محمد عامر خاکوانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج جو کہانی ہم سنانے جا رہے ہیں ، وہ بہت دلچسپ اور سنسنی خیز ہونے کے ساتھ اپنے اندر سبق سموئے ہوئے ہے ۔ ایسے سبق جن سے کوئی نہیں سیکھنا چاہتا ۔ کہتے ہیں تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہی ہے کہ اس سے کوئی سبق نہیں سیکھتا ۔
خیر آج ہم تاریخ اور اس کے فلسفوں پر بات کرنے کے بجائے کہانی تک ہی محدور رہیں گے ۔
سکول کے زمانے میں اکثر چند پوائنٹس یا ہنٹس دینے کے بعد ان پر کہانی لکھنے کا کہا جاتا تھا ۔ آج ہم اسی ایکسرسائز کو دہراتے ہیں :
’’سپریم کورٹ اور وفاقی حکومت میں ٹکراءو، وزیراعظم اور وزرا کا چیف جسٹس آف پاکستان پر پارٹی بننے اور خلاف فیصلے کرنے کا الزام، میڈیا میں حکومت نواز صحافیوں کی چیف جسٹس کے خلاف مہم، چیف جسٹس کا اپنی سربراہی میں تین رکنی بنچ بنائے رکھنے پر اصراراور اہم ترین کیسز اسی بنچ میں زیربحث لانے کا ارادہ، پارلیمنٹ سے ایسی قانون سازی جو اعلیٰ عدلیہ خاص کر چیف جسٹس کے اختیارات کم کرنے کی کوشش ہو،اس سب میں اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے نیوٹرل رہنے کا تاثر،
صدر کی جانب سے پارلیمنٹ کے منظور کردہ بل پرفوری دستخط کرنے سے گریز،حکومت کی صدر کے مواخذہ کی دھمکی ، وفاقی حکومت کی جانب سے چیف جسٹس اور ان کے بنچ کے ججوں کے خلاف ریفرنس لانے کا اشارہ، سپریم کورٹ ہی کے بعض دیگر ججوں کی جانب سے ایسے فیصلے جو ان کے چیف جسٹس کے موقف کے خلاف ہوں ، حکومت کی شعوری کوشش کہ اعلیٰ عدلیہ میں تقسیم بڑھائی جائے ۔
پھر فائنلی بڑا تصادم ۔ جس میں کسی کی ہار ، کسی کی جیت ہوئی ۔ ایسی جیت جو شرمندگی میں لپٹی ہو ۔ ‘‘
کیا یہ تمام اشارے آپ کو آج کل کے حالات کی خبر دے رہے ہیں ;238; کیا آپ کو لگ رہا ہے کہ اسلام آباد میں چیف جسٹس سپریم کورٹ اورحکومت کے مابین تصادم کی صورتحال کو ان پوائنٹس میں بیان کیا گیا ۔ کیا صدر سے مراد صدر عارف علوی ہیں؟
نہیں ایسا نہیں ۔ بے شک آج بھی کم وبیش وہی صورتحال ہے ۔ یہ کہانی مگر آج سے چھبیس سال پہلے کی ہے ۔
1997: اسلام آباد میں ایک نئی حکومت آ چکی ہے ۔ وزیراعظم نواز شریف ہیں ، صدر فاروق لغاری جبکہ چیف جسٹس سپریم کورٹ سجاد علی شاہ ہیں ۔
اس کہانی میں ایک ہفتہ بہت اہم ہے ۔ سات دن جنہوں نے اس ملک کا بہت کچھ بدل ڈالا ۔ یہ سات دن چھبیس نومبر سے دو دسمبر 97تک کے ہیں ۔
کہانی مگر اس سے پہلے شروع ہوتی ہے ۔
پہلے یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ اس پورے تصادم سے پہلے چیف جسٹس سپریم کورٹ اور صدر منتخب وزیراعظم کے مخالف نہیں تھے ۔ صدر لغاری نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی اسمبلی توڑی تھی، وہ پیپلزپارٹی کی نظروں میں سخت معتوب تھے جبکہ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے اس اسمبلی کے توڑے جانے کو جائز قرار دیا تھا ۔
نواز شریف نے وزیراعظم بننے کے چند ہی ہفتوں بعد پارلیمنٹ سے تیرویں ترمیم منظور کرالی جس کی رو سے صدر کو اسمبلی توڑنے کا اختیار اب حاصل نہیں رہا تھا ۔ اس کے بعد چودھویں ترمیم بھی منظور کی گئی جس کی رو سے فلور کراسنگ کرنے والے ارکان اسمبلی ڈی سیٹ ہوجائیں گے ۔ ان دونوں ترامیم نے وزیراعظم نواز شریف کو بہت زیادہ طاقتور بنا دیا تھا ۔ صدر کے پر کترے جا چکے تھے جبکہ اراکین پارلیمنٹ کی بلیک میلنگ سے بھی مکمل آزادی مل چکی تھی ۔
جھگڑا تیرویں ترمیم کا نہیں تھا
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جھگڑا تیرویں ترمیم کا تھا ۔ یہ بات درست نہیں ۔ جھگڑا اس ترمیم کے کئی ماہ بعد شروع ہوا اور وجوہات دوسری تھیں ۔ ویسے بھی تیرویں ترمیم کے بعد صدر لغاری نے اعلانیہ کہا تھا کہ وہ خود بھی تیرویں ترمیم کے حق میں تھے ۔
سپریم کورٹ ،نواز شریف حکومت میں اختلاف کی وجہ
چیف جسٹس آف پاکستان اورحکومت کے درمیان ٹکراءو کی دو بڑی وجوہات تھیں ۔
پہلی وجہ
وزیراعظم نواز شریف نے نجانے اپنے کن مشیروں کے کہنے پرتیرہ اگست 97 کو ایک اینٹی ٹیررازم بل اسمبلی سے منظور کرایا تھا جو کئی اعتبار سے نہایت خطرناک، نقصان دہ اور غیر جمہوری ہونے کے ساتھ انصاف کے بنیادی تقاضوں کے بھی خلاف تھا ۔ اس بل میں پولیس کو بے پناہ اختیارات دئیے گئے تھے ۔ اس بل پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے شدید احتجاج کیا ۔
اس بل میں دو بہت خطرناک کام ہوئے، ایک تو پولیس کو ملزم کو موقعہ پر شوٹ کرنے کا اختیار دے دیا گیا، دوسرا پولیس کی تحویل میں ملزم کے دئیے گئے اعترافی بیان کو بطور شہادت پیش کیا جا سکتا تھا ۔ دہشت گردی کے کیسز کے لئے سپیشل سمری کورٹس بنائی جانی تھیں جو سات دنوں کیسز کے فیصلے کریں اور پھر ان پر فوری عملدرآمد بھی ہوجائے ۔ وکلا، سیاسی کارکنوں اور ہومین راءٹس ایکٹوسٹس کاکہنا تھا کہ پاکستانی پولیس مارپیٹ کر اپنی مرضی کا بیان لینے کے حوالے سے بدنام ہے، وہ تشدد کر کے اعترافی بیان لے گی اور یوں بے گناہوں کو بھی سزا ہوجائے گی ۔ ایک خطرہ یہ بھی تھا کہ اس بل کو حکومت اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال بھی کرے گی ۔
سپریم کورٹ میں اس بل کو چیلنج کیا گیا تو چیف جسٹس نے بل کے بعض حصوں کو خلاف آئین اور قانون قرار دیا ۔ یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ یہ بل قانون شہادت اور کئی آئینی شقوں سے متصادم تھا ۔ وزیراعظم اور بعض دیگر رہنماءوں نے اس پر سخت ردعمل دیا اور توہین عدالت پر مبنی کمنٹس دئیے، وہ کمنٹس بعض اخبارات میں شاءع ہوئے ۔ سپریم کورٹ نے اس پر توہین عدالت کی کارروائی شروع کر دی ۔
حکومت اور سپریم کورٹ کے درمیان خلیج پیدا ہوئی جو بڑھتی گئی، تلخیوں میں ہرگزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہی ہوا ۔
دوسری وجہ
اس سے پہلے چیف جسٹس آف پاکستان نے سپریم کورٹ میں ججوں کی خالی سیٹیں پر کرنے کے لئے حکومت کو خط لکھا تھا ۔ بیس اگست کو یہ خط لکھا گیا ۔ آئین کے مطابق سپریم کورٹ میں سترہ جج ہونے چاہیں ، تاہم تب سپریم کورٹ میں صرف بارہ جج تھے ، جس کے باعث کا م کا ہرج ہو رہا تھا ۔ چیف جسٹس نے ہائیکورٹس کے پانچ سینئر ترین ججوں کو سپریم کورٹ بھیجنے کا کہا ۔
حکومت نے سپریم کورٹ میں پہلے جج دینے سے تامل کیا اور پھر کہا کہ پانچ کے بجائے صرف تین جج ابھی لے لئے جائیں ۔ چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا، ان کا کہنا تھا کہ پانچ جج نہ دینے کی کوئی ٹھوس وجہ بتائی جائے ۔
حکومت جج کیوں نہیں دے رہی تھی
ویسے پانچ جج نہ دینے کی کوئی معقول وجہ نہیں تھی ۔ دراصل نواز شریف حکومت تب کے چیف جسٹس لاہورکورٹ کو سپریم کورٹ نہیں بھیجنا چاہ رہی تھی ۔ ن لیگ کا خیال تھا کہ چیف جسٹس ہائی کورٹ ان کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں ۔ اپنے حامی چیف جسٹس ہائی کورٹ کو وہ اوپر عدالت عظمیٰ میں نہیں بھیجنا چاہتے تھے ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پانچواں جج سپریم کورٹ نہ بھیجنے کی وجہ یہ تھی کہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے بعدجو سینئر موسٹ ہائی کورٹ جج تھا ، اس کے دلیرانہ اور مضبوط فیصلوں سے ن لیگی رہنماخاءف تھے ۔ انہیں خدشہ تھا کہ اگر وہ جج سپریم کورٹ چلا گیا تو آئندہ کئی برسوں تک ان کی چھاتی پر مونگ دلتا رہے گا اور چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو بھی تقویت ملے گی ۔ پھر یہ بھی تھا کہ اگر چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کو سپریم کورٹ بھیجا گیا تو سینئر موسٹ ہونے کے ناتے یہ چیف جسٹس ہائی کورٹ بن جائے گا اور اس سے مسلم لیگی حکومت کی مشکلات مزید بڑھ جائیں گی ۔ یہ سب باتیں مگر ایسی تھیں جو پبلک میں نہیں کہی جا سکتی تھیں ، اس لئے چیف جسٹس سپریم کورٹ کے مطالبے پر آئیں بائیں شائیں کا سلسلہ جاری رکھا گیا ۔
یہ معاملہ چلتا رہا، آخر حکومت نے معاملہ کھوہ کھاتے ڈالنے کے لئے فیصلہ کیا کہ سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد ہی سترہ کے بجائے بارہ کر دی جائے ۔ اس مقصد کے لئے ایک صدارتی حکم جاری کرایا گیا ۔
چیف جسٹس نے صدارتی آرڈر معطل کر دیا
پانچ ستمبر 97: چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے تین رکنی بنچ کی صدارت کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد سترہ سے بارہ کرنے کاصدارتی آرڈر معطل کر دیا ۔ اس حکم کو سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا ۔
مزے کی بات ہے کہ سپریم کورٹ بار کے تب صدر اکرم شیخ تھے، شیخ صاحب طویل عرصے سے میاں نواز شریف کے قریبی ساتھی اور معتمد قانونی مشیر تھے ۔ پیپلزپارٹی مسلم لیگ کشمکش میں وہ ہمیشہ مسلم لیگ اور نواز شریف کے ساتھ رہے تھے، تاہم شیخ صاحب کے مطابق وہ وزیراعظم نواز شریف کے موجودہ غیر جمہوری اقدامات کی تائید نہیں کر سکتے ۔
حکومت کا ردعمل
سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر بھی حکومتی ردعمل آتا رہا ۔ حکومتی وزرا اس پر برہم تھے اور وہ مسلسل پارلیمنٹ کی سپرمیسی کے نعرے لگاتے رہے ۔ تیئس اکتوبر کو صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ صرف پارلیمنٹ ہی سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد کا تعین کر سکتی ہے ۔ یہ کام عدالت کا نہیں ، قانون بنانا پارلیمنٹ کا حق ہے وغیرہ وغیرہ ۔
مفاہمت کی کوششیں
اکتیس اکتوبر 97: وزیراعظم نواز شریف نے قومی اسمبلی میں یہ یہ بیان دے کر ہر ایک کو حیران کر دیا کہ حکومت چیف جسٹس کی ڈیمانڈ پوری کرے پر تیار ہے ۔ انہوں نے قومی اسمبلی کے فلور پر یہ یقین دہانی کرائی ۔
ان سائیڈ ذراءع سے اطلاعات سامنے آئیں کہ مختلف حلقوں کی جانب سے پس پردہ رہ کر حکومت سپریم کورٹ تنازع حل کرانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ قوم پر امید ہوئی کہ اب بحران ختم ہوگیا اور اب سکون ہوجائے گا ۔
بات مگر ختم نہیں ہوئی تھی ۔
نواز شریف، سجاد علی شاہ ملاقات
نہایت ذمے دار ذراءع سے ملنے والی معلومات سے ایک اہم ملاقات کی تفصیل بھی لکھ رہا ہوں ۔ کہا جاتا ہے کہ ایک بڑے اور نظریاتی میڈیا ہاءوس کے سربراہ بزرگ صحافی نے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو درخواست کی کہ وہ لاہور آ کر وزیراعظم نواز شریف کے گھر ان سے ملاقات کر لیں ۔ سجاد علی شاہ مذکورہ بزرگ صحافی کا احترام کرتے تھے، انہوں نے ہامی بھر لی ۔ لاہور میں یوم اقبال کی تقریب میں چیف جسٹس کو بطور مہمان خصوصی بلایا گیا ۔ تقریب سہہ پہر کو تھی، مذکورہ بزرگ صحافی چیف جسٹس کو ساتھ لے کر جاتی عمرہ گئے جہاں وزیراعظم نواز شریف نے لنچ پر ان کی میزبانی کی ۔
کہاجاتا ہے کہ وہاں پر میاں نواز شریف نے مبینہ طور پرسجاد علی شاہ کو کہا کہ آپ ہمارا ساتھ دیں تو ریٹائرمنٹ کے بعد ہم آپ کو اس سے بھی بڑے منصب پر فائز کریں گے(غالباًصدر پاکستان کا عہدہ مراد تھی) ۔ چیف جسٹس یہ سن کر بڑے بدمزہ ہوئے اور انہوں نے تلخی سے کہا میں سیاستدان نہیں کہ آپ کا ساتھ دوں ، میں جج ہوں اور میرا کام تو انصاف کرنا ہے ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جسٹس سجاد علی شاہ کو میاں نواز شریف نے مبینہ طور پر کہا کہ ہم ججز دینے کے لئے تیار ہیں ، مگر آپ پلیز ’’اباجی‘‘کو قائل کریں ۔ چیف جسٹس سجاد علی شاہ اس پر بڑ ے بھنائے اور چٹخ کر بولے، اباجی کو قائل کرنا میرا کام نہیں ۔ وزیراعظم آپ ہیں ، میاں شریف نہیں ۔ یوں ملاقات ناکام ہوئی ۔ بزرگ صحافی جو میاں نواز شریف کے سرپرست سمجھے جاتے تھے،ا س حوالے سے ان کی رائے سجاد علی شاہ کے حق میں ہوگئی، نجی محفلوں میں وہ یہ بات کہا کرتے تھے ۔
نومبر کا کٹھن اور پرپیچ نشیب وفراز والا مہینہ آگے بڑھتا گیا ۔
جنگ شدت پکڑتی گئی ۔ آنے والے دنوں میں حکومت اور سپریم کورٹ نے آمنے سامنے آ کر لڑنا تھا ۔
پھر وہ سات دن بھی آنے ہیں ، چھبیس نومبر سے دو دسمبر 97ء تک کے سات دن ، جب ملک میں بہت کچھ بدل گیا ۔
ان دنوں اور جنگ کے شدید ترین لمحات کی تفصیل کے لئے اس عدلیہ کہانی کا دوسرا حصہ ان شا اللہ کل پڑھیئے گا
یہ بھی پڑھیے:
عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر