیں جنگ کا ڈائریکٹر بنادیا گیا۔

About The Author