ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیارے بھائیو۔ میرا مطلب ہے بھیڑیے بھائیو۔
” آپ سب نے وہ وڈیو دیکھی ہے نا پاور آف وژوول والی نا کہ مین کے اوپر کیا ایفکٹ ہوتا ہے وژوول آف وومن کا۔
یہ والا کونسیپٹ ہمیں اپنی بہنوں کو بیٹیوں کو سب کو بتانا چاہیے۔
کاش سمجھ جائیں، کاش سمجھ جائیں۔
عورت نہیں سمجھ سکتی کہ آدمی کا ذہن کتنا گندا ہوتا ہے۔
ہمارا یہ کام ہے کہ اپنی بیٹیوں کو، بہنوں کو بیویوں کو بتائیں کہ یہ سب بھیڑیے ہیں سارے، انہیں یقین دلائیں۔
اگر ایک سسٹر کو پتہ چل جائے کہ ایک مرد کے ذہن میں کیا چل رہا ہے۔
ڈس گسٹ ہوں گی۔
You ll stay 10 miles away، You will not come close۔ He will wait
وہ آپ کو گفٹ دے گا، تعریف کرے گا اور پھر آپ کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کر کے چلتا بنے گا۔ یوں نکلے گا۔
U r listening from horse ’s mouth ”
سن لیا بھیا بھیڑیے، یقین بھی کر لیا کہ آپ کی باتوں میں سچائی ہی اتنی تھی۔ بس ہوا یہ کہ کچھ حیرت بھی ہوئی کہ اپنے منہ سے بھیڑیے ہونے اور اپنے ذہن کو کچرا خانہ تسلیم کرتے ہوئے آپ چاروں کے چہروں پہ کوئی شرمندگی یا تاسف نظر نہیں آیا۔ شاید آپ خود کو مرد نہیں سمجھتے؟
ایک بے مثال جوش و خروش تھا آپ کے چہروں پر۔ عورت کی ہمدردی کے جذبے سے سرشار نظر آتے تھے آپ سب۔
ویسے آپ کی کم علمی اور کم فہمی پہ تھوڑی سی ہنسی بھی آئی اور بے اختیار سوچا ارے بھائی۔ سوری۔ بھول گئے ہم کہ آپ نے اپنے منہ سے اپنا نام منتخب کیا ہے سو ہم کہہ رہے تھے کہ بھیڑیے بھائی کس دنیا میں رہتے ہیں آپ؟
آج پتہ چلا آپ کو کہ مرد کیا ہوتا ہے؟ بڑے ہی معصوم ہیں آپ۔ واللہ ایسا لگا آپ پالنے سے سیدھے اٹھ کر مائیک کے سامنے آ بیٹھے ہیں، چار ننھے منے بچے، بڑے بننے کی چاہ میں نقلی داڑھیاں لگا کر کھیل کھیلنے کی کوشش میں۔
تو ہمارے بھیڑیے بھائیو، جیسا کہ آپ نے فرمایا سب مرد بھیڑیے ہوتے ہیں، کر لیا ہم نے یقین۔ آپ کی خواہش کے احترام میں۔ مگر اے چارہ گر کچھ علاج بھی تو؟
سیانے کہتے ہیں کہ جب بھیڑیے کھلے عام پھرنا شروع ہو جائیں اور معصوم بھیڑوں کا خون پینا شروع کر دیں تو بھیڑیوں کے پاؤں میں زنجیر ڈال کر انہیں سلاخوں کے پیچھے رکھنا چاہیے تا کہ بے قصور بچ سکے۔
سو بھیڑیے بھائیو، کیا کبھی آپ نے اپنے ساتھی بھیڑیوں کو سمجھانے کا سوچا جو عورت عرف بھیڑ کا شکار کرتے ہیں؟ بقول آپ کے چارہ یعنی تحفے دیتے ہیں، چکنی چپڑی باتیں کرتے ہیں اور پھر استعمال کرتے ہوئے ٹشو پیپر کی طرح پھینک کر چلتے بنتے ہیں۔
کیا کبھی آپ نے اس طرح کا لیکچر بھیڑیے بھائیوں کے گوش گزار کیا کہ خدارا عورت کی عزت کرنا سیکھو، اسے استعمال کی چیز نہ سمجھو؟
کیا کبھی آپ نے عورت کو چیر پھاڑ کر کے پھینک جانے والے بھیڑیوں کو سدھارنے کے لیے کوئی منصوبہ بنایا؟
کیا کبھی احتجاج میں باہر نکلے کہ اس معاشرے میں بھیڑیوں کا راج کیوں ہے؟ کیا کسی بھیڑیے کا ہاتھ پکڑ کر اسے روکنے کی کوشش کی؟
لگتا ہے کہ آپ یا تو ساتھی بھیڑیوں سے ڈرتے ہیں یا ان کی محبت میں اس قدر گرفتار ہیں کہ سمجھ نہیں آ رہی کہ اپنی برادری کے خلاف کیسے کھڑے ہوں؟ قبیلے والوں سے کیسے ٹکر لیں؟
آپ کو رہ رہ کر ایک ہی حل نظر آتا ہے کہ کمزور ہی جو مزید تاکید کی جائے کہ چھپ جاؤ، باہر نہ نکلو، دس میل دور بھاگ جاؤ، مقابلہ نہ کرو، خود کو طاقتور مت بناؤ۔
بھیڑیے بھائیو، بہنوں بیٹیوں کی محبت میں اس قدر ہلکان ہوتے دیکھ کر اچھا لگا مگر کاش آپ وہ چورن نہ بیچتے جس سے آپ کو دوسرے بھیڑیے ملینز فالورز بن کر تو مل جاتے مگر معاشرے کی عورت کے گرد کھڑی دیواریں اور بلند ہو جاتیں۔
آپ نے عورت کو بھیڑیوں سے دس میل دور رہنے کا مشورہ دیا ہے مگر یہ نہیں بتایا کہ وہ بچیاں کیا کریں جن کی چیر پھاڑ گھر کی چھت تلے، گھر میں پلنے والے بھیڑیے ہی کرتے ہیں۔
آزاد کشمیر میں ہونے والی خبر تو پڑھ ہی لی ہو گی جہاں نو بچوں کے باپ نے دسواں بچہ اپنی چودہ سالہ بیٹی کے بطن سے پیدا کیا۔ لڑکی کے بھائی نے بھی اس کار خیر میں اپنا حصہ بقدر جثہ ڈالا۔
بتائیے اب کیا کریں؟ روئیں یا ہنسیں؟ گھر میں پلنے والے بھیڑیوں سے کیسے بچیں؟
اور ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔
کچھ اور واقعات بھی سنا دیتے ہیں آپ کو۔
2019 میں اسماعیل گوٹھ قبرستان کراچی میں دفن ہونے والی بدقسمت کو کچھ ہی گھنٹوں بعد قبر میں بھی نہیں چھوڑا گیا۔ کیا تھا قبر میں؟ ایک مردہ جسم۔ اوہ ہم بھول رہے ہیں، بھیڑیے کو کیا فرق پڑتا ہے کہ بھیڑ زندہ ہے یا مردہ؟
2011 میں محمد ریاض نے نارتھ ناظم آباد کے قبرستان میں اڑتالیس دفن ہونے والی عورتوں کا قبر میں ریپ کیا۔ شاید ریاض نامی بھیڑیا اپنے دیے ہوئے تحفوں کا حساب کتاب کرنے قبرستان تک آ پہنچا تھا؟
فروری 2020 میں اوکاڑہ کے ایک قبرستان میں اشرف نامی مرد نے یہ کارنامہ پھر سے سر انجام دیا۔ مان گئے بھی مان گئے، بھیڑیے ہر طرف ہیں۔
جون 2019 میں راولپنڈی کے گولڑہ شریف کی رہائشی چودہ برس کی بچی جسے کسی غیر مرد نے نہیں، تین سگے بھائیوں نے دو برس مسلسل اپنی ہوس کا نشانہ بنایا اور ان تین میں سے ایک بھائی صاحب کا تعلق مدرسے سے بھی تھا۔ رات کے اندھیرے میں اپنے ہی بھائی، اپنے ہی گھر میں، اپنی ہی ننھی بہن کو باری باری بے لباس کرتے ہوئے۔
کچھ بتائیے یوتھ کلب کے کرتا دھرتا، ان بھیڑیوں سے دس میل دور کیسے بھاگیں؟
رتہ امرال راولپنڈی ( فروری، 2020 ) کی اس بچی کو مت بھولیے جو ماں کے انتقال کے بعد باپ کے کام پہ جانے کے بعد گھر میں اکیلی ہوتی تھی اور اس اکیلی چھوٹی بچی پہ تین ادھیڑ عمر ہمسائے بھیڑیوں نے اپنے ہاتھ صاف کیے اور ماں بنا دیا۔ خبر نہیں بچی نے کس کس سے کیا تحفہ لیا تھا؟
جون 2019 میں گرجا روڈ راولپنڈی کی رہائش پذیر ایک بچی اپنے سگے باپ کے ہاتھوں بار بار ریپ ہوئی اور اپنے سگے باپ کے بچے کی ماں بن گئی۔ اس بھیڑیے باپ کا کیا کریں، کچھ روشنی ڈالیے اس پر؟
اکتوبر 2018 میں کتار بند روڈ ٹھوکر نیاز بیگ لاہور کے رہائشی بھیڑیے نے اپنی پانچ برس اور نو برس کی بچیوں کو کئی برس مسلسل ریپ کیا۔ بچیوں نے ماں کو بتایا
” امی، ابا ہمارے ساتھ گندی حرکتیں کرتا ہے“ ۔ مجبور عورت نے پولیس کو اطلاع دی اور پولیس نے یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ ثبوت موجود نہیں۔ ماں نے ڈھیٹ اور شرم سے عاری باپ کو پھر سے بچیوں کے ساتھ ظلم کرتے دیکھا تو وڈیو ریکارڈ نگ کے ثبوت کے بعد پولیس کو یقین دلانے میں کامیاب ہوئی۔
نومبر 2019 ملتان کی ساکن تیرہ سالہ بچی جو اپنے گھر میں سگے باپ نے اپنے چار دوست بھیڑیوں کے ساتھ مل کے ریپ کی۔
قصور کی زینب اور اسلام آباد کی فرشتہ مومند جنہوں نے بھیڑیوں سے صرف لالی پاپ لینے کا گناہ کیا مگر دونوں کو خراج کی صورت میں موت کو گلے لگانا پڑا۔
6 ستمبر 2020 کراچی میں لاپتہ ہو کے جھلسی ہوئی لاش کی صورت میں کوڑے کے ڈھیر پہ پائی جانے والی پانچ برس کی مروہ، نہ جانے کس بھیڑیے کے ہاتھ چڑھی؟
موٹر وے پہ کھڑی عورت نے تو یقین کیجیے کسی سے کوئی تحفہ نہیں لیا تھا، نہ چکنی چپڑی باتوں میں آئی تھی لیکن پھر بھی ٹشو پیپر بن کر بھیڑیوں کی گندگی سمیٹنی پڑی۔
کیا سمجھے آپ؟ کچھ اندازہ ہوا یوتھ کلب کے چورن بیچنے والے بھائیو عرف بھیڑیو؟
مسئلہ نہ عورت کا لباس ہے اور نہ لباس کا حجم۔ نہ چڑھتی جوانی کی جھلک اور اور نہ ہی ناز و انداز۔ نہ سکول کالج یا یونیورسٹی کی تعلیم اور نہ دفتر کی نوکری اور مردوں کا ساتھ۔ نہ گھر سے باہر اکیلے نکلنے کا مسئلہ ہے اور نہ دن کا کوئی وقت اور رات کا پچھلا پہر۔ نہ کھلکھلاتی ہوئی ہنسی اور باتیں۔ نہ چادر، نقاب اور حجاب ہے اور نہ میک اپ اور بالوں کا ڈھکے نہ ہونا!
پھر وجہ کیا ہے آخر عورت کے ٹشو پیپر بن کر استعمال ہونے کی؟
مسئلہ یہ ہے جو آپ کو سمجھ نہیں آتا کہ کہ مرد عورت کے جسم اور ذات کو اپنی ملکیت سمجھتا ہے۔ ٹھیک کہا آپ نے کہ گھیرنے کے مختلف طریقے ہیں لیکن ان طریقوں کے پیچھے سوچ ایک ہی ہے۔
عورت کا جسم مرد کی نظر میں ایک ایسی ارزاں چیز جس پہ جب چاہے، جیسے چاہے کوئی آ کے اپنی مہر ثبت کرے اور چلتا بنے۔
عورت کا جسم گوشت کا ایسا ٹکڑا ہے جسے مرد جب چاہے استعمال کرے چاہے وہ سڑک پہ ہو یا گھر میں، دفتر میں ہو یا سکول میں، ہسپتال میں ہو یا قبر میں، ماں کی گود میں ہو یا مسجد میں۔ جب چاہو چٹکی بھر لو، جب چاہو ہاتھ پھیر لو، جب چاہو روند کے گزر جاؤ اور جب چاہو چیر پھاڑ کے رکھ دو۔
سو پیارے بھیڑیے بھائیو، عورت چاہے اپنے گھر میں ہو یا قبر میں، تب بھی بھیڑیوں سے بچ نہیں سکتی۔
تو اے چارہ گر، اپنی توپوں کا رخ بھیڑیوں کی طرف موڑو اور بناؤ پچاس سو وڈیوز ان بھیڑیوں کے لیے جو تمہیں شوق سے سنتے ہیں شاید تمہاری زبان سے کی گئی سنہری تلقین سب کے ذہنی کچرے کو کچھ کم کر سکے۔
و السلام
وہ بے بس عورت عرف بھیڑ جسے تم بھیڑیوں سے بچانا چاہتے ہو۔
یہ بھی پڑھیے
ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر