ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امی، دیکھیے میں آپ کے لیے کیسا زبردست کوٹ لے کر آئی ہوں۔ بیٹی سامان کھولے بیٹھی تھی۔
ہاتھ میں لش لش کرتا، قیمتی دکھتا کوٹ، واہ اتنا خوبصورت۔
پسند آیا؟
بہت۔ بہت۔
مما بہت گرم ہے پہن کر تو دیکھیں۔
پتہ ہے مجھے، امریکہ سے لائے ہوئے کوٹ بہت گرم اور آرام دہ ہوتے ہیں۔
کیسے پتہ آپ کو؟
ارے بیٹا سارا بچپن گزرا یہی کوٹ پہنتے پہنتے۔
بچپن میں؟ وہ کیسے؟ تب کون تھا باہر؟
تھے ہمارے ایک چچا؟
کون سے چچا؟ آپ کے تو کوئی چچا تھے ہی نہیں۔
تھے ایک چچا، جگت چچا۔
مما بتائیں نا؟
بھئی منٹو کے چچا سو ہمارے بھی۔
منٹو؟ مطلب سعادت حسن منٹو۔
ہاں تو اور کیا؟
مگر ان کے چچا آپ کے چچا کیسے ہوئے؟ وہ تو آپ کے پیدا ہونے سے پہلے ہی فوت ہو چکے تھے۔
بھئی ایک چچا ہیں جو ہر دور میں ہر کسی کے چچا کہلاتے ہیں۔ ہم نے ہنس کر کہا۔
افوہ۔ بجھارتیں نہ بھجوائیں، نام بتائیں۔
چچا سام۔
افوہ ماما، کیا کہہ رہی ہیں؟ انکل سام تو۔
مما آپ مذاق کر رہی ہیں نا۔ بیٹی نے گڑبڑا کر پوچھا۔
نہیں تو۔
امی۔ پلیز۔
اماں۔ بیٹی روہانسی ہو گئی۔
دیکھو نا کیا ٹھاٹھ ہیں ہمارے۔ تب بھی امریکہ سے لائے ہوئے برینڈز پہنتے تھے اور اب بھی۔ پہلے اماں چچا سام کی مدد سے پہناتی تھیں اور اب پیاری بیٹی۔
بیٹی کا چہرہ دیکھ کر ہنسی چھوٹ گئی۔
بٹیا رانی۔ تمہاری اماں کے دماغ کا فتور ہے جو کبھی کبھی بے چین ہو جاتا ہے اور وہ سب کچھ پنڈورا باکس سے نکال دینا چاہتا ہے۔
فتور۔ کیا واقعی؟ دل نے چٹکی بھری۔
اور وہ سرمئی شامیں نظر کے سامنے چلتی پھرتی دکھائی دینے لگیں۔
امی، مجھے کوٹ چاہیے؟ ایک آواز۔
مجھے بھی۔ دوسری آواز۔
میرا بھی چھوٹا ہو گیا ہے۔ تیسری آواز۔
اور میرا پرانا۔ چوتھی آواز۔
امی کے ماتھے پہ کچھ لکیریں تھیں، پریشانی؟ فکر؟ اداسی؟
بچے بڑے ہو رہے تھے اور چادر چھوٹی۔ اخراجات روز بہ روز زیادہ۔ کیا کریں؟
شام کو ابا کے پاس جا بیٹھیں جہاں ریڈیو زور زور سے بج رہا تھا۔
سنو جی، سردی آ گئی ہے اور بچوں کو نئے کوٹ چاہئیں۔
لے آؤ۔ ابا کس چیز کے لیے روکتے تھے بھلا؟
جو تنخواہ آپ نے لا کر دی تھی اس میں تو گنجائش نہیں نکلتی نئے کوٹ خریدنے کے لیے۔
ابا سوچ میں ڈوب گئے۔ تین چار کوٹ لینا تو واقعی مشکل ہو گا۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایک مہینے ایک بچے کو دلوایا جائے اور اگلے مہینے دوسرے کو۔
کچھ دیر خاموشی رہی۔
وہ۔ وہ۔ میں ایک بات سوچ رہی تھی۔ اگر آپ مناسب سمجھیں تو۔ امی کچھ ہچکچا کر بولیں۔
ہاں ہاں کہو۔ ابا نے فوراً کہا۔
آپ نے اپنے اماں ابا کے گزر جانے کے بعد گاؤں میں جن بزرگوں کا ماہانہ باندھا ہوا ہے اگر۔
ابا خاموش رہے۔
آپ کے پھوپھا خ، ، ان کے بھائی چچا ش، کزن بھائی م۔ تین منی آرڈر ہر مہینے آپ بھیجتے ہیں۔ میں نے کبھی منع نہیں کیا لیکن اگر اس بار ایک دو ماہ کا وقفہ کر لیا جائے تو بچوں کے کوٹ خریدے جا سکتے ہیں۔
ابا ابھی بھی خاموش تھے۔
مغرب کی نماز پڑھ کر ابا امی کے پاس آ بیٹھے۔
عظمت۔ تم نے جو کہا، وہ اصولی طور پہ ٹھیک تھا لیکن اخلاقی طور پہ نہیں۔ دیکھو وہ بوڑھے ہیں، ذریعہ آمدنی ان کا کوئی نہیں، اتفاق سے اولاد نرینہ بھی نہیں۔ سوچو وہ کس آس سے ان منی آرڈرز کا انتظار کرتے ہوں گے جو میں انہیں بھیجتا ہوں۔ کبھی کوئی دوا خریدنے کے لیے، کبھی کسی اور ضرورت کے لیے۔ سالہا سال کی روٹین ہے یہ۔ کیسے توڑوں ان کی آس؟
امی یہ سنتے ہی تڑپ اٹھیں۔ آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ ہم ان کو مایوس نہیں کر سکتے۔ میں کر لوں گی کچھ نہ کچھ۔ آپ بے فکر رہیں۔
امی ہم آج کوٹ لینے جا رہے ہیں نا۔ سب سے زیادہ ہم بے چین تھے کہ سردی بہت لگتی تھی دوسرے نئے کوٹ کا نرم گرم تصور بے چین کرتا تھا۔
ہاں بیٹا۔ ابھی چلتے ہیں۔
امی کے ساتھ ویگن پر بیٹھے اور چونکے تب جب امی نے کہا کہ صدر نہیں راجہ بازار جانا ہے۔ مگر امی ہمیں تو اللہ بخش ٹیلرز سے لینا ہے۔ سکول آتے جاتے دیکھا ہے ہم نے، ان کی ونڈو میں بہت خوبصورت کوٹ ہوتے ہیں۔ ہم نے ٹھنک کر کہا۔
ارے بیٹا۔ خوبصورت کوٹ چاہیے نا۔ راجہ بازار سے بھی مل جائے گا۔
وہاں کون سی دکان ہے امی؟
وہاں ایک نہیں، بہت سی دکانیں ہیں۔ امی بولیں۔
راجہ بازار کی اس گلی میں گھومتے پھرتے اتنی ورائٹی دیکھی کہ سمجھ نہ آئے کون سا لیں؟ خیر پھر ایک پر ہم نے ہاتھ رکھ ہی دیا، امی نے مول تول کیا اور ہم کوٹ پہن کر خوشی خوشی گھر آئے۔ ہاں ہم بتانا بھول گئے کہ چھوٹی بہن کے لیے بھی خرید لیا گیا۔
اگلے دن ہم خوشی خوشی کوٹ پہن کر سکول گئے۔ نرم گرم کوٹ میں ایسا سکون تھا کہ پاؤں زمین پر ہی نہیں ٹکتے تھے۔ لیکن دھچکا اس وقت لگا جب ہم مانیٹر ہونے کی حیثیت سے کسی کام کی غرض سے سٹاف روم گئے۔ چیک کی ہوئی کاپیاں اٹھا کر واپس لانے کے لیے مڑ رہے تھے کہ عقب سے کچھ کھسر پھسر کے ساتھ دبی دبی ہنسی سنائی دی۔ لگتا ہے کل ماں باپ نے لنڈے بازار کا چکر لگایا ہے۔
سمجھ آ گئی کہ کس کے متعلق بات ہو رہی ہے مگر کیوں سنتے ہم اور کیوں دل سے لگاتے؟ ہم جانیں اور ہمارے ماں باپ۔ جہاں سے مرضی پہنائیں۔ ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
ایک مسئلہ یہ ہوا کہ یونی فارم میں شامل سکول کوٹ کا رنگ شاید نیلا تھا یا سرخ، ٹھیک سے یاد نہیں۔ لیکن ہمارے کوٹ کا رنگ تو براؤن تھا۔ عام دنوں میں تو چل جاتا مگر جب ہم سکول کی نمائندگی کرنے نیشنل سنٹر یا ڈسٹرکٹ کے دوسرے سکولوں میں جاتے، تب ہماری ہیڈ مسٹر یس کی نظر میں براؤن رنگ کھٹکتا۔ ایک آدھ بار دبی زبان میں کہا کہ سٹیج پر کوٹ اتار کر جانا۔ لیکن ہماری انا ان کی شرمندگی سے زیادہ طاقتور تھی اور ہمیں اپنے ماں باپ کا پہنایا ہوا کوٹ جی جان سے پسند تھا۔ آج ہمارے پاس بے شمار تصویریں موجود ہیں جن میں ہم وہی براؤن کوٹ پہنے سٹیج پر موجود ہیں، بنا کسی شرم کے۔
زمانے بدلے۔ امی نے اللہ بخش ٹیلرز کا کوٹ بھی ایک روز خرید ہی دیا بلکہ ایک نہیں دو۔ جو ہم نے میڈیکل کالج میں پہنے۔ پھر وہ وقت آیا کہ انگریزی رسالوں میں نظر آنے والے کوٹ کنٹینر سے لینے کی بجائے نئی نویلی شاندار پیکنگ میں ٹیگ کے ساتھ بھی مل گئے۔ لیکن جب بھی کوئی نیا کوٹ پہنا۔ ایک آواز ضرور سنائی دی۔ لگتا ہے کل ماں باپ نے لنڈے بازار کا چکر لگایا تھا۔
اور آج جان عزیز ہمیں برینڈڈ کوٹ پہنا کر حیران ہوتی ہے جب ہم کہتے ہیں کہ لو ایسا کوٹ تو ہم نے بچپن میں ہی پہن لیا تھا۔
یہ بھی پڑھیے
ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر